ڈاکٹر جزبیہ شیریں
پاکستان میں پیر، مزار، فقیروں اور درویشوں کا ایک ایسا نیٹ ورک قائم ہے کہ جہاں آپ جائیں، وہاں ان کا کوئی نہ کوئی آستانہ، دربار یا "مشکل کشا” ضرور ملے گا۔ اور اگر آپ نے ان کا پِیچھا نہ چھوڑا تو آپ کو یہ بتانے والا کوئی نہ کوئی بندہ مل جائے گا کہ اس جگہ پر کرامات ہوتی ہیں، یہاں پر دعا کرنے سے ہر مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان "صاحب کرامت” کی زندگی بھی عیش و عشرت سے بھری ہوتی ہے۔ ان کے پاس مہنگے ترین گاڑیاں، بڑے بڑے محل، اور بے شمار عقیدت مند ہوتے ہیں جو ان سے اپنی مشکلات کا حل مانگتے ہیں، لیکن آخرکار ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، اور نہ ہی ان کے پیچھے جانے والوں کی حالت بہتر ہوتی ہے۔
اگر آپ ان مزاروں اور آستانوں کے "زیارت کنندگان” کی بات کریں تو وہ آپ کو اکثر غمگین، پریشان حال اور مایوس نظر آئیں گے۔ ان کے سامنے بیٹھا "پیر صاحب” دعاؤں، وظیفوں اور تعویزوں کے ذریعے ان کی مشکلات حل کرنے کی "کوشش” کرتا ہے، مگر نتیجہ ہمیشہ صفر ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہوتا ہے؟ آخرکار یہ لوگ ہر سال درباروں پر ہزاروں روپے کیوں خرچ کرتے ہیں؟ کیا یہ واقعی کرامات کا نتیجہ ہے، یا پھر یہ بس ایک دھوکہ ہے جس کے ذریعے لوگوں کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے؟
پاکستان میں خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں یہ منظر عام پر ہے۔ وہاں آپ کو ہر چوراہے پر ایک نہ ایک مزار یا آستانہ نظر آ جائے گا۔ اور اگر آپ ان "بابوں” کی حقیقت کو کھوجنے نکلیں، تو آپ کو ایسا لگے گا کہ شاید یہاں تو کرامتیں خود بخود گھوم کر آ جاتی ہیں! لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ صرف لوگوں کے جذبات اور عقائد کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ ان "پیر صاحب” کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو یقین دلا سکیں کہ ان کے پاس اللہ کا خصوصی فضل ہے، اور جو لوگ ان کے دربار پر آئیں گے، ان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔
پاکستان میں پیر، مزار، اور آستانوں کے پیچھے چلنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہ ہے جو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ذہنی جاہلیت کا شکار ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے کئی افراد یونیورسٹی کی ڈگریاں رکھتے ہیں، لیکن ان کی سوچ میں ابھی بھی بہت ساری قدیم جاہلی اعتقادات جڑے ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کے ترقی یافتہ حصوں میں ہونے والی تبدیلیوں، سائنس، اور جدیدیت سے ناواقف ہیں، یا پھر وہ ان سب کو محض مفروضے سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے مسائل کا حل "پیر صاحب” سے مانگتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک یہ ایک آسان راستہ ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ان کی ذہنیت میں وہ خامیاں اور دقیانوسی خیالات باقی رہ جاتے ہیں جو انہیں سچ اور جھوٹ کی تمیز نہیں کرنے دیتے۔ ان لوگوں کے لیے محنت اور عقل سے مسائل حل کرنا ایک پیچیدہ کام لگتا ہے، اس لیے وہ کسی "مشکل کشا” کے دربار پر جا کر اپنی تقدیر بدلنے کی امید رکھتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ "پیر” اور "مرید” کا یہ دھندا اب تک چل رہا ہے، اور تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ابھی بھی اس ذہنی جاہلیت کا شکار ہیں جو اس قسم کی خرافات پر یقین رکھتے ہیں۔
اس کی ایک مثال چند مہینے پہلے کا ایک واقعہ ہے جب ایک "پیر صاحب” جو سندھ کے ایک علاقے میں اپنی کرامات کا دعویٰ کر رہا تھا، پکڑا گیا۔ یہ "پیر” ایک دن پر اسرار طریقے سے غائب ہو گیا تھا اور لوگوں کے پیسوں اور زیورات کی بڑی مقدار بھی ساتھ لے کر چلا گیا تھا۔ بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ سب کچھ ایک منظم دھوکہ تھا۔ اس "پیر” کی حقیقت اس وقت کھلی جب پولیس نے اس کی تلاش شروع کی، اور اس کے خلاف فراڈ کا مقدمہ درج کیا۔ اس کے بعد لوگوں کی آنکھیں کھلیں، لیکن کچھ لوگ ابھی تک اس سے جڑے رہے، اور یہ بتانے کی کوشش کرتے رہے کہ "پیر صاحب” تو واقعی کرامت رکھتے تھے۔
یہ وہ حقیقت ہے جو ہمیں ہر روز نظر آتی ہے۔ اور جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آخرکار ان لوگوں کو اپنے مسائل حل کرنے کے لیے ایسے "پیر” کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ ان کے پاس تعلیم ہے، وسائل ہیں، لیکن وہ ابھی بھی ان باتوں پر یقین کرتے ہیں جو حقیقت میں محض دھوکہ ہیں۔ ان کی عقل میں یہ سوال نہیں آتا کہ یہ پیر صاحب جو لاکھوں روپے کما رہے ہیں، ان کے پیچھے ان کے عقیدت مندوں کی محنت اور ایمان ہے۔
پاکستان میں ماضی میں پیر، مزار، اور درویشوں کا ایک مضبوط اثر رہا ہے۔ تاریخی طور پر جب سکھوں، مغلوں اور دیگر سلطنتوں نے پاکستان کے مختلف علاقوں پر حکمرانی کی، تو یہاں کے لوگ اس وقت بھی مزاروں اور آستانوں کی طرف رجوع کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہاں اللہ کے خاص بندے موجود ہیں جو ان کی مشکلات کا حل نکال سکتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس نظام نے تجارتی شکل اختیار کر لی ہے۔ ماضی میں یہ "پیر” لوگ واقعی میں لوگوں کی خدمت کرتے تھے، لیکن آج کل ان کا کام بس ایک "کاروبار” بن چکا ہے۔
پاکستان میں ایسے لوگوں کا ایک بہت بڑا جال ہے جو لوگوں کو ہدایات دیتے ہیں کہ وہ اس مزار پر جائیں، وہاں بیٹھیں، اور ان کے مسئلے کا حل مل جائے گا۔ اب آپ خود سوچیں کہ اگر واقعی یہ سب "پیر” اتنے طاقتور ہیں، تو کیوں نہ وہ خود دنیا بھر میں امن، خوشحالی اور خوش قسمتی لے کر آئیں؟ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ان کے "وظیفے” اور "تعویذ” کسی کے لیے بھی کام نہیں آتے، اور بس یہ لوگ دوسروں کی جیبوں سے پیسے نکالنے میں ماہر ہوتے ہیں۔
یورپ، امریکہ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کے جال نہیں ہیں، کیوں کہ وہاں لوگ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ ان ممالک میں اگر آپ کو کسی سے کچھ چاہیے تو آپ اپنے حقوق کے لیے قانونی طریقے سے درخواست کر سکتے ہیں۔ وہاں لوگ اپنے مسائل کا حل محنت، تعلیم اور سسٹم کی مدد سے نکالتے ہیں۔ ان کے یہاں نہ کوئی "پیر” ہے، نہ کوئی "درویش”، اور نہ ہی جن، جنات یا کالا جادو۔ لیکن پھر بھی وہ ممالک پاکستان سے کہیں زیادہ خوشحال اور ترقی یافتہ ہیں۔
پاکستان میں یہ پیر، مزار، اور آستانے ایسے سسٹمز ہیں جو لوگوں کی ذہنیت کو اس طرح متاثر کرتے ہیں کہ وہ اپنی تقدیر کو بدلنے کی بجائے، اپنے مسائل کو کسی دوسرے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود، ان ممالک کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ ان کی تعلیم، قانون کی حکمرانی اور لوگوں کا اس بات پر یقین ہے کہ اگر وہ محنت کریں گے تو ان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔
خلاصہ یہ کہ پاکستان میں پیر، مزار، اور آستانوں کا جال، صرف لوگوں کو دھوکہ دینے کا ایک طریقہ بن چکا ہے۔ جب تک ہم اس عقیدت پسندی اور شخصیت پرستی کے اس غیر منطقی نظام کو نہیں توڑیں گے، ہم ترقی کی راہ پر نہیں بڑھ سکتے۔