Skip to content

یومِ مزدور اور پاکستان میں محنت کش طبقہ کے مطالبات

شیئر

شیئر

پاکستان میں مزدور طبقہ کئی دہائیوں سے،محفوظ روزگار اور سماجی تحفظ کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں کل تقریباً 65.5 ملین افراد مزدور ہیں، مگر ان میں سے صرف قریباً 7.12 ملین افراد ہی سرکاری سوشل سیکیورٹی اداروں (جیسا کہ ای او بی آئی اور ورکرز ویلفیئر فنڈ) سے منسلک ہیں​.
یومِ مزدور کے موقع پر یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اس محروم اکثریت کو کون سی بنیادی سہولیات میسر ہیں؟ عملاً پاکستان کے بیشتر مزدور کم از کم اجرت، روٹین شفٹوں کی حد، طبی اور پنشن جیسی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ صوبہ بلوچستان نے جولائی 2024 سے دیہاڑی دار غیر ہنرمند مزدوروں کی کم از کم ماہانہ اجرت 37,000 روپے (یومیہ تقریباً 1,423 روپے) مقرر کی ہے​،جب کہ پنجاب حکومت نے نجی سیکورٹی گارڈز کی اجرت 32,000 روپے ماہانہ تک بڑھائی ہے​.
مگر ان اعلانات کے باوجود بہت سے مزدور اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ محنت کشوں کا استحصال مختلف شعبوں میں مختلف شکلوں میں سامنے آتا ہے: نجی سیکورٹی گارڈز، نجی اسکولوں کا عملہ، فیکٹری کے مزدور اور گھریلو ملازمین وغیرہ کو اجرت، کام کے اوقات اور قانونی تحفظات کے بہت سے بحران درپیش ہیں۔
سیکورٹی گارڈز کا المیہ
نجی سیکیورٹی گارڈز وطن عزیز کے سیکورٹی کے نظام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، مگر ان کی اجرتیں اور کام کے حالات انتہائی غیر منصفانہ ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق، سیکیورٹی گارڈز عموماً سرکاری کم از کم اجرت کا محض نصف تنخواہ پاتے ہیں​.
علامتی مثال کے طور پر، کالم نگار داؤد شوکت لکھتے ہیں کہ 12 گھنٹے کی شفٹ کے بعد بھی اکثر سیکیورٹی گارڈز کو باقاعدہ کم از کم اجرت کے نصف سے کم ملتی ہے​
dawn.com
۔ ٹرانسپورٹ الاؤنس یا کھانے کی سہولیات ان کے لیے خواب بن چکی ہیں۔ 2024ء کے ایک سروے میں یہ بھی پتہ چلا کہ نجی سیکورٹی گارڈز کی اکثریت 18,000 سے 32,000 روپے ماہانہ کے درمیان تنخواہ پر گزارا کر رہی ہے جو قانونی تقاضوں سے کہیں کم ہے​. اس میں پی آئی اے اور نیشنل سیونگز جیسی بڑی تنصیبات شامل ہیں جو قانوناً مزدوروں کا واجب شدہ ریٹ ادا نہیں کرتیں۔ کام کے حالات بھی انتہائی کٹھن ہیں۔ گارڈز کو طویل اوقات کار میں تعینات رکھا جاتا ہے اور خطرناک حالات میں بھی فرنٹ لائن پر رہنے کو کہا جاتا ہے، جبکہ مناسب حفاظتی اقدامات اور بونس ان سے چھین لیے جاتے ہیں۔ ایک سیکیورٹی گارڈ نے بتایا کہ وہ اپنی فیملی کا پیٹ پالنے کے لیے خطرات مول لے کر خدمت کرتا ہے، مگر اوور ٹائم یا دیگر مراعات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.
ایسے میں جب کوئی گارڈ جان بحق ہوتا ہے تو قانونی اقدامات یا معاوضے کا حصول بھی نا ممکن ہو جاتا ہے۔ سرکاری سطح پر چند اقدامات نظر آتے ہیں، مثلاً پنجاب نے ستمبر 2023 میں سیکورٹی گارڈز کی کم از کم تنخواہ 32 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی​ اور بلوچستان نے غیر ہنرمند مزدوروں کی تنخواہ 37 ہزار روپے کر دی​.
تاہم اس کے نفاذ میں مشکلات اور غیرقانونی ٹھیکوں کی وجہ سے بیشتر گارڈز کو فی الحال اسی اجرت تک رسائی نہیں۔مختلف سرکاری اداروں جیسے ملک بھر کے پاسپورٹ دفاتر ،نیشنل بینک اور دیگر سرکاری ادارے جہاں سیکورٹی گارڈز فراہم کرنے والی کمپنیاں ریٹائرڈ فوجیوں یا ریٹائرڈ سویلین افرادکی ملکیتی ہیں وہاں طے شدہ اجرت کا نصف سے بھی کم ادا کیا جاتا ہے اور چار سے چھ ماہ تک اجرت بھی فراہم نہیں کی جاتی،سیکورٹی گارڈز کی زیادہ تعداد ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کرتی ہے، جہاں ملازمت کی استحکام اور قانونی تحفظات مزید کم ہو جاتے ہیں۔ موجودہ حالات میں انہیں بیماری یا حادثے کی صورت میں کوئی سرکاری مدد یا انشورنس بھی میسر نہیں ہے، اور بیشتر ورکرز خود کو بڑے فیکٹری مزدوروں کے مقابلے میں محروم سمجھتے ہیں۔
نجی اسکولوں کے تدریسی و غیر تدریسی عملے کو بھی ملازمت کے تحفظ سمیت کسی قسم کی مرعات حاصل نہیں اور استحصال کا سامنا ہے،
نجی تعلیمی ادارے ملک میں لاکھوں ملازمین کو روزگار فراہم کرتے ہیں، مگر ان اداروں میں کام کرنے والے تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی حالت میں بھی بہتری نظر نہیں آتی۔ تعلیم کی بڑھتی مانگ نے نجی اسکولوں کو پھیلایا ہے، لیکن ان کے ملازمین کو ملازمت کے مضبوط حقوق نہیں دیے گئے۔ لاک ڈاؤن کے دوران والدین کی طرف سے فیس نہ ادا کیے جانے کے باعث ہزاروں استاد اور نان ٹیچنگ اسٹاف اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے​.
ان میں بیشتر کے لیے بقیہ خرچہ برداشت کرنا مشکل ہو گیا۔ سرکاری رپورٹس کے مطابق کووڈ کے سبب بہت سے نجی اسکول بند ہوئے تو والدین نے قسطوں میں فیس ادا کیں مگر اس فیسوں کی وصولی کے تناسب سے اساتذہ و عملے کو ادائیگی نہیں ہو پائی۔ مزید برآں، نجی اسکولوں میں ملازمین کے لیے شفٹیں اور تنخواہیں غیر مستقل بنیادوں پر ہوتی ہیں۔ اکثر اوقات انہیں معاہدوں کے بغیر عارضی طور پر رکھا جاتا ہے۔ تنخواہ کی ادائیگی میں وقفہ آ جاتا ہے، اور صحت و حادثے کی صورت میں کوئی قانونی امداد نہیں۔ جن نجی اسکولز میں فی الوقت نقصان ہو کر بند ہیں یا نئے طلبا نہ آنے کی وجہ سے بجٹ سکڑ گیا ہے، وہاں اساتذہ اور دیگر معاون عملہ کو چھٹیاں دے دی گئی ہیں یا روزانہ کی بنیاد پر کام کرایا جا رہا ہے۔ جہاں معمول کے حالات میں سرکاری اسکولوں کے ملازمین کو ماہانہ تنخواہ اور پنشن ملتی ہے، وہیں نجی سکول ملازمین کسی بھی مراعات سے محروم ہیں۔
فیکٹری مزدوروں کے مسائل
ملبوسات اور دیگر صنعتوں میں کام کرنے والے مزدور بھی بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک کراچی کی فیکٹری ورکر ‘‘شبانہ’’ کو اپنی ملازمت کے بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا. اس رپورٹ کے مطابق شبانہ کے پاس نہ کوئی تحریری معاہدہ ہے اور نہ ہی وقف شدہ چھٹیاں۔ انتظامیہ ان کی حاضری خود درج کرتی ہے اور دفتری ریکارڈ میں انہیں 9 گھنٹے کے کام کے بعد آزاد دکھاتی ہے، لیکن حقیقت میں انہیں بہت زیادہ اوقات کار پر کام کرنا پڑتا ہے۔ بیماری یا ماں بننے کی صورت میں کوئی رخصت نہیں دی جاتی اور حاملہ عورت کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے​. اسی طرح دیگر چھوٹے کارخانوں میں مزدوروں کو مقرر کردہ کم از کم اجرت سے بھی کم ادائیگی کی جاتی ہے​.
زیادہ تر اوقات انہیں اوور ٹائم کی صورت میں اضافی محنت کے عوض کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ سندھ میں ریٹائرڈ افرادی قوت پر مشتمل کم تنخواہ کے باوجود 12 سے 14 گھنٹے کام لینا عام ہو چکا ہے (رپورٹس کے مطابق کام کا 12 تا 14 گھنٹے ہونا یہاں معمول ہے)۔ اساتذہ و صنعت کار ایسوسی ایشنز نو ماہ میں ایک یا دو بار میٹنگ کر کے کم از کم اجرت کا اعلان کرتی ہیں، مگر اس پر عملدرآمد ہونے میں تاخیر رہتی ہے۔ اگر مزدور کسی دن بیمار ہوتا ہے تو تنخواہ میں کٹوتی کر دی جاتی ہے، اور صنفی بنیاد پر مزدوکاری تک محدود رہ جاتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ فیکٹریوں میں کام کرنے والے لوگ بھی اپنی زندگی کے سب سے اہم حصے یعنی کام کے اوقات، اجرت اور چھٹیوں کے حوالے سے حقوق سے محروم ہیں​.
گھریلو ملازمین کی جدوجہد
گھریلو ملازم (سفارشہ، ڈومیسٹک ورکر) ملک میں بہت بڑی تعداد میں ہیں، لیکن قانون کی روشنی میں ان کے حقوق پر کوئی ٹھوس ضابطہ موجود نہیں۔ عموماً یہ خواتین و کم عمر بچے ہوتے ہیں جنہیں گھر کے اندر کام کے اوقات، مناسب تنخواہ، اجتماعی حقوق یا سکریوٹی سے یکسر محروم رکھا گیا ہے​.گھریلو ملازمین کے ساتھ جنسی و جسمانی زیادتی کے واقعات بھی رپورٹ ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس شکایت کا قانونی راستہ نہیں ہوتا۔ موجودہ لیبر قوانین صرف صنعتی و تجارتی اداروں تک محدود ہیں اور گھریلو ملازم ان کا دائرہ کار نہیں بنتا​.
بین الاقوامی سطح پر 2013ء سے ڈومیسٹک ورکرز (Domestic Workers) کنونشن (نمبر 189) نافذ ہے، جس کا مقصد گھریلو ملازمین کو دینی ، اجتماعی اور اجرتی حقوق دینا ہے۔ پاکستان نے ابھی تک اس کنونشن کی منظوری نہیں دی، البتہ آئین کے آرٹیکل 25 اور 38 کے تحت ورکرز کے تحفظ کا تقاضا موجود ہے​.

۔ پنجاب اسمبلی نے یکم جنوری 2019 کو “پنجاب ڈومیسٹک ورکرز بل 2018” منظور کیا​.
۔ اس بل کے تحت گھریلو ملازمین کو اپنے حقوق اور سماجی تحفظ کی بنیادی سہولیات دینے کا عہد کیا گیا۔ فروری 2022 میں اعلان ہوا کہ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ کے قواعد بنا لیے گئے ہیں اور گھریلو ملازمین کو سوشل سیکیورٹی کارڈز جاری کیے جائیں گے​.
۔ تاہم زیادہ تر گھریلو ملازم ابھی تک اس عمل میں شامل نہیں ہوئے۔ روزگار تحفظ کے فقدان کی ایک علامت یہ ہے کہ اکثر گھریلو ملازمین مقامی سطح پر بھی ایسوسی ایشن تشکیل نہیں دے پاتے، اور انہیں قانونی مدد کم ہی ملتی ہے۔ گھریلو ملازمین کی زندگی کے حقائق دکھانے کے لیے کراچی میں ہوئے ایک پروگرام میں رائسہ نامی ایک ملازمہ نے اپنی کہانی سنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ عام گھروں میں صفائی یا کھانا پکانے کے ایک کام کے لیے انہیں تقریباً 800 روپے دیے جاتے ہیں، اور مہمان آنے پر اسے اضافی کام کرنا پڑتا ہے۔ پورے ہفتے کی محنت اور اضافی کام کے بعد اسے ادائیگی میں صرف 100 روپے کا ایک نوٹ دیا جاتا ہے.
۔ جب وہ کوئی شکایت کرتی ہے تو اس گھریلو خاتون اسے جھڑکتی ہے اور کہتی ہے کہ “اگر مشکل ہوئی تو میں کوئی اور لونڈی رکھ لوں گی”​.رائسہ کہتی ہے: “ہم انسان ہیں اور پاکستان کے شہری ہیں، ہمیں حقوق ملنے چاہئیں”​. ان جیسی لاکھوں خواتین اور بچے گھریلو ملازمت میں مصروف ہیں، مگر سماجی اور قانونی حوالے سے انہیں دِل بہلانے والا تحفظ نہیں۔
حکومتی پالیسیاں اور قانون سازی
پاکستان میں مزدوروں کے لیے کچھ قوانین اور ادارے ہیں، مگر عملی طور پر ان کا اطلاق بہت کم ہے۔ مزدور قوانین ملک کے ہر صوبے میں الگ الگ ہیں، مگر سب میں مشترکہ تاثر یہی ہے کہ اجرتوں میں اضافہ اور مراعات کا نفاذ سہل نہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کم از کم اجرت میں حالیہ برسوں میں نمایاں اضافہ کیا ہے، جیسے کہ جولائی 2023 میں غیر ہنرمند مزدور کی کم از کم اجرت 37 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی۔ پنجاب حکومت نے نجی سیکیورٹی گارڈز کیلئے 32 ہزار روپے کا نوٹیفکیشن جاری کیا​.
تاہم کئی ماہرین یہ تشویش ظاہر کرتے ہیں کہ نومبر 2024 تک اس کا نوٹیفکیشن کئی علاقوں میں نافذ نہ ہو سکا، جس سے مزدور کئی ماہ تک پرانی اجرتوں پر کام کرتے رہے۔ سوشل سیکیورٹی کے نظام میں بھی بہتری کے وعدے کیے گئے ہیں۔ پنجاب میں فروری 2022 میں اعلان ہوا کہ گھریلو ملازمین کو سوشل سیکیورٹی نمبر اور کارڈ جاری کیے جائیں گے​.
تاہم اس کا دائرہ کار محدود رہا ہے۔ ملک بھر میں ای او بی آئی اور دیگر سوشل سیفٹی نیٹ کے ادارے اس وقت صرف لاکھوں منظم شعبہ کے ورکرز کو کور کرتے ہیں، جبکہ زیادہ تر مزدور غیر رسمی شعبے میں ہیں۔ اس ضمن میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) نے اس بات پر زور دیا ہے کہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 38 ہر شہری کو سماجی تحفظ کا حق دیتا ہے، لیکن مسلسل خاموشی اس حق کو صرف کرپٹ رویہ قرار دیا جا سکتا ہے.
پنجاب اور کے پی حکومتیں مزدوروں کے لیے علیحدہ ایمرجنسی ہیلپ لائن کا اعلان کر چکی ہیں، مگر عملی طور پر کوئی مستقل حل سامنے نہیں آیا۔ قانونی فرائض ادا کرنے پر گنجائش نہ دینے والی صورتِ حال کے تناظر میں مزدور لیبر یونینز اور تنظیمیں بھی آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (PILER) کے سربراہ قاری مسعود احمد کہتے ہیں کہ صرف 7.12 ملین مزدور ہی سوشل سیکورٹی میں رجسٹر ہیں اور باقی کی اکثریت انتہائی محرومی میں مبتلا ہے​.
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں یونیورسل سوشل سیکیورٹی کا نظام بنایا جائے اور مزدوروں کے حقوق آئین کے باب حقوقِ انسانی میں شامل کیے جائیں​.
اسی طرح ہیومن رائٹس کمیشن نے مزدوروں کے تحفظ کے لیے تین طرفہ گفتگو (ملازمین، ایمپلائرز اور حکومت) کا مطالبہ بھی کیا ہے​.
۔ ماہرین اور مزدور رہنما اس بات پر متفق ہیں کہ بے روزگاری، غیر یقینی ملازمت اور کم تنخواہیں محنت کش طبقے کی بنیادی شکایات ہیں۔ پاکستان ورکرز یونائیٹڈ فیڈریشن کے چیئرمین چوہدری شوکت نے زور دے کر کہا ہے کہ ہر ملازم کو تقرری کا معاہدہ اور باقاعدہ اپوائنٹمنٹ لیٹر دیا جائے، اور اسے ای او بی آئی میں رجسٹر کرنا لازم کیا جائے​.
۔ اعلیٰ حکام کا خیال ہے کہ اس طرح مزدوروں کے تحفظ کے دائرے توسیع پائیں گے۔ عالمی لیبر آرگنائزیشن (ILO) کے عہدیدار ذوہور اعوان نے بھی نشاندہی کی کہ ای او بی آئی میں شامل ہونے کے لیے اداروں میں کم از کم پانچ ورکرز ضروری قرار دیا گیا ہے​.
، جس کے باعث لاکھوں چھوٹے کاروباروں کے ملازم اس تحفظ سے محروم رہتے ہیں۔
ممکنہ حل اور تجاویز
پاکستان میں محنت کشوں کے مسائل کے پائیدار حل کے لیے متعدد اقدامات درکار ہیں:
قانونی تحفظ کا نفاذ: وفاقی و صوبائی لیبر محکموں کو چاہیے کہ مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی پر سختی سے عملدرآمد کریں۔ کم از کم اجرت کے نوٹیفیکیشن وقت پر جاری ہوں اور ٹھیکیداری نظام میں کام کرنے والوں کو بھی قانون کی گنجائش دیں۔ تمام ملازمین کو باقاعدہ لکھتینی ملازمت نامے اور حاضری ریکارڈ فراہم کرنا لازمی قرار پائے۔
سماجی تحفظ میں توسیع: موجودہ ای او بی آئی اور دیگر پروگراموں میں چھوٹے اور غیر رسمی شعبے کے ورکرز کو بھی شامل کیا جائے۔ مثلاً گھریلو ملازمین اور نان ٹیکنگ اسکول عملہ کو بھی سوشل سیکیورٹی کارڈ دیے جائیں اور انہیں پنشن و طبی سہولتوں کا حق ملے۔ HRCP کا مشورہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 38 کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسے بنیادی حق قرار دیا جائے​.
۔
مزدور یونین سازی اور نمائندگی: مزدوروں کو انجمنوں اور یونینوں کا حق دیا جائے تاکہ وہ اجتماعی طور پر اپنے حقوق کا تحفظ کر سکیں۔ ٹریڈ یونین کنسلٹیشن اور محنت کش ماہرین کے اجلاس (جیسے تین فریقی کانفرنس) منعقد کیے جائیں تاکہ سرمایہ دارانہ نظام میں مزدوروں کے تحفظ کے نئے میکانزم ترتیب دیے جا سکیں​.
کنوینشنز کی توثیق: حکومت عالمی لیبر آرگنائزیشن کے ایسے کنونشنز کی توثیق کرے جو مساوی اجرت اور گھریلو ملازمین کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔ مثلاً ڈومیسٹک ورکرز کنونشن (C189) کی توثیق سے گھریلو ملازمین کو قانونی حق ملے گا کہ انہیں مناسب اجرت، چھٹی اور بھرتی معاملات میں تحفظ حاصل ہو۔
شکایات اور نگرانی کا نظام: مزدوروں کی شکایات کے لیے ہیلپ لائنز قائم کی جائیں اور لیبر انسپکٹرز کے ذریعے قوانین کی خلاف ورزی پر فوری تادیبی کارروائی ہو۔ معائنہ نظام کو مضبوط بنا کر انتظامیہ کو پابند بنایا جائے کہ وہ مزدوروں کی صحت و سیفٹی کے اصولوں پر عمل کریں۔
عوامی شعور اور معلومات: مزدوروں اور مزدور رہنماؤں میں ان کے حقوق اور دستیاب سہولتوں سے آگاہی بڑھائی جائے۔ میڈیا اور ورکشاپس کے ذریعے انہیں بتائیں کہ دفتر، سکول یا فیکٹری میں کون سے قانونی حقوق ہیں اور کہاں رابطہ کرنا ہے۔
وفاقی اور صوبائی اقدامات: حکومتیں عارضی مراعات اور اسپیشل گرانٹس کے بجائے مستقل اصلاحات لائیں۔ ہر صوبے میں مزدوروں کے تقرری کارڈ، میڈیکل کارڈ اور بیروزگاری الاؤنس جیسی اسکیمیں نافذ کیے جائیں۔
محنت کشوں کے حقوق اور حالات میں بہتری کے لیے سرکاری وعدوں کو عمل میں لانے کی سیاسی ارادہ درکار ہے۔ یومِ مزدور کے موقع پر مزدور تنظیمیں اور انسانی حقوق کے کارکن یہ مطالبہ دہراتے ہیں کہ محنت کش طبقے کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں، ورنہ قربانیوں سے عبارت پاکستان کی معیشت و معاشرت ترقی کے دعووں کے برعکس محرومیوں کے کھائی میں گرے گی۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں