Skip to content

بنگلہ دیش-پاکستان,چین تکون اور بھارت کی تزویراتی الجھن

شیئر

شیئر

تحریر: اپرنا دیویا، سلمان علی بیٹنی

ترجمہ : شیر افضل گوجر


جنوبی ایشیا میں تیزی سے بدلتی ہوئی جیوپالیٹکس کے تناظر میں، بنگلہ دیش کی حالیہ خارجہ پالیسی میں آنے والی تبدیلیوں نے خطے کے تزویراتی توازن کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد، عبوری وزیرِ اعظم محمد یونس کی زیرِ قیادت بنگلہ دیش نے اپنی علاقائی حکمتِ عملی کو ازسرِ نو تشکیل دینا شروع کیا ہے۔ اس عمل میں بنگلہ دیش کی پاکستان اور چین کے ساتھ قربت میں اضافہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے، جس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں بھارت کے لیے ایک نئی تزویراتی الجھن پیدا ہو رہی ہے۔

تاریخی پس منظر اور حالیہ پیش رفت

شیخ حسینہ کے تقریباً پندرہ سالہ دورِ اقتدار میں بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی بھارت نواز رہی۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات بداعتمادی، 1971 کی جنگ کی تلخیوں اور سیاسی تناؤ پر مبنی تھے، جبکہ چین کے ساتھ اقتصادی ترقی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے حوالے سے محتاط تعلقات رکھے گئے۔ حسینہ نے "توازن قائم رکھنے” کی پالیسی اپنائی، جس میں بھارت سے سلامتی اور سیاسی شراکت داری قائم رکھی گئی، اور چین کو اقتصادی شراکت دار کے طور پر استعمال کیا گیا۔

تاہم، 2024 کے موسمِ گرما میں حسینہ حکومت کے خاتمے کے بعد، عبوری حکومت نے بھارت سے فاصلے پیدا کیے اور پاکستان و چین کے ساتھ قربت اختیار کی۔ نئی حکومت نے واضح طور پر اپنی خارجہ پالیسی کے رخ کو بدلا ہے، جس سے نہ صرف علاقائی تعلقات میں بلکہ عالمی سطح پر بھی تبدیلی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔

بنگلہ دیش-پاکستان تعلقات: ماضی سے مستقبل کی جانب

عبوری حکومت کے قیام کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات میں نمایاں گرمجوشی دیکھنے کو ملی ہے۔ محمد یونس اور پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف کی ملاقاتیں، وزارتی سطح پر تبادلے اور پاکستانی وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا طے شدہ دورہ ڈھاکہ، ان تعلقات میں سنجیدگی کا اظہار ہے۔

دفاعی سطح پر بھی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ جنوری 2025 میں بنگلہ دیش کے اعلیٰ فوجی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی۔ اس کے علاوہ، بحریہ کے شعبے میں تعاون کی جھلک اس وقت نظر آئی جب بنگلہ دیشی نیوی نے کراچی میں ہونے والی "امن-25” مشق میں حصہ لیا، جو کہ پچھلے دس برسوں میں پہلا موقع تھا۔

تجارتی میدان میں بھی پیش رفت ہو رہی ہے۔ پاکستان سے براہِ راست چاول کی درآمد، چٹگاؤں بندرگاہ پر پاکستانی کنٹینرز کی آمد، اور ویزا پالیسی میں نرمی سے واضح ہے کہ دونوں ممالک باہمی تعاون کو ایک نئے دور میں لے جانے کے لیے پرعزم ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دوبارہ براہِ راست پروازوں کا آغاز بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

چین کے ساتھ تعلقات میں تیزی

جہاں پاکستان کے ساتھ تعلقات ماضی کی دشمنی کے برعکس خوشگوار ہو رہے ہیں، وہیں چین کے ساتھ تعلقات میں نئی توانائی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ محمد یونس کا مارچ 2025 میں چین کا سرکاری دورہ نہ صرف علامتی طور پر اہم تھا بلکہ عملی طور پر بھی متعدد معاہدوں اور منصوبوں کی بنیاد بنا۔ چین نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے ساتھ فوری طور پر نئے اقتصادی معاہدے کیے اور تعلیم، ثقافت، اور آفات سے نمٹنے میں تعاون کے مختلف پروگرامز شروع کیے۔

چٹاگانگ میں چین کی انڈسٹریل اکنامک زون کی توسیع، مونگلا بندرگاہ کی جدید کاری میں چینی شمولیت، اور ٹیستا دریا کے منصوبے میں چین کی شمولیت وہ اقدامات ہیں جو نہ صرف بھارت کے لیے پریشان کن ہیں بلکہ بنگلہ دیش کی چین کے ساتھ بڑھتی ہم آہنگی کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔

چین کا علاقائی وژن اور جنوبی ایشیا میں نئی صف بندی

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی قربت چین کے علاقائی عزائم کے عین مطابق ہے۔ اگر چین، پاکستان، اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارتی و نقل و حمل کے راستے قائم ہو جاتے ہیں تو یہ بھارت کی جغرافیائی برتری کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ چین کی طرف سے بحرِ ہند کے ذریعے تجارت، گوادر اور چٹاگانگ بندرگاہوں کو آپس میں جوڑنے کی تجویز، اور ہمالیہ کے پار تجارتی راہداری کا تصور، یہ سب بھارت کے موجودہ اور زیرِ تعمیر علاقائی منصوبوں کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

چین پہلے ہی نیپال، پاکستان اور افغانستان کے ساتھ چار فریقی مذاکرات کر چکا ہے، اور مستقبل میں اس میں بنگلہ دیش، میانمار، اور بھوٹان کو شامل کر کے بھارت کو الگ رکھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

بھارت کی تزویراتی پریشانی

بھارت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو کیسے بچائے جبکہ یونس حکومت تیزی سے پاکستان اور چین کی طرف جھکاؤ اختیار کر رہی ہے۔ یونس کا چین میں شمال مشرقی بھارت کو "محصور علاقہ” قرار دینا اور بنگلہ دیش کو "خطے کا واحد سمندری نگہبان” کہنا، بھارت کے لیے تشویش ناک ہے، خاص طور پر جب ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ چین لال مونی ہاٹ میں فضائی اڈا بنانے پر غور کر رہا ہے۔

یہ علاقہ بھارت کے سلیگُڑی کاریڈور کے بالکل قریب ہے، جو بھارت کے شمال مشرقی ریاستوں کو بقیہ ملک سے جوڑتا ہے۔ اگر وہاں چین کا فوجی یا انٹیلی جنس انفراسٹرکچر قائم ہوتا ہے، تو بھارت کی سلامتی کو براہِ راست خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

سفارتی اور اقتصادی محاذ پر اثرات

بنگلہ دیش کی چین کے ساتھ ممکنہ تزویراتی ہم آہنگی بھارت کے لیے سفارتی مشکلات بھی پیدا کر سکتی ہے۔ اگر بنگلہ دیش اقوام متحدہ یا دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر چین کے مؤقف کی حمایت کرنے لگے—جیسا کہ پاکستان کرتا ہے—تو بھارت کے لیے جنوبی ایشیا کے مشترکہ مؤقف کو عالمی سطح پر پیش کرنا مشکل ہو جائے گا۔

چینی ڈیجیٹل معیشت، فِن ٹیک، اور کسٹم ٹیکنالوجی کی شمولیت سے اگر پاکستان اور بنگلہ دیش چین کے ڈیجیٹل و لاجسٹکس کوریڈورز کا حصہ بن جاتے ہیں، تو بھارت کی کوششیں جیسے انڈیا-میانمار-تھائی لینڈ شاہراہ یا BIMSTEC کی فعالیت متاثر ہو سکتی ہیں۔

داخلی سلامتی کے خدشات

بھارت کے لیے ایک اور بڑا خطرہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان بڑھتے سیکیورٹی تعلقات ہیں۔ ماضی میں بنگلہ دیش کی سرحد سے بھارت کے خلاف سرگرم عسکریت پسندوں کو پناہ ملتی رہی ہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت نے ان گروہوں کے خلاف کارروائی کی، لیکن نئی حکومت کی ترجیحات واضح نہیں۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے استحکام سے بھارت کو اندیشہ ہے کہ یہ گروہ دوبارہ سرگرم ہو سکتے ہیں۔

مستقبل کی راہیں: غیر یقینی اور امکانات

اگرچہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں نئی گرمجوشی ہے، لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ تعلقات کتنے دیرپا ہوں گے۔ عبوری حکومت کی محدود مدت، بھارت کے ساتھ جغرافیائی قربت، اور دونوں ممالک کے درمیان پائیدار تجارتی تعلقات کی موجودگی ایسے عوامل ہیں جو اس نئی صف بندی کو چیلنج کر سکتے ہیں۔

اس کے باوجود، موجودہ صورتحال جنوبی ایشیا میں بھارت کی مرکزی حیثیت کو چیلنج کرتی ہے، اور بنگلہ دیش، پاکستان، اور چین کے درمیان ایک غیر روایتی علاقائی اتحاد کے امکانات کو جنم دیتی ہے۔ اگر یہ رجحان برقرار رہا، تو جنوبی ایشیا میں تزویراتی توازن ایک نیا رخ اختیار کر سکتا ہے، جس میں بھارت کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی اور ایک کثیرالقطبی (multipolar) علاقائی نظام وجود میں آ سکتا ہے

بشکریہ ساوتھ ایشئین وائس

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں