ڈاکٹر جزبیہ شیریں
13 اپریل 2017 پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن تھا جب مشال خان، 23 سالہ صحافت کے طالب علم، کو مردان کے عبدالولی خان یونیورسٹی میں ایک ہجوم نے بہیمانہ طور پر قتل کر دیا۔ مشعل خان کا جرم یہ تھا کہ اس پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا تھا، اور اس کی سزاکار افراد کے ہاتھوں تشدد کی صورت میں ہوئی۔ اس واقعے نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ایک گہری غم اور غصے کی لہر دوڑائی تھی۔ مشعل خان کی ہلاکت ایک اور عبرت تھی جس نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی، تشدد اور تنگ نظری کو بے نقاب کیا۔
یہ واقعہ اس بات کا گواہ ہے کہ جب تک معاشرہ مذہبی اور سماجی تحمل، رواداری اور برداشت کو اپنانے میں ناکام رہے گا، ایسے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں۔ مشعل خان کا قتل ایک سنجیدہ مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے جس کا سامنا پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک کر رہے ہیں۔ یہ مسئلہ ہے مذہبی انتہاپسندی اور شدت پسندی کا، جو نہ صرف سڑکوں پر بلکہ تعلیمی اداروں میں بھی پھیل چکی ہے۔ مشال خان کی ہلاکت نے ہمیں یہ دکھایا کہ کس طرح مذہب کو طاقت، اقتدار، بدعنوانی اور ذاتی مفادات کی حفاظت کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے یہ دیکھ لیا کہ کس طرح ایک معصوم طالب علم کو صرف اس لیے قتل کر دیا گیا کیونکہ وہ سوالات اٹھانے کی جرات رکھتا تھا، اور اس پر مذہب کے حوالے سے ایک الزام لگایا گیا تھا جس کے سچ یا جھوٹ ہونے کی کوئی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔ پاکستان میں مذہبی شدت پسندی ایک دیرینہ مسئلہ بن چکا ہے اور مشال خان کا قتل اس کی ایک تازہ ترین مثال ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے، جو کبھی تنقیدی سوچ، آزاد خیال اور علمی مکالمے کا مرکز ہوا کرتے تھے، اب شدت پسندی اور نفرت کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ مشال خان کا قتل اس بات کا غماز تھا کہ جہاں ہمیں اپنے نوجوانوں کو خیالات کے تبادلے، آزادی اظہار اور سوالات اٹھانے کی آزادی دینی چاہیے تھی، وہاں انہیں مذہبی تشدد کی سزا دی گئی۔ یہ ایک ایسا دن تھا جس نے ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں گہری دراڑیں ڈال دیں، اور ہمیں یہ سمجھنے کا موقع دیا کہ کس طرح مذہبی شدت پسندی کا رجحان ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی سرایت کر چکا ہے۔
پاکستان میں، اور دنیا بھر میں، مذہبی شدت پسندی کی لہر مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ مسئلہ صرف کچھ مخصوص علاقوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی علامات اب عالمی سطح پر نظر آ رہی ہیں۔ ہر دن، کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی فرد کو مذہب کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے یا اذیت دی جاتی ہے۔ یہ صرف پاکستان کا نہیں، دنیا بھر کا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس ہو رہے ہیں۔ مشال خان کا قتل بھی اسی وسیع تر مسئلے کا حصہ تھا، جہاں مذہب کو طاقت کے حصول اور ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کہ مذہبی شدت پسندی کے لیے ایک بہت بڑی جڑ ہمارے معاشرتی، سیاسی اور مذہبی نظام میں چھپی ہوئی ہے، اور اس جڑ کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں، مذہبی شدت پسندی کی بنیاد نہ صرف مذہبی گروہ بندیوں اور فرقہ واریت پر ہے، بلکہ یہ ان لوگوں کے مفادات کی بھی محافظت کرتی ہے جو مذہب کو سیاسی، سماجی اور اقتصادی فوائد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مشال خان کی موت نے یہ بات ایک بار پھر ثابت کر دی کہ کس طرح مختلف مذہبی گروہ اپنے مفادات کے لیے مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ کچھ مولویوں اور مذہبی رہنماؤں نے مشال خان کے قتل کے بعد اس کی مذمت کرنے کے بجائے اس کی ہلاکت کے لیے جواز فراہم کیا۔ ان کے بیانات نے نوجوانوں میں نفرت کی ایک لہر دوڑائی، اور انہیں یہ باور کرایا کہ وہ اپنے عقائد کے تحفظ کے لیے کسی کی جان لے سکتے ہیں۔ پاکستان میں، توہین مذہب کے الزام میں قتل کے واقعات ایک عام بات بن چکے ہیں، اور ان میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔ مشعل خان کا قتل اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح مذہبی انتہاپسندی اب نہ صرف سڑکوں پر بلکہ تعلیمی اداروں، دفاتر اور مختلف سماجی اداروں میں بھی پھیل چکی ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ اگر ہم نے اس مسئلے کا جلد تدارک نہ کیا تو مذہبی شدت پسندی ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو مزید متاثر کرے گی اور اس کے نتیجے میں مزید نوجوانوں کی جانیں ضائع ہوں گی۔ مذہبی انتہاپسندی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے ہمیں چند اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، ہمیں تعلیمی اداروں میں مذہب کی صحیح اور حقیقت پر مبنی تعلیم دینے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں کو مذہب کا سچا اور غیر جانبدار تصور مل سکے۔ اس کے علاوہ، ہمیں مذہبی رہنماؤں اور مصلحوں کو اس بات کا احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ان کے بیانات اور عمل معاشرتی امن کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ انہیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ مذہب کے نام پر لوگوں کو قتل کرنا یا اذیت دینا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہو سکتا۔ دوسرا، حکومت کو اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ وہ شدت پسند گروپوں اور افراد کے خلاف سخت اقدامات کرے گی اور ان گروپوں کو غیر قانونی قرار دے گی جو مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط کرے تاکہ وہ ان افراد کو قابو میں رکھ سکیں جو اس طرح کی نفرت انگیز سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ تیسرا، میڈیا اور سوشل میڈیا پر سخت نگرانی کی ضرورت ہے تاکہ فرقہ واریت اور مذہبی تشدد کو فروغ دینے والے مواد کو روکا جا سکے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نفرت انگیز مواد کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومت اور بین الاقوامی اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔
میرے اپنے تجربات کی بات کروں تو 2019 میں میں بھی اس قسم کی صورتحال کا شکار رہی۔ جب میرے خیالات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، اور اس پر رنگ دینے کی کوشش کی گئی، مذہب کو اس میں شامل کر کے اور ایک مخصوص مذہبی جماعت کو اس میں گھسیٹ لیا گیا۔ وہ صورتحال انتہائی تکلیف دہ تھی، اور مجھے حیرت ہوئی کہ کس طرح ایک سادہ سی تنقید کو مذہب کے ساتھ جوڑا گیا۔ اسی طرح کے واقعات مختلف مواقع پر ہوتے رہے ہیں، جیسے کہ جب ایک سری لنکن شہری کو جلا دیا گیا، آسیہ بی بی ایک مسیحی خاتون کو توہین مذہب کے الزام میں جیل بھیجا گیا، یا پھر ایک عورت کو
حلوا لکھے ہوئے کپڑے پہننے پر ہراساں کیا گیا۔ ان تمام مثالوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مذہبی شدت پسندی کی جڑیں بہت گہری ہیں، اور ان کا خاتمہ کرنا نہ صرف ضروری ہے بلکہ ہماری بقا کے لیے بھی ضروری ہے۔