Skip to content

صالح معاشرے کے بنیادی اصول

شیئر

شیئر

شمس الحق

سورہ حجرات میں اجتماعی زندگی ،اخلاقیات سماجیات اور معاشرت کے پہلوؤں سے بنیادی اصول بیان کئے گئے ہیں ،
سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب،ان کے ارشادات و فرمودات عالیہ کو دل و جان سے تسلیم کرنا،
ان کے مقام و مرتبہ کی حد درجہ رعایت کرنا اور ادنیٰ سے ادنیٰ وہ فعل جو لاشعوری طور پر بھی آپ کے لئے حرج یا ایذا کا سبب بنے,اس سے اجتناب کا تذکرہ ہے،
پھر عمومی آداب کا تذکرہ ہے جس کا تعلق عام معاشرت سے ہے،
مثلاً بغیر تحقیق کے کسی معاملے پر ردعمل نہیں ہونا چاہئے ،جو بعد میں ندامت کا باعث بنے،
پھر مومنین میں صلح کرانے کا تذکرہ ہے۔
اس رکوع کا اختتام اس شاندار آیت مبارکہ پہ ہوتا ہے کہ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں

دوسرے رکوع میں چھ سماجی برائیوں سے بچنے کا حکم ہے،ان میں سے تین اول الذکر وہ ہیں جن میں جن میں دوسرا فریق سامنے اور موجود ہوتا ہے
مثلاً تمسخر،طنز اور تضحیک دوسرے
لمز یعنی کسی کے قول ،فعل یا عمل میں عیب جوئی کرنا
اور تیسرے
تنابز بالاالقاب یعنی آپس میں ایک دوسرے کے چڑانے والے نام رکھنا اور ان سے پکارنا ،
ان اخلاقی رزائل کی وجہ عام طور پر دو ہوتی ہیں ایک اختلاف رائے اور دوسرا اپنے اپ سے کسی کو کم تر سمجھنا ،وجہ جو بھی ہو معاشرتی فساد کی وجہ سے ان بری عادات سے منع گیا ہے، اس کی تفسیر میں مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں کہ برا نام رکھنا گناہ ہے ایسا کرنے سے تم خود گنہگار ہو گے اور خود تم پر گنہگار ہونے کا نام لگے گا اور کسی مسلمان پر یہ نام لگنا کہ وہ گنہگار ہے ایمان لانے کے بعد بہت بری بات ہے،

بدقسمتی ان نفسیاتی و سماجی برائیوں نے ہماری سیاسی اور مذہبی شخصیات تک کو متاثر کر رکھا ہے،
مثلاً مولانا کا نام ایک مشہور سیاسی شخصیت نے بگاڑا۔ جسے ایک بڑے قد کاٹھ کے کالم نگار نے اپنے کالم کی زینت بنا کر زبان زد عام کیا،
پھر فواد چوہدری کو اسمبلی کے فورم پر نازیبا لقب سے نوازا گیا،
ایسی کئی مثالیں ہیں ۔
مذہبی مناظروں ،سیاسی مخالفین میں یہ رویے تو عام تھے ہی،اب محراب و منبر بھی اس کی زد میں ہیں،
مشہور خطباء کا یہ چلن قابلِ اصلاح ہے،
اختلاف اور مخالفت دونوں صورتوں میں اس لب و لہجہ کی حوصلہ شکنی ضروری ہے کہ سطحی و عامیانہ گفتگو کی جائے ،
اور سب سے اھم بات ،کیا یہ بات دل کو لگتی ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و سلف صالحین وعظ فرماتے ہوں گے اور مجمع ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتا ہوگا ؟؟؟؟

آخر یہ طرز تخاطب کس بنیاد پہ ہمارے ہاں رائج ہے ،سوائے ایک نفسیاتی وجہ کے بظاہر کوئی دوسری وجہ نہیں کہ شہرت کی طلب ہے،
معاشرے میں اس طرز سے بگاڑ آ سکتا ہے ،اصلاح ہر گز نہیں

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں