Skip to content

آگ سے آگ نہیں بجھتی

شیئر

شیئر

تحریر: انجینئر افتخار چوہدری

ہم نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کیا کیا؟ ایک امید تھی، ایک روشنی، ایک خواب جسے لاکھوں دلوں نے اپنی پلکوں پر سجایا۔ لیکن آج وہ خواب بکھر رہا ہے، اور افسوس کہ ہمارے اپنے ہاتھوں بکھر رہا ہے۔
میں نے بارہا کہا، خان صاحب سے کہا، دل سے کہا کہ جو لوگ آپ کے ہم عمر ہیں، جن کے سینے میں وقت، تجربے اور فہم کی آگہی ہے، ان کے ساتھ بیٹھا کریں، ان سے مشورہ کیا کریں۔ لیکن ہم نے کیا کیا؟ ہم نے یوٹیوبرز، لفنگوں، نعرہ بازوں اور ہجوم کے چیخنے والوں کو مشیر بنا لیا۔ آج وہ کہاں ہیں؟ کوئی لندن میں ہے، کوئی امریکہ، سپین یا دبئی میں بیٹھا ہے۔ اور جو اصل کارکن تھے، وہ یا تو جیلوں میں ہیں یا قبروں میں۔
ان یوٹیوبرز نے، بشمول وہ جو خود کو "قوم کا ترجمان” کہتے ہیں، تحریک کو اپنی شہرت کا زینہ بنا لیا۔ ہر دن ایک نیا بیانیہ، ہر رات ایک نئی سازش۔ ان کے الفاظ میں درد نہیں، دکان داری ہے۔ اور ہم؟ ہم وہ بدنصیب ہیں جو اپنی محبت، اپنا وقت، اپنا اعتماد بیچ آئے۔
ان دنوں ایک انٹرویو نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے — جنرل (ر) نعیم لودھی کا انٹرویو، جو انجینیئر ارشد داد نے مجھے پارس جہانزیب کے ساتھ بھیجا۔ میں نے سنا، دھیان سے سنا، اور اس پر سوچا۔ نعیم لودھی نے کوئی سیاست نہیں کی، کوئی تماشا نہیں لگایا۔ اس نے حل دیا۔ اس نے کہا:
"نہ کوئی معافی مانگے، نہ کوئی معاف کرے، بس یہ تسلیم کرے کہ جو کچھ ہوا، وہ غلط تھا۔ دونوں طرف سے غلط تھا۔ اب آگے چلنا ہے۔”
میں اس سوچ کی مکمل تائید کرتا ہوں۔
نہ آرمی چیف معافی مانگے، نہ قیدی نمبر 804 — بس دونوں طرف سے پچھلی باتوں کو بھول کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کریں۔
یہی سیاست کی اصل دانش ہے، یہی وقت کا تقاضا ہے۔
یاد رکھیں، چوہدری شجاعت حسین کی وہ بات آج پھر زندہ کرنے کا وقت ہے:
"مٹی پاؤ!”
لیکن یہ مٹی نفرت پر، ضد پر، انا پر ڈالنی ہے — رشتوں، قوم، ملک اور تحریک پر نہیں۔
کیا بھٹو جیسا لیڈر واپس آیا؟
کیا اس کے نام پر رونے والے اسے بچا سکے؟
لاہور سنسان تھا، راوی خاموش تھا، صرف اس کی بیٹی کی چیخیں سنائی دیں۔
کیا ہم چاہتے ہیں کہ کل کو عمران خان کے لیے بھی صرف اس کی بہنیں، ماں، اور کارکن روئیں؟ اور باقی سب خاموش ہو جائیں؟
ہمیں ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا تاکہ قوم دس قدم آگے بڑھ سکے۔ عبوری حکومت کا قیام، شفاف الیکشن، اور سچی نیت — یہی ہے وہ واحد راستہ، جو جنرل نعیم لودھی نے بھی دکھایا، اور جو ہماری بقا کی آخری امید ہے۔
میں ان تمام کارکنوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو جیلوں میں ہیں، جو بیروزگار ہو گئے، جن کے بچے بھوکے سو گئے، جن کی ماں رو رو کر سو گئی۔ لیکن کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ یوٹیوبر، وہ ’’انقلابی‘‘ جو باہر بیٹھے ہیں، کبھی آپ کے بچوں کو وظیفہ دیں گے؟ نہیں دیں گے۔ وہ صرف اپنی ویڈیوز کی ویوز گن رہے ہیں، اور اپنوں کو بیچ کر باہر بیٹھے ہیں۔
اس لیے کہتا ہوں:
قائد کو بچانا ہے۔
تحریک کو زندہ رکھنا ہے۔
پاکستان کو متحد کرنا ہے۔
ٹکراؤ سے نہیں، تدبیر سے۔
آئیے، روضہ رسولؐ پر بیٹھ کر حلف لے لیں کہ ہم ایک سال میں شفاف الیکشن کروائیں گے۔ نہ خان جھکے گا، نہ فوج۔ لیکن پاکستان بچے گا۔ ورنہ جو کچھ بھی بچا ہے، وہ بھی راکھ ہو جائے گا۔
یاد رکھیں:
آگ سے آگ نہیں بجھتی — آگ کو پانی بجھاتا ہے۔
ہمیں وہ پانی بننا ہے۔ ورنہ تاریخ نہ ہمیں معاف کرے گی، نہ ہمارے بچوں کو۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں