Skip to content

  وراثت، چادر اور پرچی  

شیئر

شیئر

 ڈاکٹر جزبیہ شیریں


وراثتی حقوق کا مسئلہ انسانیت کے ابتدائی دور سے ہی موجود رہا ہے، لیکن جب بات خواتین کے وراثتی حقوق کی آتی ہے، تو اس پر تاریخی طور پر سماج میں زیادہ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ خصوصاً مسلم معاشرت میں، جہاں قرآن اور حدیث کی تعلیمات واضح طور پر خواتین کے وراثتی حقوق کی حمایت کرتی ہیں، اس کے باوجود مختلف سماجی، ثقافتی اور مذہبی عوامل نے انہیں وراثت سے محروم کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے ہیں۔

وراثت کی تقسیم کا بنیادی اصول قرآن مجید میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، اور یہ بات مسلم معاشروں کے لیے ایک اہم ہدایت ہے۔ قرآن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وراثت کا حق ہر فرد کا ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اور اس کے درمیان فرق صرف حصے کا ہوتا ہے۔ مگر مختلف سماجی روایات اور رسم و رواج نے خواتین کو وراثت کے حق سے محروم رکھنے کے لیے متنازعہ طریقے اپنائے ہیں۔ اس میں سب سے معروف اور قدیم رسم "چادر اور پرچی” ہے، جو خصوصاً پاکستانی قبائلی علاقوں میں رائج رہی۔ اس رسم کے مطابق خواتین کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا اور اس کے بدلے انہیں "چادر” (مادی چیزیں جیسے کپڑے) یا "پرچی” (رسمی دستاویزات) کے طور پر کچھ ملتا تھا۔ یہ رسم صدیوں سے چلتی آ رہی تھی اور اس کی بنیاد سماجی اور ثقافتی روایات پر رکھی گئی تھی، جو اسلامی تعلیمات سے متصادم تھیں۔

پاکستان میں خواتین کے وراثتی حقوق کے تحفظ کے لیے مختلف قوانین موجود ہیں، جن میں خاص طور پر 1961 کا وراثت قانون اور 1981 کا تحفظ حقوقِ خواتین کا قانون شامل ہیں۔ ان قوانین کے باوجود، کچھ علاقوں میں خواتین کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ بدستور جاری رہا، اور ان کے وراثتی حقوق کو تسلیم کرنے میں بہت سی رکاوٹیں آئیں۔ خاص طور پر قبائلی علاقوں میں، جہاں روایات کی جڑیں بہت گہری ہیں، خواتین کو وراثت میں حصہ نہ دینا معمول کی بات بن چکی تھی۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود، کچھ خواتین اور سماجی تنظیمیں وراثتی حقوق کی تحفظ کے لیے آواز اٹھاتی رہیں، اور وقتاً فوقتاً عدالتوں میں ان مسائل کو اُٹھایا گیا۔

اس رسم کی حمایت کرنے والے افراد کا کہنا تھا کہ یہ طریقہ قدیم روایات اور خاندانوں کی عزت کا حصہ ہے، لیکن یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف تھا۔ اسلام میں خواتین کو وراثت کا حق دیا گیا ہے اور انہیں مردوں کے برابر حصہ ملنا چاہیے۔

پاکستان میں خواتین کے وراثتی حقوق کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت 2025 میں ہوئی، جب وفاقی شرعی عدالت (فیڈرل شریعت کورٹ) نے خواتین کے وراثتی حقوق کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ سنایا۔ عدالت نے واضح طور پر کہا کہ کسی بھی رسم یا روایت کی بنیاد پر خواتین کو وراثت سے محروم کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں "چادر اور پرچی” نامی ایک قدیم رسم کا معاملہ عدالت میں آیا۔ اس رسم کے مطابق، خواتین کو زمین یا جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا، اور اس کے بدلے انہیں کچھ مادی چیزیں دی جاتی تھیں، جو عموماً "چادر” اور "پرچی” کہلاتی تھیں۔

اس فیصلے میں وفاقی شرعی عدالت نے اس رسم کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی قوانین کے مطابق، خواتین کا وراثت میں حصہ مردوں سے کم نہیں ہے، اور انہیں کسی بھی صورت میں وراثت سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ یہ رسم نہ صرف غیر اسلامی ہے، بلکہ اس سے خواتین کے حقوق کی پامالی بھی ہوتی ہے، اور یہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

اس فیصلے کا اثر فوری طور پر پاکستان کے مختلف حصوں میں محسوس ہونا شروع ہوا۔ عدالت نے صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ وہ اس فیصلے کے نفاذ کو یقینی بنائیں اور خواتین کے وراثتی حقوق کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ اس کے علاوہ، عدالت نے کہا کہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس فیصلے نے نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پورے پاکستان میں خواتین کے وراثتی حقوق کے حوالے سے ایک نئی بحث کو جنم دیا۔ بہت سی خواتین تنظیمیں اور حقوق انسانی کے گروہ اس فیصلے کو ایک سنگ میل کے طور پر دیکھتے ہیں، اور ان کا ماننا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک اہم قدم ہے۔

اس فیصلے کے مستقبل میں اثرات کئی سطحوں پر ہوں گے۔ پہلے تو یہ فیصلہ خواتین کو ان کے حق وراثت کے حوالے سے قانونی تحفظ فراہم کرے گا، جس سے وہ اپنے حقوق کے لیے کھل کر آواز اٹھا سکیں گی۔ اس کے علاوہ، اس فیصلے سے سماج میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے آگاہی بڑھے گی، اور خواتین کو اپنے حقوق کے لیے قانونی مدد مل سکے گی۔ اگرچہ یہ فیصلہ ایک اہم قدم ہے، لیکن اس کا مکمل نفاذ وقت کی بات ہوگی، کیونکہ پاکستان کے کچھ حصوں میں ابھی بھی روایات اور سماجی دباؤ بہت زیادہ ہیں، اور وہاں خواتین کو وراثت میں حصہ دینے کے معاملے میں دشواریاں آئیں گی۔

اس فیصلے کا اثر پورے پاکستان میں محسوس کیا جا رہا ہے۔ اب خواتین کو ان کے قانونی حق وراثت کی حفاظت کا مکمل قانونی تحفظ حاصل ہو گا، اور وہ اپنے حقوق کے لیے کھل کر آواز اٹھا سکیں گی۔ اس فیصلے نے نہ صرف خواتین کے حقوق کے حوالے سے اہم پیش رفت کی ہے بلکہ سماج میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے آگاہی بھی بڑھائی ہے۔

یہ فیصلہ پاکستان میں خواتین کے وراثتی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ مستقبل میں اس کے اثرات یہ ہو سکتے ہیں کہ خواتین کو اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے میں آسانی ہو، اور انہیں وراثت میں حصہ دینے کی روایت مزید مستحکم ہو۔ اگرچہ اس فیصلے کا نفاذ مکمل طور پر مختلف علاقوں میں مختلف حالات پر منحصر ہو گا، لیکن یہ ایک مثبت قدم ہے جو پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کو مضبوط بنا سکتا ہے۔

مزید یہ کہ اس فیصلے کا ایک اور اہم اثر یہ ہوگا کہ مستقبل میں خواتین کے وراثتی حقوق کے حوالے سے سماج میں ایک مثبت تبدیلی آئے گی۔ خواتین کو اپنے وراثتی حقوق کا مطالبہ کرنے کی آزادی حاصل ہو گی، اور انہیں اس بات کا یقین ہو گا کہ انہیں اپنے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اس فیصلے کے بعد، دیگر صوبوں میں بھی خواتین کے وراثتی حقوق کے حوالے سے قانونی اصلاحات کی توقع کی جا سکتی ہے، اور یہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت ہو سکتی ہے۔

مجموعی طور پر، وفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہ خواتین کے وراثتی حقوق کے حوالے سے ایک تاریخ ساز قدم ہے، جو نہ صرف پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کو مضبوط بنائے گا بلکہ دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک مثال قائم کرے گا۔ اگر اس فیصلے کے اثرات کا نفاذ صحیح طریقے سے کیا جائے تو یہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک نیا دور شروع کر سکتا ہے.

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں