Skip to content

پولیو کا خاتمہ یا اضافہ

شیئر

شیئر

 ڈاکٹر جزبیہ شیریں 


پاکستان میں پولیو کے کیسز میں حالیہ اضافہ صحت کے شعبے کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں پولیو کے خاتمے کی کوششیں کامیاب رہی تھیں، لیکن 2023 کے آخر اور 2024 کے آغاز میں پولیو کے کیسز میں ایک تشویش ناک اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ 2023 کے دوران پاکستان میں پولیو کے 20 سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے، جو کہ گزشتہ چند سالوں میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ پاکستان میں 2024 کے دوران پولیو کے کیسز میں تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 27 دسمبر 2024 تک، ملک بھر میں پولیو کے 67 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 19 کیسز خیبر پختونخوا، 19 سندھ، 27 بلوچستان، اور 2 پنجاب سے ہیں اس اضافے کی سب سے بڑی وجہ کئی علاقوں میں ویکسینیشن کی کمی، عوامی آگاہی کی کمی، اور صحت کے بنیادی ڈھانچے میں موجود خامیاں ہیں۔

پاکستان میں پولیو وائرس کی زیادہ تر منتقلی صوبہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے ہو رہی ہے، جہاں بعض قبائلی علاقے اور دشوار گزار علاقے ہیں جن تک صحت کی سہولتیں پہنچنا مشکل ہے۔ ان علاقوں میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہمات اکثر سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے متاثر ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے پولیو وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ 2023 کے آخر تک، خیبر پختونخواہ میں پولیو کے 13 کیسز رپورٹ ہو چکے تھے، جو کہ اس صوبے میں پولیو کے خلاف مہمات کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔

پولیو کے کیسز میں اضافے کا ایک اور اہم سبب عوامی آگاہی کی کمی ہے۔ بہت سے والدین پولیو ویکسین کے فوائد کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ نہیں ہیں اور وہ مختلف افواہوں یا غلط فہمیوں کی وجہ سے اپنے بچوں کو ویکسین نہیں لگواتے۔ بعض علاقوں میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ پولیو ویکسین بچوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو ویکسین لگانے سے گریز کرتے ہیں۔ 2023 میں ایسے 6,000 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جن میں والدین نے ویکسینیشن سے انکار کیا تھا، جس کا نتیجہ پولیو کے کیسز میں اضافے کی صورت میں نکلا۔

پاکستان میں پولیو کے خلاف جنگ میں حکومت اور عالمی ادارے بھی سرگرم ہیں، لیکن ان کے درمیان تعاون اور وسائل کی کمی کی وجہ سے کام میں رکاوٹیں آ رہی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) اور یونیسف جیسے ادارے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں، اور حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں کئی اقدامات کیے ہیں، جیسے کہ قومی سطح پر پولیو مہمات کی تیاری اور انسداد پولیو ٹیموں کو بہتر بنانا۔ تاہم، سیکیورٹی کے مسائل اور عوامی سطح پر تعاون کی کمی کے باعث یہ اقدامات پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے۔

اگرچہ پاکستان میں پولیو کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے، لیکن حکومت اور عالمی ادارے اس مرض کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔ پولیو کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور عالمی اداروں کے درمیان تعاون بڑھایا جائے، سیکیورٹی کی صورتحال میں بہتری لائی جائے، اور عوامی آگاہی کے لیے مزید مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں پولیو کے کیسز میں کمی لانے کے لیے ایک مضبوط اور جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے، جس میں ویکسینیشن کی شرح کو بڑھانا، والدین کو پولیو ویکسین کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنا، اور صحت کے نظام میں بہتری لانا شامل ہو۔ اگر ان اقدامات کو درست طریقے سے نافذ کیا جائے تو پاکستان میں پولیو کے خاتمے میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں پولیو کی ویکسینیشن مہمات کے دوران سب سے بڑی مشکلات میں سے ایک ان علاقوں تک پہنچنا ہے جہاں لوگوں تک صحت کی سہولتیں پہنچنا انتہائی مشکل ہے۔ خاص طور پر ایسے علاقے جہاں سیکیورٹی کی صورتحال خراب ہو، جہاں جغرافیائی مشکلات ہوں یا جہاں لوگوں کے درمیان پولیو کے بارے میں غلط فہمیاں اور افواہیں پھیلی ہوئی ہوں، وہاں ویکسینیشن مہمات کی کامیابی میں رکاوٹیں آتی ہیں۔ 2023 میں پولیو کے کیسز میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہی چیلنجز ہیں، جو پولیو کے خاتمے کے عمل کو متاثر کرتے ہیں۔

پاکستان کے مختلف حصوں میں پولیو کے کیسز کی سب سے زیادہ تعداد ان علاقوں سے سامنے آئی ہے جہاں لوگوں تک رسائی مشکل ہے۔ 2023 میں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں پولیو کے کیسز میں واضح اضافہ دیکھنے کو ملا، جن میں زیادہ تر کیسز ان قبائلی علاقوں سے رپورٹ ہوئے جہاں سیکیورٹی کی صورتحال اور صحت کی سہولتیں محدود ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں پولیو کے 13 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے زیادہ تر وہ علاقے تھے جہاں سیکیورٹی کی خراب صورتحال اور ان علاقوں میں رہائش پذیر افراد کی عدم تعاون کی وجہ سے ویکسینیشن کی مہمات مؤثر طریقے سے نہیں چلائی جا سکیں۔

بلوچستان کے دور افتادہ علاقے جیسے کہ کیچ، پنجگور اور لسبیلہ میں پولیو ویکسین کے بارے میں عوامی آگاہی کی کمی اور ویکسین کے خلاف افواہیں پولیو کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہاں کے لوگ اکثر پولیو ویکسین کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہیں، جس کے باعث بچے ویکسین سے محروم رہ جاتے ہیں۔ 2023 میں ایسے 6,000 سے زائد کیسز سامنے آئے جہاں والدین نے پولیو ویکسین سے انکار کیا، جس کا نتیجہ پولیو کے کیسز میں اضافے کی صورت میں نکلا۔

ان علاقوں میں جہاں سیکیورٹی کی خراب صورتحال ہے، وہاں ویکسینیشن ٹیموں تک پہنچنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بعض علاقوں میں دہشت گردی اور تشویش ناک صورتحال کے باعث پولیو ورکرز کو ہراساں کیا جاتا ہے، اور ان کے لیے ان علاقوں میں کام کرنا خطرناک بن جاتا ہے۔ 2022 اور 2023 میں پولیو ورکرز پر حملے بھی ہوئے، جس کے نتیجے میں ان مہمات کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حالات میں پولیو ورکرز کی حفاظت اور ان کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرنا ایک اہم چیلنج بن چکا ہے۔

عوامی سطح پر پولیو ویکسین کی اہمیت کے بارے میں آگاہی نہ ہونا بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلاتے۔ کچھ علاقوں میں لوگوں کا خیال ہے کہ پولیو ویکسین بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے، یا وہ اس بات سے لاعلم ہیں کہ پولیو کے قطرے ان کے بچوں کو زندگی بھر کے معذوری سے بچا سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، ایسے علاقوں میں ویکسینیشن کی شرح کم ہوتی جا رہی ہے، اور اس کا اثر پولیو کے پھیلاؤ پر پڑ رہا ہے۔

پولیو کے خلاف مہمات کو مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور عالمی ادارے ان چیلنجز کا سامنا کریں اور ان علاقوں میں جہاں رسائی مشکل ہے، ویکسینیشن کے عمل کو مؤثر طریقے سے چلانے کے لیے مزید وسائل فراہم کریں۔ سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانا، عوامی آگاہی بڑھانا اور پولیو ورکرز کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرنا ان اقدامات میں شامل ہیں جن کی مدد سے پولیو کے خاتمے کی مہمات کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں پولیو کے خلاف جنگ میں عوامی آگاہی مہمات کا کردار انتہائی اہم ہے۔ پولیو کے خاتمے کے لیے ویکسینیشن کی مہمات کو کامیاب بنانے کے لیے لوگوں میں پولیو کے خطرات اور ویکسین کی اہمیت کے بارے میں آگاہی بڑھانا ضروری ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں عوامی آگاہی مہمات نے پولیو کے خاتمے کے عمل میں اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن اب بھی کئی علاقوں میں لوگوں میں غلط فہمیاں اور پولیو کے بارے میں منفی تصورات موجود ہیں، جن کے باعث پولیو کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔

2023 میں پولیو کے کیسز میں اضافے کی ایک بڑی وجہ عوامی آگاہی کی کمی ہے۔ خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور سندھ کے بعض علاقوں میں لوگوں نے پولیو ویکسینیشن کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کیا، جس کے نتیجے میں بچوں کو ویکسین نہیں پلائی گئی۔ 2023 میں صرف خیبر پختونخواہ میں 13 پولیو کے کیسز رپورٹ ہوئے، اور اس میں سے زیادہ تر وہ علاقے تھے جہاں عوامی آگاہی کی کمی اور ویکسین کے بارے میں غلط فہمیاں موجود تھیں۔

پاکستان میں مختلف عوامی آگاہی مہمات چلائی گئی ہیں تاکہ لوگوں کو پولیو ویکسین کے فوائد کے بارے میں بتایا جا سکے۔ میڈیا کے ذریعے، اسکولوں میں بچوں کو پولیو کے خطرات اور ویکسین کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے، اور سوشل میڈیا کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ پولیو کے خلاف معلومات فراہم کی جا سکیں۔ اس کے باوجود، چند علاقوں میں مذہبی یا ثقافتی وجوہات کی بنا پر عوام پولیو ویکسین کے خلاف ہیں، جس کا اثر ویکسینیشن کی شرح پر پڑ رہا ہے۔

پولیو کے خاتمے کے لیے عوامی آگاہی مہمات کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ 2023 میں پاکستان نے عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے پولیو ویکسین کی اہمیت کے بارے میں نئے میڈیا کمپینز شروع کیے ہیں، اور مزید 20 لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ ان مہمات کا مقصد لوگوں کو پولیو کی روک تھام کے فوائد سے آگاہ کرنا اور انہیں ویکسینیشن کے بارے میں متفق کرنا ہے تاکہ پولیو کے کیسز میں مزید کمی لائی جا سکے۔ عوامی تعاون اور آگاہی کے بغیر پولیو کے خاتمے کی مہم کامیاب نہیں ہو سکتی۔

صحت کے بحرانوں میں حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کا تعاون انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں مختلف صحت کے بحرانوں، جیسے پولیو، کرونا وائرس اور دیگر وبائی امراض کی روک تھام کے لیے حکومت اور این جی اوز نے مل کر کام کیا ہے۔ اس تعاون کا مقصد عوامی صحت کو بہتر بنانا اور عوام کو صحت کی سہولتوں تک رسائی فراہم کرنا ہے۔

پاکستان میں 2020 میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران حکومت اور این جی اوز کے درمیان موثر تعاون دیکھنے کو ملا۔ حکومت نے لاک ڈاؤن اور حفاظتی تدابیر کا نفاذ کیا، جبکہ این جی اوز نے صحت کے مراکز میں امداد فراہم کی، آکسیجن سلنڈرز اور دیگر ضروری سامان کی ترسیل کی، اور کمیونٹی سطح پر آگاہی مہمات چلائیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور دیگر بین الاقوامی این جی اوز نے پاکستان کی حکومت کے ساتھ مل کر کرونا کی ویکسینیشن کی مہم چلائی، جس کے دوران 2021 تک تقریباً 10 کروڑ افراد کو ویکسین لگائی گئی۔

پولیو کے خاتمے کے لیے بھی حکومت اور این جی اوز کا تعاون ضروری رہا ہے۔ 2019 میں پاکستان میں پولیو کے کیسز میں کمی دیکھنے کو ملی تھی، اور اس میں حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے والی این جی اوز کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ مثلاً، "پاکستان پولیو پروگرام” کے تحت 2022 میں 98% بچوں کو پولیو کی ویکسین دی گئی تھی، جس کا ایک بڑا حصہ غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے ممکن ہو سکا۔

تاہم، حکومت اور این جی اوز کے درمیان بعض اوقات تعلقات میں مشکلات بھی پیش آتی ہیں۔ بعض علاقوں میں عوامی اعتماد کی کمی اور سیاسی چیلنجز کی وجہ سے این جی اوز کو اپنے منصوبوں کو مؤثر طریقے سے عملی جامہ پہنانے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ مثال کے طور پر، 2023 میں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں پولیو مہمات کے دوران سیکورٹی کے مسائل اور مقامی سطح پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

مجموعی طور پر، صحت کے بحرانوں میں حکومت اور این جی اوز کا تعاون ضروری ہے، لیکن اس تعاون کو مزید مؤثر بنانے کے لیے عوامی اعتماد بڑھانے، وسائل کی منصفانہ تقسیم، اور مقامی سطح پر آگاہی مہمات پر زور دینے کی ضرورت ہے۔

دنیا بھر میں پولیو کے خاتمے کی کوششوں نے اہم سبق فراہم کیے ہیں، جنہیں پاکستان میں پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے مؤثر طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کی کامیاب مہمات نے ثابت کیا ہے کہ صرف حکومت کی کوششیں کافی نہیں ہوتیں، بلکہ مقامی کمیونٹی کی شمولیت، بین الاقوامی اداروں کی حمایت اور مضبوط صحت کے نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان بھی پولیو کے خاتمے کے لیے کئی سالوں سے عالمی شراکت داری میں شامل ہے، اور یہاں کی صورتحال میں عالمی تجربات کو اپنانا بے حد اہم ہو چکا ہے۔

پولیو کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر سب سے بڑی کامیاب مہم 1988 میں شروع ہوئی تھی، جب عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)، یونیسیف، اور دیگر عالمی تنظیموں نے پولیو کے خاتمے کا عزم کیا۔ اس کے بعد سے پولیو کے کیسز میں 99% کمی آئی ہے، اور کئی ممالک پولیو سے آزاد ہو چکے ہیں۔ ان کامیابیوں میں سب سے اہم بات یہ رہی کہ مہمات کو ہر سطح پر مقامی سطح تک پہنچایا گیا اور ویکسینیشن کی کوششیں تیز کی گئیں۔

پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر فراہم کردہ مدد اور سبق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، بھارت میں پولیو کے خاتمے کی مہم نے پاکستان کے لیے ایک اہم سبق دیا، جہاں ان کوششوں کے ذریعے پولیو کو مکمل طور پر ختم کیا گیا۔ بھارت میں پولیو کے خاتمے کے دوران حکومتی اقدامات، کمیونٹی کی شمولیت، اور سخت نگرانی کے نظام نے کامیابی حاصل کی۔ پاکستان میں بھی ان ہی اقدامات کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں پولیو کے کیسز کی تعداد 2022 میں 20 کے قریب تھی، جب کہ 2023 میں یہ تعداد تقریباً 30 کے قریب پہنچی۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیو کے خلاف جنگ میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں پولیو کی ویکسین کی مہمات میں مشکلات آتی ہیں، جہاں دشمنی اور کم تعلیم کی وجہ سے عوامی سطح پر احتیاطی تدابیر کا فقدان ہوتا ہے۔ اسی طرح، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان جیسے صوبوں میں سیکیورٹی کی صورتحال بھی ایک اہم رکاوٹ ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے عالمی سطح پر کیے گئے اقدامات کو پاکستان میں بہتر طور پر اپنانے کی ضرورت ہے۔

بین الاقوامی شراکت داری اور عالمی امداد کے علاوہ، پاکستان میں مقامی کمیونٹی کی شمولیت کو بھی بڑھانا ضروری ہے۔ پولیو کے خاتمے کے لیے بھارت اور نائجیریا میں کامیاب مہمات میں مقامی عوام کو آگاہی دینا اور انہیں مہم کا حصہ بنانا شامل تھا۔ پاکستان میں بھی ایسی ہی حکمت عملی کو اپنانا چاہیے تاکہ لوگ پولیو کے خلاف ویکسینیشن کی اہمیت سمجھیں اور اپنے بچوں کو ویکسین لگانے میں حصہ لیں۔

مجموعی طور پر، عالمی تجربات سے سیکھتے ہوئے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی مہمات میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات، بین الاقوامی اداروں کی مدد اور مقامی کمیونٹی کی شمولیت سے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں