ہر سال 11 دسمبر کو منایا جانے والاپہاڑوں کا بین الاقوامی دن پہاڑوں کی قدرتی اور ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور ان کے ماحول اور انسانی زندگی میں اہم کردار پر زور دیتا ہے۔ زمین کے 22 فیصد رقبے پر پہاڑ پھیلے ہوئے ہیں، جو دنیا کی 13 فیصد آبادی کو زندگی کی ضروریات فراہم کرتے ہیں۔ یہ پانی، حیاتیاتی تنوع، ثقافتی ورثے اور موسمیاتی توازن کے لیے اہم ہیں۔ لیکن انسانی سرگرمیوں، جیسے کہ غیر قانونی کان کنی، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، بڑے بڑے پراجیکٹس جو ماحولیاتی اثرات کے تجزئے کے بغیر شروع اور مکمل کئے جاتے ہیں، اور بے قابو ترقی کے باعث یہ پہاڑی نظام تباہی کے دہانے پر ہیں۔
پاکستان میں صورتحال خاص طور پر تشویشناک ہے۔ یہاں کے شاندار پہاڑ، جیسے کہ قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش، نہ صرف قدرتی خزانوں کا حصہ ہیں بلکہ مقامی کآبادیوں کا مسکن و سہارا بھی ہیں۔ لیکن غیر قانونی کان کنی، پہاڑوں کی بلاوجہ کٹائی، اور غیر قانونی جنگلات کی کٹائی ان قیمتی ماحولیاتی نظاموں کو تباہ کر رہی ہیں، جو ماحول اور مقامی لوگوں کی روزی پر براہ راست اثر ڈال رہی ہیں۔
عالمی تناظر: استحصال اور پالیسی کے خلا
دنیا بھر میں پہاڑ انسانی سرگرمیوں سے شدید خطرات کا شکار ہیں۔ قیمتی معدنیات کے لیے غیر قانونی کان کنی، بے قابو جنگلات کی کٹائی، اور بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کی ترقی مٹی کے کٹاؤ، حیاتیاتی تنوع کی کمی موسمیاتی تبدیلیوں کو تیز کر رہی ہے۔
عالمی فریم ورک، جیسے کہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف ، خاص طور پر ہدف 15 (زمین پر زندگی) اور ہدف 13 (موسمیاتی عمل)، پہاڑی ماحولیاتی نظام کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسی طرح، اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے موسمیاتی تبدیلیمیں پہاڑی علاقوں میں پائیدار عمل کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ تاہم، ان قوانین کا نفاذ اکثر کمزور ہوتا ہے، جس کی وجہ سے پہاڑوں میں بسنے والی آبادیاں اور ماحولیاتی نظام خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔
پاکستان کا تناظر: ایک بڑھتا ہوا ماحولیاتی بحران
پاکستان دنیا کی 14 سب سے اونچی چوٹیوں میں سے 5 کا گھر ہے اور یہاں 7,000 سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں، جو عالمی سطح پر اہمیت رکھتے ہیں اور قطبی ریجن کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ برفیلی علاقے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے، یہ علاقے تیزی سے استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور ماحولیاتی تبدیلیاں دنیا کے ان پانی کے ٹاورز کے لئے شدید خطرہ ثابت ہو رہے ہیں۔
غیر قانونی کان کنی اور پہاڑوں کی کٹائی
تعمیراتی مواد اور معدنیات کے لیے بلا روک ٹوک کان کنی نے پاکستان کے بہت سے پہاڑی علاقوں کو تباہ کر دیا ہے۔ اسلام آباد کے قریب مارگلہ کی پہاڑیوں ، خان پور اور ایبٹ آباد ہزارہ جیسے خوبصورت علاقے بھی کرشنگ کی سرگرمیوں سے جہاں اپنا قدرت حسن وجمال کھو رہے ہیں وہاں مقامی آبادیوں کے لئے صحت کے مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں۔ کاغان، سرن اور کوہستان کی خوبصورت وادیاں بھی جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی زد میں ہیں۔ غیر قانونی کرشنگ کی سرگرمیوں نے ہمار ہزاروں سال قدیمی ورثہ بھی خطرہ میں ڈال دیا ہے جس میں سر فہرست کٹاس کا مندر ہے جس کی ہزاروں سال پرانی جھیل اور اس کی حیاتیاتی تنوع شدید خطرہ سے دو چار ہے۔ انسانوں کی ان غحیر انسانی سرگرمیوں نے پہاڑوں کو نایاب پودو، جڑی بوٹیوں ،ادواتی پودوں اوردنیا کی نایاب جنگلی حیات سے محروم کر دیا ہے۔ حالانکہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کو ایک محفوظ علاقہ قرار دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود وہاں مسلسل تجاوزات جاری ہیں۔
غیر قانونی جنگلات کی کٹائی
پاکستان کے پہاڑی علاقوں، خاص طور پر سوات، دیر، اور چترال میں غیر قانونی جنگلات کی کٹائی نے بڑے پیمانے پر جنگلات کو ختم کر دیا ہے۔ یہ عمل مٹی کے کٹاؤ، اچانک سیلابوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کو بڑھاتا ہے، جس سے ماحولیاتی تباہی اور آفات کا ایک شیطانی دائرہ پیدا ہو جاتا ہے۔
آبادیوں اور ماحولیاتی نظام پر اثرات
پہاڑی علاقوں کی صدیوں سے بسنے والی آبادیوں ، جو پہلے ہی پسماندہ ہیں، جنگلات اور پانی کے وسائل کی کمی کے باعث بدتر حالات کا سامنا کر رہی ہیں۔ یہ سرگرمیاں ان نازک ماحولیاتی نظاموں کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہیں جو پاکستان کے لیے منفرد نباتات اور جنگلی حیات کی حمایت کرتے ہیں۔
پالیسی فریم ورک: خلا اور چیلنجز
قومی سطح پر، پاکستان نے پہاڑی ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے لیے کئی فریم ورک متعارف کرائے ہیں، جیسے کہ پاکستان نیشنل فارسٹ پالیسی 2015 اور کلائمٹ چینج ایکٹ 2017، جس کے تحت موسمیاتی تبدیلی کی اتھارٹی قائم کی گئی۔ صوبائی حکومتوں نے بھی کے پی میں بلین ٹری سونامی جیسے منصوبے شروع کیے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر، پاکستان پیرس معاہدے کا دستخط کنندہ ہے اور ٖایف او اے کے تحت ماونٹین پارٹنرشپ کا حصہ ہے۔ تاہم، کمزور حکمرانی، کرپشن، اور کمیونٹی کی شمولیت کی کمی کے باعث ان پالیسیوں پر عملدرآمد اکثر ناکام ہو جاتا ہے۔
آگے کا راستہ: عمل کی ضرورت
پاکستان کے پہاڑوں کو بچانے اور بین الاقوامی وعدوں کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے ایک جامع حکمت عملی ضروری ہے:
ماحولیاتی قوانین کا سخت نفاذ
غیر قانونی کان کنی اور جنگلات کی کٹائی کے لیے نگرانی کے میکانزم کو مضبوط کریں۔
جدید ٹیکنالوجی جیسے جی آئی ایس میپنگ کے ذریعے جنگلات اور وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹس کو بااختیار بنائیں۔
کمیونٹی پر مبنی تحفظ
مقامی کمیونٹیز کو متبادل روزگار فراہم کرکے تحفظ کی کوششوں میں شامل کریں۔
حکومت مقامی آبادیوں کو سوختہ بالن کے لئے سب سڈی دے کر کم قیمت پر ایل پی جی، مٹی کا تیل ، سولر پینلز فراہم کرے۔
پہاڑی باشندوں کے لیے ایک پائیدار آمدنی کا ذریعہ کے طور پر ایکو ٹورزم کو فروغ دیں۔
مقامی آبادیوں کوجنگلات میں نیپال کی طرز پر ایک حصہ دار کے طور پر شامل کریں۔
جنگلات بچانے کے لئے مالاکنڈ ڈویژن کی طرز پر ملک کے دیگر علاقوں میں کمیونٹی بیرئیئر لگائے جائیں۔
جنگلات کی دوبارہ افزائش اور بحالی
پودے لگانے کی مہمات کو بڑھائیں اور مقامی اقسام کے درخت لگائیں۔
تیزی سے بڑھنے والے پودوں کی اقسام کی سال میں دو دفعہ شجرکاری کی جائے تاکہ مقامی آبادیوں کا کونیفر جنگلات کی کٹائی کا پریشر کم کیا جائے۔
مٹی اور پانی کے تحفظ کی تکنیکوں کو نافذ کریں تاکہ کٹاؤ پر قابو پایا جا سکے۔
پائیدار کان کنی کے طریقے
ماحولیاتی اثرات کی تشخیص کو لازمی قرار دے کر کان کنی کے پائیدار ضوابط تیار کریں۔
ملک بھر میں سیاسی رشوت کے طور پر دی گئی کان کنی کی لیزنگ فوری ختم کر کے اس کو تجربہ کار کمپنیوں کے سپرد کیا جائے تاکہ ملک کی معدنیات ضائع ہونے سے بچیں اور ملک بہترین زر مبادلہ حاصل کر سکے
آگاہی اور تعلیم
پہاڑوں کی اہمیت اور ان کی تباہی کے نتائج کو اجاگر کرنے کے لیے ملک گیر آگاہی مہم شروع کریں۔
سول سوسائٹی اور میڈیا اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔
نصابی کتب میں پرائیمری کی سطح سے پہاڑوں کی اہمیت اور ماحول پر مضامین شامل کئے جائیں۔
بین الاقوامی تعاون
کے تحت عالمی شراکت داریوں کے ذریعے تکنیکی اور مالی مدد حاصل کریں۔SDG
پاکستان کے پہاڑی ماحولیاتی نظام کی حفاظت کے لیے عالمی موسمیاتی مالیات کی وکالت کریں۔
الغرضپہاڑ ہمارے سیارے کی زندگی کی لکیریں ہیں، جو اہم قدرتی وسائل اور ماحولیاتی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان کے پہاڑ، اپنی اونچائی،دلکش خوبصورتی اور ماحولیاتی اہمیت کے ساتھ، ایک قومی خزانہ ہیں جن کی فوری حفاظت کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی دن برائے پہاڑ ہمیں ان نازک ماحولیاتی نظاموں کے تحفظ کی اجتماعی ذمہ داری یاد دلاتا ہے۔پالیسی کے خلا کو پُر کرکے، عملدرآمد کو یقینی بنا کر، اور مقامی کمیونٹیز کو شامل کرکے، ہم پاکستان اور دنیا میں پہاڑوں کے پائیدار انتظام کا راستہ ہموار کر سکتے ہیں۔عمل کا وقت اب ہے—ہمارے پہاڑ، اور ان پر انحصار کرنے والے لاکھوں لوگ، مزید انتظار نہیں کر سکتے۔
مختار جاوید ایک سماجی و ماحولیاتی کارکن
ایگزیکٹو ڈائیریکٹر واج، ، چیئر پرسن فا فن
ایگزیکٹو ممبر این ایچ این، سن سی ایس اے نیوٹریشن نیٹ ورک پاکستان
،ممبر ، ، سٹارٹ گلوبل نیٹ ورک ر یڈی پاکستان،اور خیبر پختونخواہ فارسٹری راونڈ ٹی