Skip to content

خواتین کی خلاف تشددکے روک تھام کی سولہ روزہ مہم   اور ہماری ذمہ داریاں

شیئر

شیئر

خواتین کی خلاف تشددکے روک تھام کی سولہ روزہ مہم   اور ہماری ذمہ داریاں

اس وقت دنیا بھر میں خواتین کے خلاف تشدد کے روک تھام کے لئے سولہ وازہ مہم چلائی جا رہی ہے جس کا  عنوان ہے ” اب عمل کرنے کا وقت ہے”۔اس مہم کا آغاز 1889 میں کینیڈا کے شہر مونٹریال سے ہوا جب ایک شخص نے شہر کے ایک کالج میں 40 خواتین کو جمع کیا اور ان میں سے 16 خواتین کو اس بات پر گولی مار دی کہ  بقول اس کے وہ اس کالج میں داخلہ کی اہل نہیں تھی۔

 اس دل  خراش واقعہ کے بعد اس کالج کے ایک طالب عمل مائیکل کیفمین کو شدید صدمہ ہوا اور اس نے خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کے خاتمہ کے لئے آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ مائیکل نے مردوں کا ایک گروہ تیار کیا اور ان کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ تمام مرد تشدد پسند نہیں ہوتے، یوں اس گروہ نے خواتین کے خلاف تشدد اور ناانصافیوں  کے خاتمہ کے لئے ایک   مہم کا آغاز کیا جس کو سفید ربن مہم کا نام دیا گیا۔ تب سے اس مہم میں مرددنیا بھر میں  سفید ربن پہن کر  خواتین پر تشدد کے خلاف  آواز بلند کرتے ہیں۔

اس وقت دنیا میں  مردوں کی جانب سے عورتوں کے خلاف تشدد  کے خاتمہ کی سب سے بڑی مہم ہے۔یہ مہم ہر سال 25 نومبر سے 10 دسمبر تک  چلائی جاتی ہے۔اس دوران مردوں میں خواتین کے خلاف  ہونے والے تشدد اور ناانصافیوں کے متعلق آگاہی پیدا کی جاتی ہے۔عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ تمام مرد تشدد پسند ہوتے ہیں  لیکن یہ خیال مطلق غلط ہے اکثر مرد خواتین  پر ہر طرح کے تشدد کو نہ صرف برا سمجھتے ہیں بلکہ اس کی روک تھام کے لئے ہمہ وقت کام کرتے ہیں اور خواتین کو  گھر، دفاتر اور عملی زندگی کے دیگر شعبوں میں   تشدد سے پاک ماحول کی فراہمی کے حامی ہیں۔

پاکستان میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشددایک سنگین مسئلہ ہے جو سماجی، ثقافتی اور ادارہ جاتی نظام میں گہری جڑیں رکھتا ہے۔ قانونی پیش رفت اور آگاہی کی کوششوں کے باوجود، یہ مسئلہ مختلف شکلوں میں ملک بھر میں موجود ہے۔ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے خواتین کے خلاف تشدد کی بہت سی اقسام ہیں 

پاکستان میں تشدد کی اقسام

1۔گھریلو تشدد:     عام ہے لیکن معاشرتی دباؤ اور بدنامی کے خوف کی وجہ سے رپورٹ نہیں کیا جاتا۔جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی زیادتیاںعام ہیں۔

۔غیرت کے نام پر قتل: خاندان کی "غیرت” کے نام پر خواتین کو قتل کیا جاتا ہے۔ قانونی پابندیوں کے باوجود، معاشرتی قبولیت برقرار ہے۔2

3۔جنسی تشدد: اس میں ریپ، جنسی ہراسانی اور زیادتی شامل ہیں۔ متاثرین کو انصاف حاصل کرنے میں شدید سماجی اور قانونی   رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

.4۔کم عمری کی شادی: لڑکیاں زیادہ متاثر ہوتی ہیں، جس سے صحت کے مسائل اور جلدی حمل کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

غربت، روایت اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے فروغ پاتی ہے۔

انسانی اسمگلنگ: خواتین اور لڑکیوں کو جنسی استحصال، جبری مشقت اور شادی کے لیے اسمگل کیا جاتا ہے۔.5

تیزاب گردی:زیادہ تر خواتین کے خلاف کی جاتی ہے، جو جسمانی اور جذباتی نقصان کا سبب بنتی ہے۔:6

۔کام کی جگہ پر ہراسانی: خواتین کو پیشہ ورانہ مقامات پر ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو افرادی قوت میں ان کی شرکت کو کمزور کرتی 7

تشدد کی وجوہات

پدرانہ نظام اور صنفی اصول: ایک مرد غالب معاشرہ جہاں خواتین کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔1

کمزور قانون نافذ کرنے والے ادارے: قوانین کا ناقص نفاذ، کرپشن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں حساسیت کی کمی۔. 2

تعلیمی اور شعوری کمی: بہت سی خواتین اپنے حقوق اور قانونی تحفظات سے ناواقف ہیں۔:3

ثقافتی اور مذہبی غلط تشریحات: ثقافتی اصولوں اور مذہبی بہانوں کا غلط استعمال کرکے تشدد کو جائز قرار دینا:4

معاشی انحصار: خواتین کی مالی انحصاری ان کے لیے تشدد سے نکلنا مشکل بناتی ہے:5

تشدد کے اثرات

صحت: جسمانی زخم، ذہنی صحت کے مسائل، تولیدی صحت کے مسائل، 2:معاشی: خواتین کی پیداواری صلاحیت اور مالی آزادی میں کمی۔:1

سماجی: پسماندگی اور بدسلوکی کے نسل در نسل سلسلے 4:خواتین کے معاشرتی ترقی میں کردار کو محدود کرنا۔:3:ترقی

تشدد سے نمٹنے کے اقدامات:

خواتین کے حقوق، صنفی مساوات، اور بااختیاری سےمتعلق کلیدی بین الاقوامی قوانین، معاہدات، اور فریم ورک

اقوام متحدہ کے معاہدے اور کنونشنز

خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کا کنونشن: (CEDAW,1979) .1
اسے "خواتین کے حقوق کا بل” بھی کہا جاتا ہے، جو امتیاز کو ختم کرنے اور تعلیم، ملازمت، اور سیاسی شرکت جیسے مختلف شعبوں میں صنفی مساوات کو فروغ دیتا ہے۔

سیڈا کے اختیاری پروٹوکول 1999: افراد یا گروہوں کو خلاف ورزیوں کی شکایات درج کرنے اور خواتین کے حقوق کی سنگین یا منظم خلاف ورزیوں کی تحقیقات شروع کرنے کے طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔

بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق: مردوں اور عورتوں کے لیے تمام شہری اور سیاسی آزادیوں سے مساوی فائدہ اٹھانے کے حقوق کو یقینی بناتا ہے۔ (ICCPR)، 1966. 3
بین الاقوامی معاہدہ برائے اقتصادی، سماجی، اور ثقافتی حقوق:خواتین کے کام، تعلیم، صحت، اور ایک مناسب معیارِ زندگی کے حقوق کو یقینی بناتا ہے۔ (ICESCR, 1966). 4
بچوں کے حقوق کا کنونشن:لڑکیوں کے حقوق کو تسلیم کرتا ہے اور انہیں امتیاز، استحصال، اور بدسلوکی سے بچانے کے اقدامات کو یقینی بناتا ہے۔ (CRC،1989)5۔
6۔شادی شدہ خواتین کی شہریت کے کنونشن1957:خواتین کو ان کی ازدواجی حیثیت سے قطع نظر اپنی شہریت برقرار رکھنے کا حق فراہم کرتا ہے۔
۔7شادی کی رضامندی، شادی کی کم از کم عمر، اور شادی کی رجسٹریشن کے کنونشن962:خواتین کی رضامندی کی حمایت کرتا ہے اور زبردستی شادیوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

: (ILO) بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے کنونشنز

مردوں اور عورتوں کے لیے مساوی کام کی مساوی اجرت کو فروغ دیتا ہے۔:ILO ۔مساوی معاوضہ کنونشن، 1951 (نمبر 100)1
ملازمت اور پیشے میں امتیاز، بشمول صنفی بنیاد پر امتیاز کو ختم کرنے کا مقصد رکھتا ہے۔:ILO امتیاز (ملازمت اور پیشہ) کنونشن، 1958 (نمبر 111).2
:حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے زچگی کی چھٹی اور کام کی جگہ کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔ILO ۔زچگی تحفظ کنونشن، 2000 (نمبر 183)3
:کام کی دنیا میں تشدد اور ہراسانی سے متعلق مسائل پر توجہ دیتا ہے، خاص طور پر خواتین کے لیے۔ILO ۔تشدد اور ہراسانی کنونشن، 2019 (نمبر 190)4
: Regional Instruments علاقائی آلات

۔انٹر امریکن کنونشن برائے خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام، سزا، اور خاتمہ (بیلم ڈو پارا کنونشن)1994:امریکہ میں خواتین کے خلاف تشدد کے مسائل کو حل کرتا ہے۔1
.:2۔افریقی چارٹر برائے انسانی اور عوامی حقوق پر پروٹوکول برائے خواتین کے حقوق (ماپوٹو پروٹوکول)، 2003
خواتین کے حقوق کی وسیع رینج کا احاطہ کرتا ہے، بشمول جنسی اور تولیدی صحت کے حقوق۔

یورپی کونسل کا کنونشن برائے خواتین کے خلاف تشدد اور گھریلو تشدد کی روک تھام اور خاتمہ (استنبول کنونشن 2022)، یورپ میں خواتین کے خلاف تشدد اور گھریلو تشدد سے نمٹنے پر توجہ دیتا ہے۔

بین الاقوامی فریم ورک اور اعلانات:

: مساوات کے اصول کو قائم کرتا ہے اور جنس کی بنیاد پر امتیاز کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ (UDHR):1948آفاقی انسانی حقوق کا اعلامیہ.1
2بیجنگ اعلامیہ اور عملی پلیٹ فارم1995:خواتین کے حقوق اور صنفی مساوات کے لیے ایک جامع عالمی ایجنڈا ہے۔
:خاص طور پر ہدف 5 صنفی مساوات حاصل کرنے اور تمام خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے پر توجہ دیتا ہے۔(SDGs)، 2015۔پائیدار ترقی کے اہداف3
۔ویانا اعلامیہ اور عملی پروگرام1993:خواتین کے حقوق کو انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کو ترجیح دیتا ہے۔4
۔خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا اعلامیہ1993:دنیا بھر میں خواتین کے خلاف تشدد سے نمٹنے کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے۔5
تنازعات اور انسانی امداد کے سیاق و سباق

خواتین، امن، اور سلامتی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1325،2000:تنازعات کے حل اور امن کی تعمیر میں خواتین کے کردار کو اجاگر کرتی ہے اور تنازعات والے علاقوں میں ان کے تحفظ کا مطالبہ کرتی ہے۔
۔بین الاقوامی فوجداری عدالت کا روم سٹیچوٹ1998:جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد کو انسانیت کے خلاف جرم اور جنگی جرم کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔2
جنیوا کنونشنز، 1949، اور اضافی پروٹوکولز:مسلح تنازعات میں خواتین کے تحفظات شامل ہیں، بشمول جنسی تشدد سے تحفظ.۔3
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادیں برائے خواتین کے جنسی اعضاء کی قطع   کاری ا:س عمل کی مذمت کرتی ہیں اور رکن ممالک سے اس کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ (FGM)4۔
5۔ہجرت کے لیے عالمی معاہدہ2018 :مہاجر خواتین اور لڑکیوں کو درپیش مخصوص مسائل کو حل کرنے کی ضرورت کو تسلیم کرتا ہے۔
یہ قوانین اور فریم ورک خواتین کے حقوق کو فروغ دینے، صنفی مساوات کو یقینی بنانے، اور خواتین کو تشدد اور امتیاز سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے عالمی سطح پر کام کرتے ہیں۔ پاکستاننے  ان بین القوامی قوانین پر دستخط بھی کئے ہیں اور ان کی تقثیق بھی کی ہے۔ اب یہ ہم سب کی ذمہداری ہے کہ اپنی ریاست کو اس کا پابند بنانے کے لئے آنے والی حکومتوں سے مطالبہ کریں کہ وہ ان قانین کی بلا امتیاز لاگو کرنے کی ذمہدار سے عہدہ براء ہوں۔

پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے آئینی حقوق

پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے آئینی حقوق کو آئین پاکستان 1973 میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ حقوق خواتین کو سماجی، اقتصادی، سیاسی، اور قانونی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اہم نکات درج ذیل ہیں:

برابری کا حق (آرٹیکل 25).1

آئین کا آرٹیکل 25 واضح کرتا ہے کہ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور جنس، نسل، یا مذہب کی بنیاد پر کسی سے امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔

آرٹیکل 25 (3) حکومت کو خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

ذاتی آزادی کا حق (آرٹیکل 9)

ہر شہری کو زندگی اور ذاتی آزادی کا حق حاصل ہے، جس میں خواتین بھی شامل ہیں۔

خواتین کے خلاف امتیازی سلوک پر پابندی (آرٹیکل 27)

عوامی خدمات اور دیگر مواقع میں خواتین کے خلاف کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک پر پابندی عائد ہے۔

سماجی اور اقتصادی تحفظ (آرٹیکل 37)

حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ خواتین کی صحت، تعلیم، اور معاشی تحفظ کو یقینی بنائے۔

مزدوری کے معاملے میں خواتین کے حقوق کے تحفظ پر بھی زور دیا گیا ہے۔

خاندانی قوانین اور وراثت (آرٹیکل 23 اور 24)

خواتین کو اپنی جائیداد رکھنے اور اس پر قبضہ رکھنے کا حق حاصل ہے۔

وراثت کے قوانین کے تحت خواتین کو ان کا حصہ دینا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

تعلیم کا حق (آرٹیکل 37-B اور 25-A)

حکومت خواتین کی تعلیم کو فروغ دینے اور ان کے لیے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔

شخصی تحفظ کا حق (آرٹیکل 14)

خواتین کی عزت اور نجی زندگی کا تحفظ آئین کے تحت بنیادی حق ہے۔

محنت کش خواتین کے تحفظ (آرٹیکل 11 اور 37-E)

جبری مشقت اور استحصال کی ممانعت کی گئی ہے، اور خواتین کو کام کی جگہ پر محفوظ ماحول فراہم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

قوانین پر عمل درآمد کی گنجائش

آئین کے آرٹیکل 34 کے تحت حکومت پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ خواتین کو قومی زندگی کے تمام شعبوں میں مکمل شرکت کے مواقع فراہم کرے۔

خصوصی قوانین اور ادارے

خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے قوانین: پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے لیے مختلف قوانین بنائے گئے ہیں جیسے:

گھریلو تشدد کی روک تھام کا قانون

کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے خلاف قانون

نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن (NCSW): خواتین کے حقوق کے فروغ اور ان کے تحفظ کے لیے کام کرتا ہے۔

یہ حقوق اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ خواتین کو پاکستان میں ہر ممکن تحفظ اور برابری دی جائے۔ مزید بہتری کے لیے حکومت، سول سوسائٹی، اور مختلف تنظیموں کو مسلسل جدوجہد کرنی ہوگی۔

حکومت پاکستان نے خواتین کے تحفظ کے لیے منظور شدہ  قوانین اور ایکٹس

فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ، 2021: ایک نجی ممبر کا بل جو قومی اسمبلی سے منظور ہوا۔اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری جسمانی سزا کی ممانعت کا ایکٹ، 2021: قومی اسمبلی سے منظور شدہ بل۔

خواتین کی جائیداد کے حقوق کے نفاذ کا ایکٹ، 2020: پارلیمنٹ کا منظور کردہ ایکٹ۔مسلم فیملی لاز (ترمیمی) ایکٹ، 2021: خواتین کے تحفظ کے لیے قانون۔4اینٹی ریپ (تحقیقات اور مقدمہ) ایکٹ، 2021: خواتین کے تحفظ کے لیے قانون۔جہیز اور دلہن کے تحائف (محدودیت) ایکٹ، 1976۔پریشان حال اور حراست میں خواتین فنڈ ایکٹ، 1996۔

شادیوں میں فضول خرچی کی ممانعت ایکٹ، 1997۔خواتین کے تحفظ (فوجداری قوانین ترمیمی) ایکٹ، دسمبر 2006۔۔پریشان حال اور حراست میں خواتین فنڈ (ترمیمی) ایکٹ، 2011

شادی کی تقریبات (پرتعیش نمائش اور فضول خرچی کی ممانعت) ،(ترمیمی) ایکٹ، پریشان حال اور حراست میں خواتین فنڈ (ترمیمی) ایکٹ، قومی کمیشن برائے حیثیت خواتین (ترمیمی) 2018

ایکٹ نمبراینٹی ریپ (تحقیقات اور مقدمہ) ایکٹ، 2021قومی کمیشن برائے حیثیت خواتین (ترمیمی) ایکٹ، 2021زینب الرٹ، ردعمل اور بازیابی ایکٹ، 2020

یہ قوانین خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے اور انہیں ہر قسم کے تشدد، استحصال اور عدم مساوات سے بچانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں خواتین کے تحفظ کے لیے قوانین

.۔خیبر پختونخوا ویمن پراپرٹی رائٹس کے نفاذ کا ایکٹ 2019:، یہ ایکٹ محتسب کو فوری کارروائی اور تحقیقات کا اختیار دیتا ہے۔1

کام کی جگہ پر خواتین کو ہراسانی سے تحفظ کا ایکٹ 2010:، یہ ایکٹ تمام کام کی جگہوں پر شکایات کی صورت میں انکوائری کمیٹی کے قیام کو لازمی قرار دیتا ہے۔.2

.3خیبر پختونخوا خواتین کے خلاف گھریلو تشدد (روک تھام اور تحفظ) ایکٹ 2021، یہ ایکٹ خواتین اور لڑکیوں کو ہر قسم کے تشدد سے تحفظ فراہم کرتا ہے، جن میں جنسی، نفسیاتی، اور معاشی تشدد کے ساتھ تعاقب شامل ہیں۔

.۔خیبر پختونخوا خواتین کو بااختیار بنانے کی پالیسی 2017، یہ پالیسی ان خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کا عزم رکھتی ہے جو تشدد کا شکار ہیں یا معاشی مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔4

خیبر پختونخوا مستحق بیواؤں اور خصوصی افراد فلاحی فاؤنڈیشن ایکٹ، 2014.5

کام کی جگہ پر خواتین کو ہراسانی سے تحفظ کا ایکٹ، 2010 (ایکٹ نمبر IV، 2010).6

خیبر پختونخوا خواتین کے خلاف گھریلو تشدد (روک تھام اور تحفظ) ایکٹ، 20217

خیبر پختونخوا ویمن پراپرٹی رائٹس کے نفاذ کا ایکٹ، 20198

خیبر پختونخوا کمیشن برائے خواتین کی حیثیت کا ایکٹ، 20169

خواتین کی ملکیتی حقوق کے نفاذ کا ایکٹ، 201210

یہ قوانین خیبر پختونخوا میں خواتین کے حقوق کے تحفظ اور ان کی بہتری کو یقینی بنانے کے لیے نافذ کیے گئے ہیں۔

حکومت پنجاب کی طرف سے خواتین کے حقوق کے لئے پاس کئے گئے بلز

2012سے 2017 کے دوران، حکومت پنجاب نے خواتین کے خلاف صنفی امتیاز، تشدد، اور خواتین کی اقتصادی و سماجی ترقی کے لیے کئی اہم اقدامات متعارف کرائے اور نافذ کیے۔ خواتین کی سیاسی عمل میں شمولیت اور افرادی قوت میں ان کے کردار کو فروغ دینے کے لیے بھی مثبت اقدامات کیے گئے، جبکہ تعلیم حکومت پنجاب کی ترجیحات میں شامل رہی۔ پنجاب میں خواتین کے حقوق کو آئین اور پنجاب اسمبلی کے ذریعے منظور کردہ دیگر قانون سازی کے ذریعے تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

آئین پاکستان:آئین پاکستان کے تحت خواتین کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔

خواتین کے تحفظ کے لیے قومی قوانین:قومی قانونی فریم ورک میں حالیہ خواتین کے حق میں درج ذیل قوانین اور ترامیم شامل ہیں

ایسڈ کنٹرول اور ایسڈ کرائم پریوینشن ایکٹ2011،اینٹی ویمن پریکٹسز کی روک تھام ایکٹ، 2011

فوجداری قانون (ترمیمی) (ریپ کے جرم) ایکٹ2016،فوجداری قانون (ترمیمی) (غیرت کے نام پر جرائم) ایکٹ، 2016

الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام ایکٹ2016،ہندو میرج ایکٹ، 2017

پنجاب میں خواتین کو بااختیار بنانے کی حالیہ پالیسی اقدامات:

پنجاب ویمن ایمپاورمنٹ پیکیج 2012 (PWEP)

پنجاب ویمن ایمپاورمنٹ انیشی ایٹوز 2014 (PWEI)

پنجاب ویمن ایمپاورمنٹ پیکیج 2016 (PWEP)

پنجاب ویمن ڈیولپمنٹ پالیسی، 2018

پنجاب میں خواتین کے تحفظ کے قوانین

پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی ایکٹ2017،پنجاب پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ وائلنس ایکٹ2016،پنجاب مسلم فیملی لاز (ترمیمی) ایکٹ2015،پنجاب فیملی کورٹس (ترمیمی) ایکٹ،پنجاب میرج ریسٹرینٹ (ترمیمی) ایکٹ2015،پنجاب خواتین کی جائیداد کے حقوق کے نفاذ کا ایکٹ2021،کم عمری کی شادی کی ممانعت / ابتدائی عمر کی شادی کی ممانعت۔

پنجاب فیئر رپریزنٹیشن آف ویمن ایکٹ2014،پنجاب کام کی جگہ پر خواتین کو ہراسانی کے خلاف تحفظ (ترمیمی) ایکٹ2012،

سندھ میں خواتین کے تحفظ کے لیے منظور شدہ قوانین

۔گھریلو تشدد (روک تھام اور تحفظ) ایکٹ، 20131

یہ قانون پورے سندھ میں لاگو ہوتا ہے اور خواتین، بچوں، اور دیگر کمزور افراد کو گھریلو تشدد سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

. ۔سندھ چائلڈ میرجز ریسٹرینٹ ایکٹ، 2013۔2

یہ قانون بچوں کی شادیوں کو روکنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

۔سندھ کمیشن برائے خواتین کی حیثیت کا ایکٹ، 2015۔3

اس قانون کے تحت خواتین کی حیثیت پر ایک صوبائی کمیشن قائم کیا گیا۔ یہ کمیشن خواتین کے حقوق کو فروغ دینے والے قوانین کے نفاذ کی نگرانی کرتا ہے اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے اقدامات کی سفارش کرتا ہے۔

انسداد خواتین مخالف رواج (فوجداری قانون ترمیمی) ایکٹ، 2011۔4

یہ قانون وفاقی اور صوبائی سطح پر لاگو ہوتا ہے۔

۔سندھ خواتین زرعی کارکنان کا ایکٹ، 20195

یہ قانون خواتین زرعی کارکنان کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے بنایا گیا ہے اور مساوی کام کے لیے مساوی اجرت کو یقینی بناتا ہے۔

۔سندھ شاپس اینڈ کمرشل اسٹیبلشمنٹ ایکٹ، 20156

یہ قانون خواتین کے لیے زچگی کی چھٹی اور کام کے اوقات کار سے متعلق احکامات شامل کرتا ہے۔

۔سندھ فیکٹریز ایکٹ، 20157

یہ قانون فیکٹریوں اور دیگر کام کی جگہوں کو خواتین ملازمین کے لیے ایک مشترکہ جگہ مخصوص کرنے اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک مرکز قائم کرنے کا پابند بناتا ہے۔

یہ قوانین سندھ میں خواتین کے حقوق اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

بلوچستان میں خواتین کے تحفظ کے لیے منظور شدہ قوانین

بلوچستان کمیشن برائے خواتین کی حیثیت کا قانون 2017 میں منظور کیا گیا تاکہ بلوچستان کمیشن برائے خواتین کی حیثیت قائم کیا جا سکے۔ یہ قانون بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے 30 اگست 2017 کو منظور کیا اور گورنر بلوچستان نے 8 ستمبر 2017 کو اس کی منظوری دی۔ یہ قانون پورے بلوچستان میں نافذ العمل ہے، سوائے قبائلی علاقوں کے۔

بلوچستان میں خواتین کے تحفظ کے لیے دیگر قابل ذکر قوانین درج ذیل ہیں:

خواتین کو کام کی جگہ پر ہراساں کرنے سے تحفظ کا قانون (2010)

گھریلو تشدد (روک تھام اور تحفظ) قانون (2014)

چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ (2016)

انسداد ہراسانی قوانین (2016)

بلوچستان حکومت نے خواتین کو معاشرے اور ورک فورس میں شامل کرنے کے لیے اقدامات بھی کیے ہیں۔ 2020 میں، صوبائی کابینہ نے بلوچستان جینڈر ایکویلیٹی اینڈ ویمن ایمپاورمنٹ پالیسی 2020-2024 کی منظوری دی۔

Bottom of Form

تشدد کی روک تھام میں درپیش رکاوٹیں

خواتین کے تحفظ کے  قومی، صوبائی اور بین الاقوامی حقوق کے باوجود  خواتین پر تشدد   پہلی، دوسری اور تیسری دنیا  ہر جگہ ہو رہا ہے۔ کم رپورٹنگ، انتقامی کارروائی کے خوف اور انصاف کے نظام پر اعتماد کی کمی،عدالتی کمزوریاں، مقدمات میں تاخیر اور سزا کی کم شرح،ثقافتی مزاحمت، تشدد کو ذاتی معاملہ سمجھنا،  وسائل کی کمیاور معاون خدمات اور آگاہی مہمات کے لیے ناکافی فنڈنگوہ چیدہ چیدہ رکاوٹیں ہیں جو خواتین کو ہر قسم کے تشدد  سے بچانے کےی راہ میں حائل ہیں۔ ۔

پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کیسے کی جا سکتی ہے

پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے درج ذیل اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں

. قانونی اور ادارہ جاتی اصلاحات.۔1

خواتین کے خلاف تشدد کے تمام اقسام (جیسے گھریلو تشدد، جنسی ہراسگی، غیرت کے نام پر قتل) کے خلاف مؤثر قوانین نافذ کیے جائیں اور ان کے اطلاق کو یقینی بنایا جائے۔

خواتین کے تحفظ کے لیے خصوصی عدالتیں اور تیز ترین قانونی کارروائی کے میکانزم بنائے جائیں۔

پولیس اور عدالتی نظام میں صنفی حساسیت پیدا کرنے کے لیے تربیت فراہم کی جائے۔

عوامی آگاہی اور تعلیم.۔2

خواتین کے حقوق اور تشدد کے اثرات کے بارے میں معاشرتی آگاہی مہمات چلائی جائیں۔

تعلیمی اداروں میں صنفی مساوات اور تشدد کی روک تھام پر مبنی نصاب شامل کیا جائے۔

میڈیا کو خواتین کے خلاف تشدد کے خلاف مثبت کردار ادا کرنے کی ترغیب دی جائے۔

معاشرتی اور ثقافتی رویوں میں تبدیلی.۔3

خواتین کے حقوق اور مساوات کے حوالے سے مذہبی رہنماؤں اور کمیونٹی لیڈرز کو شامل کیا جائے تاکہ وہ مثبت رویوں کی ترویج کریں۔

پدرانہ نظام اور صنفی تعصب کو کم کرنے کے لیے اجتماعی کوششیں کی جائیں۔

غیرت کے نام پر تشدد اور جبری شادی جیسی رسومات کو ختم کرنے کے لیے کمیونٹی کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔

. ۔معاشی خودمختاری اور مواقع فراہم کرنا4

خواتین کو معاشی مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ خودمختار ہو سکیں اور تشدد کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔

ہنر مندی کے پروگرامز، چھوٹے قرضے، اور کاروباری مواقع مہیا کیے جائیں۔

خدمات اور تحفظ کے نظام کی فراہمی.۔5

خواتین کے لیے پناہ گاہیں، قانونی معاونت، اور مشاورت کی خدمات فراہم کی جائیں۔

متاثرہ خواتین کے لیے ہیلپ لائنز اور فوری رسپانس کے نظام بنائے جائیں۔

صحت کے مراکز میں تشدد سے متاثرہ خواتین کے علاج اور نفسیاتی مدد کی خدمات فراہم کی جائیں۔

عالمی معاہدات اور قوانین کی پیروی.۔6

پاکستان کو اقوام متحدہ کے خواتین کے حقوق کے معاہدے سیڈا اور دیگر بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے

حکومتی اداروں اور سول سوسائٹی کے درمیان تعاون کو بڑھایا جائے تاکہ عالمی معیار کے مطابق اقدامات کیے جا سکیں۔

تحقیق اور ڈیٹا جمع کرنا.۔7

خواتین کے خلاف تشدد کے حوالے سے درست ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے تحقیقاتی مراکز بنائے جائیں۔

صنفی بنیاد پر تشدد کی وجوہات اور اثرات کو سمجھنے کے لیے مطالعاتی منصوبے شروع کیے جائیں۔

یہ تمام اقدامات اگر جامع طور پر نافذ کیے جائیں تو پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کو کم کیا جا سکتا ہے اور ایک زیادہ محفوظ اور مساوی معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔

مختار جاوید ایک سماجی و ماحولیاتی کارکن

ایگزیکٹو ڈائیریکٹر  واج، ، چئر پرسن فافن

 ایگزیکٹو ممبر  این ایچ این،سن سی ایس اے نیوٹریشن نیٹ ورک پاکستان

،ممبر ، ، سٹارٹ گلوبل نیٹ ورک ر یڈی پاکستان،اور خیبر پختونخواہ فارسٹری راونڈ ٹی

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں