پاراچنار کے حالیہ واقعے نے پاکستان کے کرم ضلع میں فرقہ وارانہ تشدد کو پھر سے بھڑکا دیا ہے۔ یہ افسوسناک واقعہ شعیہ اور سنی برادریوں کے درمیان جاری کشیدگی کا حصہ ہے، جس میں زمین کے تنازعات اور دیگر علاقائی مسائل نے مزید شدت پیدا کی۔ اطلاعات کے مطابق اس جھڑپ میں کم از کم 36 افراد جاں بحق اور 162 زخمی ہوئے ہیں، جبکہ متاثرین میں اکثریت شعیہ برادری کے افراد کی ہے۔
یہ حملے انتہا پسند گروہوں کی جانب سے کیے گئے ہیں، جن میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا بھی نام شامل ہے۔ یہ گروہ کئی دہائیوں سے خطے میں اپنی موجودگی کو مستحکم کرنے کی کوشش میں ہے اور فرقہ وارانہ تشدد کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اس تشدد نے علاقے کی پہلے سے ہی نازک صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے، جہاں حکومتی اقدامات اور جرگہ سسٹم بھی امن قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
پاراچنار کی تاریخی اہمیت اور اس کی جغرافیائی حیثیت بھی اس تنازع کا اہم پہلو ہے، کیوں کہ یہ افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہے اور طویل عرصے سے مختلف گروہوں کے درمیان تنازعات کا مرکز رہا ہے۔ حکومت کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف متاثرہ کمیونٹی کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے بلکہ ان گروہوں کے خلاف بھی کارروائی کی جا سکے جو ان تنازعات کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔
متاثرین کے لواحقین اور علاقائی رہنماؤں کی جانب سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، لیکن حکومتی ردعمل کو سست اور غیر مؤثر قرار دیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس واقعے کو نسل کشی کی ایک شکل قرار دیتے ہوئے عالمی توجہ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اس مسئلے کا حل صرف طاقت کے استعمال سے ممکن نہیں؛ بلکہ یہ ضروری ہے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے، اور عوام کو ایسے پلیٹ فارمز فراہم کیے جائیں جہاں وہ اپنے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کر سکیں۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور ان مسائل کو ختم کرنے کے لیے مستقل بنیادوں پر کام کرے۔ پاراچنار، پاکستان کے قبائلی ضلع کرم کا صدر مقام، اپنی جغرافیائی اہمیت اور تاریخی پس منظر کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہ شہر افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہے اور اپنی شعیہ اکثریتی آبادی کی وجہ سے ہمیشہ تنازعات اور حملوں کا نشانہ رہا ہے۔ پاراچنار طویل عرصے سے فرقہ وارانہ تشدد، شدت پسند گروہوں کے حملوں اور مقامی قبائلی تنازعات کا شکار رہا ہے، جو اسے مسلسل عدم استحکام کا سامنا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
پاراچنار کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ شہر کئی دہائیوں سے مسلح جھڑپوں، زمین کے تنازعات اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا شکار رہا ہے۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں بھی یہاں فرقہ وارانہ حملے دیکھے گئے، اور 2007-2012 کے دوران پاراچنار کو مسلح شدت پسندوں نے محاصرے میں لے لیا تھا، جس کی وجہ سے شعیہ برادری کو خوراک، ادویات اور دیگر بنیادی سہولیات کی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران سینکڑوں لوگ جاں بحق ہوئے اور ہزاروں بے گھر ہوگئے۔
پاراچنار کی موجودہ صورتحال بھی ماضی کی طرح انتہائی نازک ہے۔ حالیہ جھڑپوں میں شدت پسندوں نے شعیہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد جان سے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ یہ حملے صرف فرقہ وارانہ بنیادوں پر نہیں بلکہ پاراچنار کے اسٹریٹجک مقام اور اس کے وسائل پر کنٹرول کے لیے کیے جاتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان اور دیگر شدت پسند گروہوں کی موجودگی نے علاقے کو مزید خطرناک بنا دیا ہے، جہاں یہ گروہ فرقہ واریت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
پاراچنار کے شہریوں نے ہمیشہ پاکستان کے امن اور استحکام کے لیے قربانیاں دی ہیں، لیکن حکومت کی طرف سے ان کی مشکلات کو حل کرنے میں ہمیشہ تاخیر ہوئی ہے۔ مقامی لوگ مسلسل حملوں اور ناکافی حکومتی اقدامات کے باعث عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ حالیہ واقعات نے ایک بار پھر اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ حکومت اور عالمی برادری کو ان مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاراچنار کے عوام کو ایک محفوظ اور پرامن زندگی میسر آ سکے پاراچنار پر دہشت گردوں کے مسلسل حملے صرف ایک اتفاق نہیں بلکہ ایک گہری سازش کی عکاسی کرتے ہیں، جس کے پیچھے فرقہ وارانہ تفریق، جغرافیائی اہمیت اور شدت پسند گروہوں کی خود غرضی پوشیدہ ہے۔ یہ شہر اپنی شعیہ اکثریتی آبادی کی وجہ سے ہمیشہ سے انتہا پسند گروہوں کا نشانہ رہا ہے، جو مذہبی تقسیم کو اپنی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاراچنار کی اسٹریٹجک حیثیت، افغانستان کی سرحد کے قریب ہونے کے باعث، اسے مزید حساس اور تنازعات کا شکار بنا دیتی ہے۔
یہ دہشت گردی، دراصل، ایک ایسی سازش ہے جو نہ صرف مذہبی بنیادوں پر اختلافات کو ہوا دیتی ہے بلکہ خطے میں امن و امان کو تباہ کرنے کا باعث بھی بنتی ہے۔ شدت پسند گروہ جیسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر عسکری تنظیمیں پاراچنار کو نشانہ اس لیے بناتی ہیں کیونکہ یہاں کے لوگ اپنے مذہبی عقائد اور کمیونٹی کے تحفظ کے لیے ہمیشہ سے متحد رہے ہیں۔ ایسے حملوں کے ذریعے دہشت گرد صرف انسانی جانوں کا نقصان نہیں کرتے بلکہ علاقے کی اجتماعی ہمت اور یکجہتی کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ان حملوں کے پیچھے علاقائی طاقتوں کی پراکسی جنگ ہو، جہاں مختلف گروہ اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ پاراچنار کے عوام نے ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہونے کی کوشش کی، لیکن انہیں حکومتی سطح پر وہ حمایت نہیں ملتی جس کی انہیں ضرورت ہے۔
یہ تمام صورتِ حال دل کو چیر دینے والی ہے۔ انسان سوچتا ہے کہ آخر یہ کب رکے گا؟ وہ لوگ جو ان حملوں میں اپنی زندگیوں سے محروم ہو گئے، ان کے خاندانوں پر کیا گزر رہی ہوگی؟
یہ دکھ اور تکلیف بیان کرنے کے لیے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں:
کب تلک یونہی خون بہے گا؟
کب تلک یہ دھرتی چیخے گی؟
کب تلک یہ بچے یتیم ہوں گے؟
کب تلک مائیں بیواؤں کے لباس پہنیں گی؟
ہم سب کو مل کر اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ حکومت اور عوام دونوں کو ایک ہو کر ان ظالموں کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی۔ ہماری دعائیں پاراچنار کے شہداء اور ان کے خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ اللہ ہمیں مزید ایسے واقعات سے محفوظ رکھے۔ خیبر پختونخوا، خصوصاً پاراچنار جیسے علاقے، ہمیشہ سے دہشت گردی اور شدت پسندی کے نشانے پر رہے ہیں۔ اس کے کئی اسباب ہیں، جن میں خطے کی جغرافیائی حیثیت، افغانستان کے ساتھ سرحدی تعلق، اور داخلی و خارجی عوامل شامل ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف مقامی لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کر رہی ہے بلکہ پورے ملک کے امن کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ لیکن کیا اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟ جی ہاں، حل موجود ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد کے لیے حکومت کو سنجیدگی اور مستقل مزاجی کے ساتھ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
سب سے پہلے، حکومت کو خیبر پختونخوا میں سیکورٹی فورسز کی موجودگی کو مضبوط بنانا ہوگا۔ جدید ترین ٹیکنالوجی اور انٹیلیجنس نیٹ ورک کے ذریعے دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ پاراچنار جیسے علاقوں میں مستقل فوجی یا نیم فوجی چوکیاں قائم کی جائیں تاکہ دہشت گردی کے خطرے کو فوری طور پر قابو کیا جا سکے۔
دوسرا اہم قدم مقامی کمیونٹیز کو اعتماد میں لینا اور ان کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے لیے حکومت کو مختلف برادریوں کے درمیان مذاکرات کروانے ہوں گے۔ ایسے فورمز بنائے جائیں جہاں لوگ اپنے مسائل پرامن طریقے سے حل کر سکیں اور شدت پسندوں کو ان تنازعات کا فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔
حکومت کو تعلیمی اصلاحات پر بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ خیبر پختونخوا کے نوجوان، جو اکثر غربت اور بے روزگاری کا شکار ہیں، دہشت گرد گروہوں کے لیے آسان ہدف بن جاتے ہیں۔ معیاری تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرکے انہیں ایک بہتر مستقبل کی جانب راغب کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح، خیبر پختونخوا میں سماجی اور اقتصادی ترقی کے منصوبے متعارف کروائے جائیں۔ بنیادی ڈھانچے، صحت، اور تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ علاقے کے لوگ حکومت پر اعتماد کر سکیں اور انتہا پسندی کے خلاف خود بھی کھڑے ہوں۔
بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں، پاکستان کو افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا ہوگا۔ دونوں ممالک کو دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی، کیونکہ اس مسئلے کا ایک بڑا حصہ سرحد پار سے آتا ہے۔
آخر میں، اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ حکومتی پالیسیز مستقل ہوں اور سیاسی فائدے یا دباؤ کے تحت تبدیل نہ ہوں۔ فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں اور انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ دینے کے بجائے انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے۔
خیبر پختونخوا کے عوام کی مشکلات کو ختم کرنے کے لیے ایک جامع اور مستقل پالیسی کی ضرورت ہے۔ صرف اسی صورت میں ہم اس علاقے کو امن و سکون کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ ہماری زمین پر خونریزی کا سلسلہ ختم ہو اور ہم ایک پرامن اور خوشحال پاکستان کی جانب گامزن ہوں
ڈاکٹر جزبیہ شیریں-چین
پاراچنار کے حالیہ واقعے نے پاکستان کے کرم ضلع میں فرقہ وارانہ تشدد کو پھر سے بھڑکا دیا ہے۔ یہ افسوسناک واقعہ شعیہ اور سنی برادریوں کے درمیان جاری کشیدگی کا حصہ ہے، جس میں زمین کے تنازعات اور دیگر علاقائی مسائل نے مزید شدت پیدا کی۔ اطلاعات کے مطابق اس جھڑپ میں کم از کم 36 افراد جاں بحق اور 162 زخمی ہوئے ہیں، جبکہ متاثرین میں اکثریت شعیہ برادری کے افراد کی ہے۔
یہ حملے انتہا پسند گروہوں کی جانب سے کیے گئے ہیں، جن میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا بھی نام شامل ہے۔ یہ گروہ کئی دہائیوں سے خطے میں اپنی موجودگی کو مستحکم کرنے کی کوشش میں ہے اور فرقہ وارانہ تشدد کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اس تشدد نے علاقے کی پہلے سے ہی نازک صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے، جہاں حکومتی اقدامات اور جرگہ سسٹم بھی امن قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
پاراچنار کی تاریخی اہمیت اور اس کی جغرافیائی حیثیت بھی اس تنازع کا اہم پہلو ہے، کیوں کہ یہ افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہے اور طویل عرصے سے مختلف گروہوں کے درمیان تنازعات کا مرکز رہا ہے۔ حکومت کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف متاثرہ کمیونٹی کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے بلکہ ان گروہوں کے خلاف بھی کارروائی کی جا سکے جو ان تنازعات کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔
متاثرین کے لواحقین اور علاقائی رہنماؤں کی جانب سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، لیکن حکومتی ردعمل کو سست اور غیر مؤثر قرار دیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس واقعے کو نسل کشی کی ایک شکل قرار دیتے ہوئے عالمی توجہ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اس مسئلے کا حل صرف طاقت کے استعمال سے ممکن نہیں؛ بلکہ یہ ضروری ہے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے، اور عوام کو ایسے پلیٹ فارمز فراہم کیے جائیں جہاں وہ اپنے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کر سکیں۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور ان مسائل کو ختم کرنے کے لیے مستقل بنیادوں پر کام کرے۔ پاراچنار، پاکستان کے قبائلی ضلع کرم کا صدر مقام، اپنی جغرافیائی اہمیت اور تاریخی پس منظر کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہ شہر افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہے اور اپنی شعیہ اکثریتی آبادی کی وجہ سے ہمیشہ تنازعات اور حملوں کا نشانہ رہا ہے۔ پاراچنار طویل عرصے سے فرقہ وارانہ تشدد، شدت پسند گروہوں کے حملوں اور مقامی قبائلی تنازعات کا شکار رہا ہے، جو اسے مسلسل عدم استحکام کا سامنا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
پاراچنار کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ شہر کئی دہائیوں سے مسلح جھڑپوں، زمین کے تنازعات اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا شکار رہا ہے۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں بھی یہاں فرقہ وارانہ حملے دیکھے گئے، اور 2007-2012 کے دوران پاراچنار کو مسلح شدت پسندوں نے محاصرے میں لے لیا تھا، جس کی وجہ سے شعیہ برادری کو خوراک، ادویات اور دیگر بنیادی سہولیات کی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران سینکڑوں لوگ جاں بحق ہوئے اور ہزاروں بے گھر ہوگئے۔
پاراچنار کی موجودہ صورتحال بھی ماضی کی طرح انتہائی نازک ہے۔ حالیہ جھڑپوں میں شدت پسندوں نے شعیہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد جان سے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ یہ حملے صرف فرقہ وارانہ بنیادوں پر نہیں بلکہ پاراچنار کے اسٹریٹجک مقام اور اس کے وسائل پر کنٹرول کے لیے کیے جاتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان اور دیگر شدت پسند گروہوں کی موجودگی نے علاقے کو مزید خطرناک بنا دیا ہے، جہاں یہ گروہ فرقہ واریت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
پاراچنار کے شہریوں نے ہمیشہ پاکستان کے امن اور استحکام کے لیے قربانیاں دی ہیں، لیکن حکومت کی طرف سے ان کی مشکلات کو حل کرنے میں ہمیشہ تاخیر ہوئی ہے۔ مقامی لوگ مسلسل حملوں اور ناکافی حکومتی اقدامات کے باعث عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ حالیہ واقعات نے ایک بار پھر اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ حکومت اور عالمی برادری کو ان مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاراچنار کے عوام کو ایک محفوظ اور پرامن زندگی میسر آ سکے پاراچنار پر دہشت گردوں کے مسلسل حملے صرف ایک اتفاق نہیں بلکہ ایک گہری سازش کی عکاسی کرتے ہیں، جس کے پیچھے فرقہ وارانہ تفریق، جغرافیائی اہمیت اور شدت پسند گروہوں کی خود غرضی پوشیدہ ہے۔ یہ شہر اپنی شعیہ اکثریتی آبادی کی وجہ سے ہمیشہ سے انتہا پسند گروہوں کا نشانہ رہا ہے، جو مذہبی تقسیم کو اپنی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاراچنار کی اسٹریٹجک حیثیت، افغانستان کی سرحد کے قریب ہونے کے باعث، اسے مزید حساس اور تنازعات کا شکار بنا دیتی ہے۔
یہ دہشت گردی، دراصل، ایک ایسی سازش ہے جو نہ صرف مذہبی بنیادوں پر اختلافات کو ہوا دیتی ہے بلکہ خطے میں امن و امان کو تباہ کرنے کا باعث بھی بنتی ہے۔ شدت پسند گروہ جیسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر عسکری تنظیمیں پاراچنار کو نشانہ اس لیے بناتی ہیں کیونکہ یہاں کے لوگ اپنے مذہبی عقائد اور کمیونٹی کے تحفظ کے لیے ہمیشہ سے متحد رہے ہیں۔ ایسے حملوں کے ذریعے دہشت گرد صرف انسانی جانوں کا نقصان نہیں کرتے بلکہ علاقے کی اجتماعی ہمت اور یکجہتی کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ان حملوں کے پیچھے علاقائی طاقتوں کی پراکسی جنگ ہو، جہاں مختلف گروہ اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ پاراچنار کے عوام نے ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہونے کی کوشش کی، لیکن انہیں حکومتی سطح پر وہ حمایت نہیں ملتی جس کی انہیں ضرورت ہے۔
یہ تمام صورتِ حال دل کو چیر دینے والی ہے۔ انسان سوچتا ہے کہ آخر یہ کب رکے گا؟ وہ لوگ جو ان حملوں میں اپنی زندگیوں سے محروم ہو گئے، ان کے خاندانوں پر کیا گزر رہی ہوگی؟
یہ دکھ اور تکلیف بیان کرنے کے لیے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں:
کب تلک یونہی خون بہے گا؟
کب تلک یہ دھرتی چیخے گی؟
کب تلک یہ بچے یتیم ہوں گے؟
کب تلک مائیں بیواؤں کے لباس پہنیں گی؟
ہم سب کو مل کر اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ حکومت اور عوام دونوں کو ایک ہو کر ان ظالموں کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی۔ ہماری دعائیں پاراچنار کے شہداء اور ان کے خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ اللہ ہمیں مزید ایسے واقعات سے محفوظ رکھے۔ خیبر پختونخوا، خصوصاً پاراچنار جیسے علاقے، ہمیشہ سے دہشت گردی اور شدت پسندی کے نشانے پر رہے ہیں۔ اس کے کئی اسباب ہیں، جن میں خطے کی جغرافیائی حیثیت، افغانستان کے ساتھ سرحدی تعلق، اور داخلی و خارجی عوامل شامل ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف مقامی لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کر رہی ہے بلکہ پورے ملک کے امن کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ لیکن کیا اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟ جی ہاں، حل موجود ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد کے لیے حکومت کو سنجیدگی اور مستقل مزاجی کے ساتھ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
سب سے پہلے، حکومت کو خیبر پختونخوا میں سیکورٹی فورسز کی موجودگی کو مضبوط بنانا ہوگا۔ جدید ترین ٹیکنالوجی اور انٹیلیجنس نیٹ ورک کے ذریعے دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ پاراچنار جیسے علاقوں میں مستقل فوجی یا نیم فوجی چوکیاں قائم کی جائیں تاکہ دہشت گردی کے خطرے کو فوری طور پر قابو کیا جا سکے۔
دوسرا اہم قدم مقامی کمیونٹیز کو اعتماد میں لینا اور ان کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے لیے حکومت کو مختلف برادریوں کے درمیان مذاکرات کروانے ہوں گے۔ ایسے فورمز بنائے جائیں جہاں لوگ اپنے مسائل پرامن طریقے سے حل کر سکیں اور شدت پسندوں کو ان تنازعات کا فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔
حکومت کو تعلیمی اصلاحات پر بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ خیبر پختونخوا کے نوجوان، جو اکثر غربت اور بے روزگاری کا شکار ہیں، دہشت گرد گروہوں کے لیے آسان ہدف بن جاتے ہیں۔ معیاری تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرکے انہیں ایک بہتر مستقبل کی جانب راغب کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح، خیبر پختونخوا میں سماجی اور اقتصادی ترقی کے منصوبے متعارف کروائے جائیں۔ بنیادی ڈھانچے، صحت، اور تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ علاقے کے لوگ حکومت پر اعتماد کر سکیں اور انتہا پسندی کے خلاف خود بھی کھڑے ہوں۔
بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں، پاکستان کو افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا ہوگا۔ دونوں ممالک کو دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی، کیونکہ اس مسئلے کا ایک بڑا حصہ سرحد پار سے آتا ہے۔
آخر میں، اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ حکومتی پالیسیز مستقل ہوں اور سیاسی فائدے یا دباؤ کے تحت تبدیل نہ ہوں۔ فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں اور انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ دینے کے بجائے انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے۔
خیبر پختونخوا کے عوام کی مشکلات کو ختم کرنے کے لیے ایک جامع اور مستقل پالیسی کی ضرورت ہے۔ صرف اسی صورت میں ہم اس علاقے کو امن و سکون کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ ہماری زمین پر خونریزی کا سلسلہ ختم ہو اور ہم ایک پرامن اور خوشحال پاکستان کی جانب گامزن ہوں