Skip to content

پاکستان میں غربت کو کیوں گلوریفائی کیا جاتا ہے؟

شیئر

شیئر

ہلال شاہ

کسی بھی معاشرے میں برائ کی جڑ غربت ہوتی ہے جس سے مختلف جرائم جنم لیتے ہیں اور اس کے علاوہ ناجائز مال دولت بنانے کے طریقے بھی عام ہو جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں غربت کو گلوریفائ کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہیکہ اس کی عظمت کو بیان کیا جاتا ہے جس میں مذہبی رہنماؤں اور حکمرانوں کا بڑا کردار رہا ہے۔

‎پاکستان میں سڑکوں پر ناچتی غربت دیکھ کر انسان کا دل خون کے آنسووں روتا ہے کیونکہ زیادہ تر لوگ غربت کے مارے ادھر ادھر کے دھکے کھاتے ہیں ۔ کھانے کا بندوبست مشکل سے ہوتا ہے اور ہسپتال کا تو بالکل ہوتا نہیں مگر ہم غربت کے فضائل سنتے رہتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہم غریب صرف اس کو سمجھتے ہیں جو سڑکوں پر راتیں گزارتے ہیں یا بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں لیکن اس کے بغیر وہ سفید پوش لوگ بھی غریب ہیں جن کی تنخواہیں اخراجات سے کم ہیں جو ہر خوشی کے موقع پر اپنے بچوں کی ہر خواہش کا گلا گھونٹتے ہیں۔ اس میں بے روزگار نوجوان شامل ہیں جن کی سیکھنے کی عمر نام نہاد تعلیمی اداروں نے ضائع کردی اور آج نہ ان کے پاس تعلیمی قابلیت ہے اور نہ دال روٹی کمانے کیلئے کوئ ہنر جس کی وجہ سے زیادہ نوجوان ڈپریشن کے شکار ہیں۔

رمضان کا مہینہ اچھا ہوتا ہے جس میں ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ ملک میں یا ہمارے آس پاس غربت کتنی ہے مگر افسوس کے ساتھ غربت کا احساس نہیں ہوتا۔ جیسا کہ رمضان میں غریبوں کے ساتھ مالی مدد کرتے ہیں، راشن بھجواتے ہیں، عید کیلئے کپڑوں کا بندوبست کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ مگر یہ ہم نہیں سوچتے کہ میرے ایک دن کی مدد سے اس شخص کا صرف ایک دن آسانی کے ساتھ گزر جائگا باقی دن کیا کرے گا اور رمضان کے بعد کون مدد کرنے کون آئگا اور ان حالات میں جو لوگ وسائل قابض ہیں وہ کہتے ہیں غربت اللہ کی طرف سے آزمائش ہے، غریب جنت میں پہلے جائگا اور غریب کے ساتھ کوئ حساب نہیں ہوگا مگر اپنی ایک دن آسائش چھوڑنے کو تیار نہیں۔

میں جب کسی ادارے ، این۔جی۔او یا کسی فرد سے یہ سنتا ہوں کی ہم نے اتنے غریبوں کی مدد کی تو پریشان ہوجاتا ہوں کہ ایک دن افطار، کھانے، یا کپڑوں کا بندوبست تو ہوگیا مگر ان کے گھر میں بیماری سے کیا قیامت ٹوٹتی ہوگی، بچوں کو تعلیم کیسے دلواتے ہونگے، روزمرہ اخراجات کیسے پورے کرتے ہونگے۔ کیا ان کے بچے پڑھنے اور کھیلنے کا حق نہیں رکھتے ویسے اچھی تعلیم یہاں کچھ لوگوں کے پاس ہی ہے باقی ہم سب بابوگری کرنے کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔ غریب کے بچوں کو جن سکولوں میں تعلیم میسر ہے وہ تعلیمی ادارے نہیں بلکہ ایک ذہنی انتہاپسندی کی اماجگاہیں ہیں جہاں ہر ایک بندہ استاد کی شکل میں اپنے بوسیدہ نظریات ٹھونستا رہتا ہے اور تعلیم کے بجائے اخلاقیات پر زور دیتا ہے اور وہ اخلاقیات کے نام پر بہتر غلام بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔

اس غربت کو صرف غریبوں کیلئے گلوریفائ نہیں کیا جاتا بلکہ ہر مکتبہ فکر کیلئے کیا جاتا ہے جیسا کہ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے بڑی فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے اتنے غریبوں کی مدد کی مگر ان غریبوں کو بہتر زندگی کی کوئ بات نہیں کرتا ، نوجوان غریبوں کی مدد کے بدلے روزگار اور اچھی زندگی کی دعائیں مانگتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ ایک دن کی مدد سے کوئ غربت کم نہیں ہوگی مگر اصل غربت کے خاتمے اور ان غریبوں کی حقوق کیلئے عملی اقدامات نہیں اٹھاتے۔ اس طرح سڑکوں پر بھیک مانگنے والے ان لوگوں کی نفسیات سے کھیلتے ہیں جن کی دلوں میں بڑی تمنائ ہوتی ہیں اور وہ اس کی غیبی مدد چاہتے ہیں اس کی تکمیل کیلئے ان کو دس روپے پکڑا دیتے ہیں اور دعاؤں کی اپیل کرتے ہیں اور دل میں سوچتے ہیں کہ غریبوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں مگر یہ نہیں سوچتا کہ ان بچوں کو تعلیم و روزگار کون دیگا اور اگر آج ہم نے نہیں دیا تو کل کو خدانخواستہ جب یہ جرائم میں ملوث ہونگے اور پورے معاشرے کیلئے سردرد بنینگے تو پھر کون ذمہ دار ہوگا۔

سیاستدان اور مولوی تو غربت کو ایسا بیان کرتے ہیں جیسے غربت کوئ نعمت ہو جس کے بدلے جنت ملی گی ، آسانی ہوگی اور سیاستدان ایسے بیانات کرتے ہیں جیسے اس دنیا میں سب کچھ غریبوں کیلئے ہیں غربت کے خاتمے کیلئے ووٹ مانگتے مگر ختم کرنے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ پھر کون بے وقوف بنے گا۔ اس کے علاوہ وسائل پر قابض لوگ مفت دسترخوان، نظرانہ، فطرانہ دینے کی وجہ سے اپنے آپ کی بری الضمہ سمجھتے ہیں کہ اس چھوٹی موٹی خیراتوں کی وجہ سے بچ گئے اور باقی وسائل پر قابض رہینگے۔ اپنے کمپنیوں سارا سال مزدوروں کا استحصال کرینگے ، کم اجرت پر کم عمر بچوں کو نوکر رکھینگے، اپنے بچوں کو سکول میں داخل کروائینگے اور غریب کے بچے کو اپنے گھر سبزی لانے کیلئے رکھینگے مگر یہ لوگ بھی پھر کہتے ہیں ہم نے اتنے افطار ڈنر کروائے، اتنے پیسے غریبوں میں بانٹے ، اتنے مفت دسترخوان لگوائے مگر ان کے اصل حقوق دینے کیلئے رضامند نہیں ہے۔

ہمین غربت کو گلوریفائ کرنے کے بجائے اس کے خاتمے کیلئے کام کرنا چاہئے، سب کو ایک جیسی تعلیمی سہولیات دینی چاہئے، اس کے علاوہ نوجوانوں کو ایسے ہنر سکھانے چاہئے کہ وہ اپنے اپنے بل بوتے پر غربت کا خاتمہ کرسکیں۔

ہلال حسین شاہ ضلع مانسہرہ میں ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر ہیں،ہلال نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے پبلک پالیسی گریجویٹ ہیں،یو این والنٹیر رہ چکے ہیں اور ملازمت کے ساتھ سوشل ایکٹوسٹ بھی ہیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں