عمرخان جوزوی
پی ٹی آئی کی بدقسمتی یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت اورپارٹی ہونے کے باوجود اس میں کوئی سیاستدان نہیں۔کپتان ہے یاکھلاڑی۔نہ صرف یہ سب خودٹی ٹوئنٹی کے پلیئرزہیں بلکہ یہ اپنی طرح سیاست کوبھی ٹی ٹوئنٹی کاکوئی کھیل یامیچ سمجھ رہے ہیں جبکہ سیاست یہ توٹیسٹ میچ سے بھی آگے کی کوئی شے ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ سیاست صبر،تحمل؎،اکرام،برداشت اورعقل کانام ہے۔جن میں صبر،برداشت،اکرام اورعقل نہیں وہ سیاست سے دوررہیں توزیادہ بہترہے۔کہنے کے لئے توکپتان اورکھلاڑی اپنے آپ کوعقل کل سمجھتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اس قبیل کاعقل کی وادی سے کبھی گزرہی نہیں ہوا۔یہ عقل کے قریب سے بھی گزرتے توآج ان کایہ حال نہ ہوتا۔یہ توسمجھتے ہیں کہ سیاست کہیں ماردھاڑ،جلاؤگھیراؤ،جلسے جلوس،احتجاج اوردھرنوں کانام ہے لیکن حقیقت میں ایسانہیں۔ماناکہ یہ جلسے،جلوس،احتجاج،مظاہرے اوردھرنے سیاست کاہی حصہ ہیں پراصل سیاست وہ ہے جس کاعملی مظاہرہ مولانافضل الرحمن نے ان کھلاڑیوں کے سامنے کیا۔پی ٹی آئی کے پاس مولاناسے ایک دونہیں کئی گنازیادہ سیٹیں ہیں پھربھی چندسیٹوں کے بل بوتے پرمولانانے ن لیگ اورپیپلزپارٹی کے ساتھ کپتان کے عظیم کھلاڑیوں کوبھی اپنے آستانے کے چکروں پرچکرلگوائے۔ اسی کوسیاست کہتے ہیں۔مولانابھی اگرکھلاڑیوں جیسامنہ بناکرسیاست شروع کرتے توآج مولاناکاانجام بھی پھرکھلاڑیوں جیساہی ہوتالیکن مولانانے ایک حقیقی سیاستدان کاکرداراداکرکے نہ صرف ملک کوممکنہ سیاسی بحران سے بچایابلکہ میدان سیاست میں اپناشملہ بھی اونچاکردیا۔مولانابھی اگرمیں نہ مانوں کی رٹ لگاتے توکیااتنی عزت پاتے۔؟ہرجگہ میں نہ مانوں کاواویلاٹھیک نہیں ہوتا۔بعض نہیں بلکہ اکثرجگہوں پرملک وقوم کے اجتماعی مفادمیں پھر کچھ ماننابھی پڑتاہے۔کیااس ملک کی سیاست میں دوبارسابق وزیراعظم رہنے والے میاں نوازشریف کے ساتھ کچھ کم بے انصافیاں اورزیادتیاں ہوئیں۔؟محض ایک اقامے اوربیٹے سے تنخواہ نہ لینے پرآپ ایک منتخب وزیراعظم کوکرسی سے ہٹاکراسے محرم سے مجرم بنادیں اس سے بڑی بے انصافی اورکیا ہوگی۔؟پھراسی وزیراعظم کوبیٹی کے سامنے آپ ہتھکڑیاں لگاکرجیل میں بندکردیں اس سے آگے کوئی ظلم ہوگا۔؟عمران خان کے خلاف توباقاعدہ تحریک عدم اعتمادآئی اوراس عدم اعتمادکے ذریعے اس کووزارت عظمیٰ سے ہٹایاگیالیکن میاں نوازشریف کوتوفقط ایک فیصلے پرگھربھیجاگیا۔کپتان کے کھلاڑی آج کپتان کی جس قیدپرآنسوبہاکرقصے اورکہانیاں سنارہے ہیں میاں نوازشریف اس قیدتنہائی سے ایک نہیں باربارگزرے ہیں۔نوازشریف،آصف علی زرداری،شہبازشریف سمیت کس سیاستدان اورلیڈرکوجیل میں نہیں ڈالاگیا۔؟کپتان اورکھلاڑیوں کے دورمیں توتقریباتمام سیاسی مخالفین کوجیلوں اورسلاخوں کی سیرکرائی گئی لیکن جیل میں جانے اورسلاخوں کے پیچھے شب وروزگزارنے کے بعدکیاکسی لیڈراورسیاستدان نے صبرکادامن ہاتھ سے چھوڑا۔؟نہیں ہرایک نے صبراوربرداشت سے حالات کامقابلہ کیا۔جس طرح یہ سب آج باہرہیں اسی طرح کل کپتان اورکھلاڑی بھی باہرہوں گے۔یہ جیل اورہتھکڑیاں تولیڈروں اورسیاستدانوں کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔لیڈراورسیاستدان کواپنی اوقات نہیں بھولنی چاہئیے۔جولوگ قافلے سے الگ اوراوقات سے باہرہوجاتے ہیں ان کاپھرکوئی نہیں ہوتا۔آئینی ترامیم کے موقع پراگرمولانافضل الرحمن کھلاڑیوں کوگلے نہ لگاتے تواب یہ پتھروں اوردیواروں سے ٹکریں مارمارکرپاگل ہوجاتے۔یہ تومولاناکابڑاپن تھاکہ فضلو،ڈیزل اوربارہویں کھلاڑی جیسے القابات کے باوجوداس نے کھلاڑیوں کے سروں پردست شفقت رکھا۔وہ بھی اگرانہیں ایسے القابات سے نوازکردھتکارتے توپھران کاکیاہوتا۔؟اس لئے سیاست میں کوئی حرف حرف آخرنہیں ہوتا۔مخالف لیڈراورسیاستدان چاہے وہ کسی بھی جماعت اورپارٹی کے ہوں وہ قابل عزت اورقابل احترام ہوتے ہیں۔سیاسی اختلافات اورپارٹی مفادات اپنی جگہ لیکن سب کوایک دوسرے کااحترام کرناچاہئیے کل کوپھرانہی لیڈروں اورسیاستدانوں کی ایک دوسرے سے آنکھیں لگنی ہیں۔کپتان کے کھلاڑیوں کامسئلہ یہ ہے کہ وقت اورمشکل آنے پریہ پتھرکوبھی مائی باپ کہتے ہیں لیکن وقت نکلنے اورمشکل گزرنے کے بعدیہ پھراسی مائی باپ کوبرابھلاکہہ کرآنکھیں دکھاناشروع کردیتے ہیں۔آئینی ترامیم سے پہلے کپتان کے کھلاڑیوں نے مولانافضل الرحمن کوحضرت،مولانااورجوصاحب کہناشروع کیاتھاآئینی ترامیم کے بعداب وہی کھلاڑی مولاناکے لئے ایک بارپھربرے القابات استعمال کرنے لگے ہیں۔کل تک جومولاناان کی آنکھوں کاتارابن گئے تھے آج وہی مولاناایک بارپھران کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح جھپکنے لگے ہیں۔میاں نوازشریف،آصف زرداری،شہبازشریف،مریم نواز،بلاول بھٹواورمولاناسمیت کوئی بھی مخالف سیاستدان اورلیڈرکپتان کے ان کھلاڑیوں سے محفوظ نہیں۔نجی محفلوں،سیاسی بحث و مباحثوں اورسوشل میڈیاپرمخالف سیاستدانوں کوگالیاں دینااوربرابھلاکہناکپتان کے یہ کھلاڑی ثواب سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک سیاست گالی سے شروع ہوکرگالی پرختم ہوتی ہے۔شرافت،صبر،برداشت اورمفاہمت کویہ کل بھی گناہ سمجھتے تھے اورلگتاہے کہ آج بھی یہ اسے گناہ ہی سمجھ رہے ہیں تب ہی تویہ شیخ چلی جیسے خواب دیکھنے اورڈائیلاگ مارنے سے بازنہیں آرہے۔اس مخلوق کی خدمت میں بس اتنی سی گزارش ہے کہ دل میں اگرملک کی ترقی اورقوم کی خوشحالی کاتھوڑاسابھی جذبہ ہوتوپھرمولاناکی طرح بندکمرے میں بیٹھ کرپانچ دس سیٹوں کے ذریعے بھی عوام کے دل جیتے جاسکتے ہیں نہیں توپھرڈی چوک کیا۔۔؟سی چوک میں بھی دھرنے دینے اورتمام لیڈروں کوگالیاں دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اوراس حقیقت کاان کوبھی بخوبی علم اوراندازہ ہے کیونکہ چھ سات سال گریبان کھول کرانہوں نے ہرسیاسی مخالف کونہ صرف کھل کرگالیاں دیں اوربرابھلاکہابلکہ اسے دیوارکے ساتھ لگانے میں بھی کوئی کسرنہیں چھوڑی لیکن اس کے باوجودان کے ہاتھ میں کیاآیا۔؟ایوان میں بھاری نشستوں اورمضبوط سیاسی قوت کے ہوتے ہوئے بھی یہ اپنے ایک کپتان کوباہرنہ نکال سکیں۔ایسی سیاست کاکیافائدہ۔؟جس کی وجہ سے ملک وقوم کیاخودکپتان اورکھلاڑیوں کوبھی چین اورسکون نہ ہو۔