محمد معروف صدیقی
کراچی کی سڑکوں پر رات کا اندھیرا چھا چکا ہے۔ ضیاء الحق اپنی پرانی بائیک پر روزانہ کی طرح سوار ہے۔ وہ ایک غریب مگر محنتی طالب علم ہے، جو دن میں علم حاصل کرتا ہے اور رات کو بائیکیا چلا کر اپنے اور بیمار والدہ کے اخراجات پورے کرتا ہے۔ اُس کے پاس بس ایک ہی سہارا ہے—علم کی پیاس، جسے بجھانے کے لیے وہ اپنی نیند اور آرام قربان کرتا ہے۔
صبح جب وہ مدرسے پہنچتا ہے، تو تھکاوٹ اس کے چہرے پر نمایاں ہوتی ہے۔ وہ جلدی میں اپنا عمامہ باندھنا بھول جاتا ہے، حالانکہ یہ اس کا معمول کا عمل ہے۔ جیسے ہی کلاس شروع ہوتی ہے، استاد انور شاہ کی نظر اس پر پڑتی ہے۔ انور شاہ، جو کہ مرحوم مفتی زر ولی خان صاحب مرحوم کے صاحبزادے ہیں، ضیاء الحق کو دیکھتے ہی غصے میں آ جاتے ہیں۔ اُن کے لیے یہ چھوٹی سی بھول کسی بڑے جرم سے کم نہیں۔
استاد، بغیر کچھ سمجھے، سخت لہجے میں حکم دیتے ہیں کہ ضیاء الحق کو سزا دی جائے۔ ضیاء کو سمجھ نہیں آتا کہ عمامہ نہ پہننے پر اتنا شدید ردعمل کیوں دیا جا رہا ہے، لیکن وہ کچھ کہنے کی ہمت نہیں کرتا۔ جلاد بلایا جاتا ہے، اور اس کے ہاتھ میں ایک موٹا ڈنڈا ہے۔ ضیاء الحق کی آنکھوں میں خوف تیرنے لگتا ہے، مگر وہ اپنے آپ کو خاموشی سے استاد کے حکم کے تابع کر لیتا ہے۔
پہلا ڈنڈا جب اس کی کمر پر پڑتا ہے، تو درد کی شدت سے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔ وہ چیختا نہیں، لیکن اس کا دل اندر ہی اندر ٹوٹ جاتا ہے۔ جلاد ایک کے بعد ایک ڈنڈے مارتا جاتا ہے، اور ضیاء کی تکلیف بڑھتی جاتی ہے۔ استاد اسے مزید ذلت آمیز الفاظ سے نوازتے ہیں، "گستاخ”، "بے غیرت”، وہ الفاظ جو اس کے دل میں چھری کی طرح پیوست ہو جاتے ہیں۔ ضیاء اس حالت میں بھی ادب کا دامن تھامے رکھتا ہے اور استاد سے معافی مانگنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن استاد کی سختی ختم نہیں ہوتی۔
آخرکار، وہ زخموں سے چور مدرسے سے باہر نکلتا ہے۔ اس کی جسمانی تکلیف تو وقت کے ساتھ ختم ہو جائے گی، لیکن اس کے دل کی شکستگی شاید کبھی نہ بھر سکے۔ وہ ایک ایسا طالب علم ہے جس نے اپنی زندگی کے خواب علم کی روشنی میں دیکھے تھے، لیکن آج اس پر اندھیروں کا بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔
استاد کا منصب محض تعلیم دینا نہیں ہوتا، بلکہ وہ طلباء کے لیے ایک نمونہ اور رہنما ہوتا ہے۔ ایک استاد کا فرض ہے کہ وہ شفقت، تحمل، اور محبت سے اپنے طلباء کی تربیت کرے۔ سختی اور تشدد سے طلباء کے دلوں کو توڑا جا سکتا ہے، لیکن محبت اور حکمت سے انہیں بلند کیا جا سکتا ہے۔ استاد کا کردار اس قدر بلند ہونا چاہیے کہ وہ علم کے ساتھ ساتھ اخلاق کا بھی درس دے، اور ان کے لیے پناہ گاہ بنے، جہاں وہ اپنی غلطیوں سے سیکھ سکیں، نہ کہ ذلیل ہوں۔
ایک استاد کو علم کے ساتھ ساتھ انصاف، ہمدردی اور دل کی نرمی کی مثال بننا چاہیے۔ علم کا حقیقی مقصد صرف ذہن کو روشن کرنا نہیں، بلکہ دل کو بھی روشنی دینا ہے۔ اگر استاد سختی اور توہین سے کام لیں تو وہ علم کے بجائے نفرت اور مایوسی کو فروغ دیتے ہیں۔
کراچی کے اہل علم اور دانشوروں کو اس واقعے پر فوری اور سنجیدہ نوٹس لینا چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسا کوئی افسوسناک واقعہ دوبارہ پیش نہ آئے۔ استاد کا مقام بے شک بلند ہے، لیکن وہ بھی اخلاقیات اور حکمت کے دائرے میں رہ کر طلباء کی تربیت کا پابند ہے۔ ایسے واقعات نہ صرف علم کے تقدس کو پامال کرتے ہیں بلکہ طلباء کے دلوں میں خوف اور نفرت کو جنم دیتے ہیں۔ ضروری ہے کہ علمی حلقوں میں اس واقعے پر بحث کی جائے اور تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے کردار اور رویوں کی اخلاقی نگرانی کو مزید مضبوط بنایا جائے۔ اساتذہ کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ ان کا رویہ طلباء کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔
علمی ادارے قوم کے مستقبل کے معمار تیار کرتے ہیں، اور اگر ان معماروں کو توہین اور تشدد کا سامنا کرنا پڑے تو یہ ہمارے معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے فوری اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ اساتذہ علم کے ساتھ ساتھ شفقت، حلم، اور تربیت کی بہترین مثال بنیں۔