پاکستان کی جمہوری تاریخ میں مقامی حکومتوں کا کردار ہمیشہ متنازعہ اور ثانوی رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کا مقامی حکومتوں کو تقویت دینے میں عدم دلچسپی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں عوامی فلاح و بہبود اور ترقیاتی منصوبے سیاست کے اہم ستون ہیں، وہاں مقامی حکومتوں کو مستحکم کرنے کے بجائے، سیاسی جماعتیں اور منتخب نمائندے ہمیشہ اپنے حلقہ انتخاب کے ترقیاتی کاموں پر اپنا کنٹرول قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال کے پیچھے کئی تاریخی، سیاسی، اور قانونی عوامل کارفرما ہیں، جنہیں سمجھنا پاکستان میں جمہوریت کے استحکام اور ترقی کے لیے نہایت اہم ہے۔
: تاریخی پس منظر: مقامی حکومتیں اور غیر جمہوری حکومتیں
پاکستان میں مقامی حکومتوں کا نظام زیادہ تر غیر جمہوری دور میں ابھرا ہے۔ ایوب خان کا ‘بنیادی جمہوریتوں’ کا نظام ہو یا جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں نافذ کردہ لوکل گورنمنٹ سسٹمز، یہ نظام زیادہ تر فوجی حکومتوں نے متعارف کروائے۔ غیر جمہوری حکمرانوں کے مقامی حکومتوں پر انحصار کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے مقامی نمائندوں کو طاقتور بناتے تھے تاکہ مرکزی سیاسی جماعتوں کے اثر و رسوخ کو کم کیا جا سکے اور اپنی حکومت کو مقامی سطح پر قانونی جواز فراہم کیا جا سکے۔
ایسے نظام میں سیاسی جماعتوں کو شامل نہیں کیا گیا یا انہیں کمزور کیا گیا تاکہ ان کی جڑیں مقامی سطح پر مضبوط نہ ہو سکیں۔ جب بھی کوئی جمہوری حکومت اقتدار میں آئی، اس نے ان مقامی حکومتوں کو یا تو ختم کر دیا یا ان کے اختیارات کو محدود کر دیا اور پھر ایک دور میں ایک سیاسی جماعت نے مقامی انتخابات ہارنے کے بعد اپنے بنائے ہئوے سسٹم کو معطل کر کے اختیارات نچلی سطح سے اوپر تک افسر شاہی کے حوالے کر دیئے ۔ اس طرح کا کام غیر جمہوری ادوار میں بھنی نہیں دیکھا گیا۔ ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقامی حکومتیں زیادہ تر غیر جمہوری ادوار میں فعال رہیں جبکہ جمہوری ادوار میں انہیں کمزور کیا گیا یا نظر انداز کیا گیا۔
سیاسی جماعتوں کا مرکزیت پر انحصار
پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں جیسے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) مقامی حکومتوں کو مضبوط بنانے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔ ان جماعتوں کی ترجیح ہمیشہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر رہی ہے جہاں زیادہ وسائل اور ترقیاتی فنڈز دستیاب ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں مقامی حکومتوں کو اقتدار دینے کے بجائے خود ان وسائل اور فنڈز کا کنٹرول برقرار رکھنا چاہتی ہیں تاکہ اپنے حلقہ انتخاب میں ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے ووٹروں کی حمایت حاصل کر سکیں۔
مثال کے طور پر، جب بھی کوئی منتخب نمائندہ کسی ترقیاتی منصوبے کا آغاز کرتا ہے، وہ اس کا کریڈٹ لیتا ہے اور اس کے ذریعے اپنی سیاسی حیثیت کو مضبوط کرتا ہے۔ اگر یہ اختیارات مقامی حکومتوں کے پاس ہوں تو یہ منتخب نمائندے اس قسم کے پروجیکٹس کا کنٹرول کھو سکتے ہیں، جس سے ان کی سیاسی ساکھ اور حمایت میں کمی آ سکتی ہے، مگر وہ اپنے اصل کام یعنی قانون سازی کے مدار میں داخل ہو سکتے ہیں جہاں ان کی دلچپسی نہ ہنوے کے برابر رہی ہے۔
قانون سازی اور مقامی حکومتوں کے اختیارات کا مسئلہ
پاکستان میں مقامی حکومتوں کی تشکیل اور ان کے اختیارات کا مسئلہ ہمیشہ ایک قانونی بحث کا حصہ رہا ہے۔ آئینِ پاکستان کی شق 140کے تحت مقامی حکومتوں کو خودمختار ہونا چاہیے اور ان کو سیاسی، انتظامی، اور مالیاتی اختیارات دیے جانے چاہئیںلیکن عملی طور پر صوبائی حکومتیں، جو کہ زیادہ تر سیاسی جماعتوں کے زیر اثر ہوتی ہیں، ان اختیارات کو مکمل طور پر منتقل کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔
ہر جمہوری دور میں، سیاسی جماعتیں مقامی حکومتوں کے انتخابات میں تاخیر کرتی رہی ہیں یا ان کی قانونی حیثیت کو کمزور کرنے کے لیے ترامیم کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ جب سپریم کورٹ یا عدالت عالیہ نے مقامی حکومتوں کے انتخابات کروانے کا حکم دیا، تو سیاسی جماعتوں نے ان کو نظر انداز کیا یا انتخابات کو التوا میں ڈال دیا۔یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاسی جماعتیں مقامی حکومتوں کو اختیارات دینے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ یہ ان کے اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو کم کر سکتا ہے۔ اگر مقامی حکومتیں مضبوط ہوں گی تو منتخب نمائندے ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ نہیں لے سکیں گے، جو کہ پاکستانی سیاست کا ایک اہم عنصر ہے۔
:ترقیاتی فنڈز کی سیاست
پاکستانی سیاست میں ترقیاتی فنڈز کا اہم کردار ہے، اور یہ فنڈز مرکزی یا صوبائی حکومتوں کے ذریعے عوامی نمائندوں کو دیے جاتے ہیں۔ یہ نمائندے اپنے حلقے میں ترقیاتی کاموں کو اپنی مرضی کے مطابق انجام دیتے ہیں اور اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اگر مقامی حکومتیں خود مختار ہوں اور ان کے پاس مالیاتی وسائل ہوں، تو ترقیاتی فنڈز کا استعمال زیادہ شفاف اور مقامی ضرورتوں کے مطابق ہو سکتا ہے۔ لیکن سیاسی جماعتیں اس قسم کے نظام کو فروغ دینے کے بجائے ان فنڈز کا کنٹرول اپنے پاس رکھنا چاہتی ہیں تاکہ وہ خود ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ لے سکیں۔
عوامی فلاح و بہبود اور جمہوری اقدار کی کمزوری:
پاکستان میں مقامی حکومتوں کے عدم استحکام کا سب سے بڑا نقصان عوامی فلاح و بہبود پر پڑتا ہے۔ ترقیاتی کاموں کی عدم موجودگی، بنیادی سہولیات کی کمی، اور مقامی مسائل کا بروقت حل نہ ہونا مقامی حکومتوں کی کمزوری کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر مقامی حکومتوں کو مضبوط کیا جائے اور انہیں مکمل اختیارات دیے جائیں تو عوام کے مسائل بہتر طریقے سے حل ہو سکتے ہیں، کیونکہ مقامی حکومتیں عوام کے قریب ہوتی ہیں اور ان کے مسائل کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھتی ہیں۔
حل کی تجاویز: مضبوط مقامی حکومتیں:
پاکستان میں مقامی حکومتوں کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے رویے میں تبدیلی لائیں اور مقامی حکومتوں کو مکمل اختیارات دیں۔ اس کے لیے چند تجاویز درج ذیل ہیں؛
1۔آئینی شق اے –140 کے مطابق مقامی حکومتیں اپنے صوبوں میں مکمل انتظامی، مالیاتی، اور سیاسی اختیارات نچلی سطح پر منتقل کریں تاکہ مقامی حکومتی نظام خود مختار ہو اور عوامی مسائل حل کر سکیں۔
سیاسی جماعتوں کی تربیت: سیاسی جماعتوں کو اس بات کی تربیت دی جائے کہ مقامی حکومتوں کی مضبوطی دراصل جمہوریت کی مضبوطی ہے اور یہ نظام عوامی فلاح کے لیے ضروری ہے۔.2
ترقیاتی فنڈز کی شفافیت: ترقیاتی فنڈز کے استعمال کو مقامی حکومتوں کے سپرد کیا جائے اور اس عمل کو شفاف بنایا جائے تاکہ فنڈز کا استعمال سیاسی مقاصد کے بجائے عوامی فلاح کے لیے ہو۔.3
مستقل بنیادوں پر انتخابات: مقامی حکومتوں کے انتخابات کو مستقل اور بروقت کرانا چاہیے تاکہ جمہوری نظام مستحکم ہو اور عوامی نمائندگی کا عمل مضبوط ہو۔.4
دنیا میں کئی ممالک ہیں جہاں مقامی حکومتی نظام کامیابی سے چل رہا ہے اور بہترین ماڈل کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان ممالک نے مقامی حکومتوں کو اختیارات، وسائل، اور خودمختاری فراہم کی ہے، جس سے ان کی جمہوریت مضبوط ہوئی اور عوامی فلاح و بہبود میں اضافہ ہوا۔ چند اہم ممالک اور ان کے مقامی حکومتی نظام درج ذیل ہیں:
سوئٹزرلینڈ.1
ماڈل: فیڈرلزم اور براہ راست جمہوریت: سوئٹزرلینڈ میں مقامی حکومتوں کا نظام دنیا بھر میں بہترین سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کی فیڈرل سسٹم کے تحت ملک کو 26 کینٹونز میں تقسیم کیا گیا ہے، جنہیں خود مختاری حاصل ہے۔ ہر کینٹن اپنے قوانین، ٹیکس نظام اور پالیسیز بناتا ہے۔براہ راست جمہوریت کی بنیاد پر عوام کو اہم فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے، جہاں وہ ریفرنڈم کے ذریعے قانون سازی میں حصہ لیتے ہیں۔ اس سے مقامی حکومتوں کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہوتی ہے اور شفافیت برقرار رہتی ہے۔
سویڈن.2
ماڈل: بلدیاتی خود مختاری: سویڈن میں مقامی حکومتوں کو اعلیٰ درجے کی خود مختاری دی گئی ہے، جہاں بلدیاتی حکومتیں تعلیم، صحت، سوشل ویلفیئر، اور انفراسٹرکچر جیسے معاملات میں مکمل طور پر خود مختار ہیں۔سویڈن میں مقامی حکومتیں ٹیکس لگانے کا اختیار رکھتی ہیں، جس سے وہ مالیاتی طور پر مستحکم ہوتی ہیں اور اپنے علاقوں کی ضروریات کو پورا کر سکتی ہیں۔
ڈنمارک.3
ماڈل: بلدیاتی حکومت اور علاقائی کونسلز :ڈنمارک میں مقامی حکومتوں کے تحت دو درجے کا نظام ہے ۔ بلدیاتی حکومتوں کو صحت، تعلیم، اور عوامی خدمات کی فراہمی کے لیے مکمل اختیارات حاصل ہیں۔ڈنمارک میں مقامی حکومتوں کا نظام شفافیت، عوامی شرکت، اور وسائل کی بہتر تقسیم پر مبنی ہے، جس سے عوامی فلاح و بہبود بہتر ہوتی ہے۔
جرمنی.4
ماڈل: فیڈرل سسٹم: جرمنی کا مقامی حکومتوں کا نظام فیڈرلزم پر مبنی ہے، جہاں ریاستیںبڑی حد تک خود مختار ہیں اور انہیں تعلیم، پولیس، اور ٹیکس جمع کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔
ہر ریاست اپنے قوانین بنا سکتی ہے اور مقامی حکومتیں ان قوانین کی عملداری کے لیے ذمہ دار ہوتی ہیں، جس سے حکومتی نظام زیادہ لچکدار اور عوامی ضروریات کے مطابق ہوتا ہے۔
کینیڈا.5
ماڈل: فیڈرلزم اور مقامی حکومتوں کی خودمختاری: کینیڈا میں صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کے معاملات کی نگرانی کرتی ہیں، جبکہ ہر صوبہ اپنے اندرونی مسائل کے حل کے لیے مکمل اختیارات رکھتا ہے۔کینیڈا میں مقامی حکومتیں شہری ترقی، بنیادی سہولیات، اور عوامی فلاح کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہیں، اور انہیں بجٹ کا مناسب حصہ فراہم کیا جاتا ہے۔
ناروے.6
ماڈل: بلدیاتی خود مختاری اور عوامی شرکت: ناروے میں مقامی حکومتوں کو سماجی خدمات، صحت، تعلیم، اور عوامی فلاح و بہبود کے معاملات میں خود مختاری حاصل ہے۔عوامی شرکت اور فیصلہ سازی میں شفافیت کو فروغ دینے کے لیے مقامی سطح پر ریفرنڈم اور عوامی مشاورت کا عمل عام ہے۔
نیوزی لینڈ.7
ماڈل: لوکل کونسلز اور ریجنل کونسلز: نیوزی لینڈ میں مقامی حکومتوں کا نظام دو درجوں پر مشتمل ہے: لوکل کونسلز اور ریجنل کونسلز۔ لوکل کونسلز مقامی سطح پر عوامی خدمات کی فراہمی کی ذمہ دار ہیں جبکہ ریجنل کونسلز بڑے پیمانے پر وسائل کی تقسیم، قدرتی وسائل کے انتظام، اور ماحولیاتی پالیسیوں پر عملدرآمد کرتی ہیں۔مقامی حکومتیں مالی طور پر خود مختار ہیں اور انہیں مقامی سطح پر ٹیکس جمع کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
جاپان.8
ماڈل: مقامی خود مختاری: جاپان میں مقامی حکومتوں کو خود مختاری دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے علاقوں کے مسائل حل کر سکیں۔ یہاں پر دو سطحی نظام ہے: پریفیکچر اور میونسپلٹی۔
مقامی حکومتیں شہری خدمات، تعلیم، اور صحت کے شعبے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور انہیں وفاقی حکومت سے فنڈنگ ملتی ہے تاکہ وہ مقامی ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکیں۔
آسٹریلیا.9
ماڈل: فیڈرل سسٹم اور بلدیاتی حکومتیں:آسٹریلیا میں مقامی حکومتوں کا نظام صوبائی حکومتوں کے تحت چلتا ہے اور انہیں عوامی خدمات، شہری ترقی، اور ماحولیات کے تحفظ میں اہم کردار دیا گیا ہے۔یہاں کے بلدیاتی ادارے منصوبہ بندی، تعمیرات، اور عوامی خدمات کی فراہمی کے لیے خود مختاری رکھتے ہیں۔
برطانیہ.10
ماڈل: یونٹاری اور ڈسٹرکٹ کونسلز: برطانیہ میں مقامی حکومتیں یونٹاری اور ڈسٹرکٹ کونسلز پر مشتمل ہیں، جنہیں صحت، تعلیم، سماجی خدمات، اور شہری منصوبہ بندی میں اہم کردار دیا گیا ہے۔
مقامی حکومتوں کو فیصلہ سازی میں خود مختاری حاصل ہے اور وہ عوامی مشاورت کے ذریعے مقامی مسائل حل کرتی ہیں۔
یہ تمام ممالک مقامی حکومتوں کے بہترین ماڈلز کے طور پر جانے جاتے ہیں کیونکہ ان کے نظام میں عوامی شرکت، شفافیت، اختیارات کی منتقلی، اور مالیاتی خود مختاری جیسے اہم عناصر شامل ہیں۔ ان کی کامیابی کا راز مقامی مسائل کے حل میں مقامی سطح پر فیصلے کرنے کی آزادی، وسائل کی منصفانہ تقسیم، اور مقامی حکومتوں کو مستحکم بنانے کی پالیسیز میں مضمر ہے۔ پاکستان میں بھی ان ماڈلز سے سیکھ کر مقامی حکومتوں کو مضبوط کیا جا سکتا ہے، جس سے جمہوری استحکام اور عوامی فلاح و بہبود میں بہتری لائی جا سکتی ہے
پاکستان میں مقامی حکومتوں کی مضبوطی جمہوری استحکام اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے نہایت ضروری ہے۔ جب تک سیاسی جماعتیں اور منتخب نمائندے مقامی حکومتوں کو مکمل اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، اس وقت تک ترقیاتی کاموں میں شفافیت اور عوامی خدمت کا معیار بہتر نہیں ہو سکے گا۔ جمہوریت کا اصل مقصد عوامی نمائندگی اور خدمت ہے، اور مقامی حکومتیں اس مقصد کو حاصل کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہیں۔
مقامی حکومتوں کی مضبوطی اور سیاسی جماعتوں کو اس نظام کو قبول کرنے کے لئے سول سوسائیٹی، میڈیا ان سیاسی جماعتوں سے مل کر تحریک چلائیں جو مقامی حکومتی نظام کے حامی ہیں۔
(مختار جاوید ایک سماجی و ماحولیاتی کارکن، فافن ، این ایچ این، سٹارٹ گلوبل نیٹ ورک، ریڈی پاکستان، سن سی ایس اے نیوٹریشن نیٹ ورک پاکستان کی ایگزیکٹو کمیٹیوں کا رکن اور خیبر پختونخواہ فارسٹری راونڈ ٹیبل کا ممبر ہے۔)