Skip to content

کم عمر کی شادیاں: ایک اجتماعی مسٔلہ

شیئر

شیئر

تحریر عظمی شہزادی

پاکستان میں غربت اور تعلیم کی کمی کے سبب ایک خطرناک رجحان ابھر رہا ہے، جو کم عمری اور بچپن میں شادیاں ہیں۔ اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں 21 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف ان کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ ملک کے مستقبل کی ترقی کے لیے بھی ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔

پاکستان ایک متنوع ثقافت کا حامل ملک ہے۔ جہاں مختلف قومیتوں، مذاہب، ذاتوں، اور رنگ و نسل کی آبادی بستی ہے۔
ہر علاقے، قوم، مذہب اور ذات کے الگ الگ رسم و رواج ہیں، یہ رسم و رواج جہاں اِن علاقوں یا اِن کے رہنے والوں کی پہچان ہیں وہیں دوسری طرف یہ ہماری تہذیب کی خوبصورتی بھی بڑھاتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ کچھ رسم و رواج جتنے پرانے اور پختہ ہیں اتنے ہی نقصان دہ بھی ہیں اور وقت کی کڑی آزمائشوں میں بھی برقرار رہے ہیں جو انسانیت کے لیے مہلک ثابت ہو رہے ہیں
اِن پر عمل پیرا ہونا اِن لوگوں کے لئے باعثِ اذیت اور تباہی ہیں جن پر یہ مسلط کیے جاتے ہیں۔

انہی پرانے اور منفی رسم و رواج میں سے ایک کم عمری میں کرائی جانے والی شادی ہے سندھ بلوچستان خاص طور پر اِس رسم کی لپیٹ میں ہیں اور کتنی ہی زندگیاں کم عمری کی شادی سے ہونے والے نقصانات کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ 2017 میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 16 سال سے کم عمر میں شادی کرائے جانے والے بچوں کی تعداد 7.3 ملین (% 6.0 ) اور 18 سال سے کم عمر میں شادی کرائے جانے والے بچوں کی تعداد 15.5 ملین (% 12.6 ) ہے جن میں زیادہ تعداد اُن بچیوں کی ہے جو اپنے خاندان کے کسی نہ کسی مرد کے کیے ہوئے کسی جرم کی پاداش میں ہرجانے کے طور پر اس سزا کے لئے منتخب کی جاتی ہیں یا اُن کی شادی کروانے کے لئے بدلے میں دی جاتی ہیں۔

ایسے ان گنت کیسز پاکستان کے دیہی علاقوں میں روزانہ وقوع پذیر ہوتے ہیں پر ہمارے ذہنوں اور دلوں پر طاری بے حسی یا خوف کی وجہ سے رپورٹ نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ایسی شادیوں کے بارے میں معلومات بھی کم ہیں۔ کم عمری کی شادی کا زیادہ شکار وہ بچیاں ہیں جو کبھی اپنے سے عمر میں کئی گنا بڑے مرد سے بیاہی جاتی ہیں اور کبھی غربت کی وجہ سے ایک اضافی بوجھ کی طرح ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل کردی جاتی ہیں۔ ایک اور سروے کے مطابق پندرہ سال سے کم عمر کے دوران زچگی موت کا خطرہ اور تناسب پانچ گنا زیادہ ہوتا ہے۔

کم عمری کی شادی کا سب سے زیادہ اثر اُس بچی کی صحت پر پڑتا ہے جس کو خوبصورت کپڑوں، گہنوں، نئے کمرے اور دیدہ زیب زندگی کا لالچ دے کر اس کے ہاتھوں سے کبھی گڑیا اور کبھی کتاب چھین کر ایک طویل جدوجہد اور پُر اذیت زندگی کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ طبی نقطئہ نظر سے دیکھا جائے تو کم عمری میں ہونے والی شادی سے بچیوں میں جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماروں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کم عمری میں حاملہ ہونے کی وجہ سے تولیدی صحت متاثر ہوتی ہے۔

دورانِ زچگی ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے ماں کی موت واقع ہوجانا ایک عام بات ہے۔ خون کی کمی، فسٹیولہ، carvic cancer، اور اندرونی انفیکشن اِن بچیوں کی دورانِ زچگی ہونے والی موت کی وجوہات ہیں جن کی تصدیق میڈیکل سائنس کی مختلف ریسرچ کرتی ہیں کچھ اور وجوہات بھی ہیں جن کی وجہ سے کم عمری کی شادی نقصان دہ ہے۔ جن پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے سندھ میں کم عمری کی شادی کے روک تھام والے قانون جو 2013 میں سندھ اسمبلی میں منظور ہوا جس کے مطابق 18 سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی کروانا قانونی جرم ہے، اس قانون کے بننے سے پہلے کے حالات و واقعات اور اِس قانون کے بننے کے پیچھے کے عوامل پر غور کیا جائے تو جو وجوہات سامنے آئیں ان میں لڑکیوں کی تعلیم کی گرتی ہوئی شرح اور اسکولوں میں پرائمری کے بعد لڑکیوں کی تعداد کا بتدریج کم ہونا، دورانِ زچگی کم عمر ماں اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں اضافہ اور نوجوان جوڑوں میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے دیہی علاقوں میں خاص طور پر جہاں قبائلی نظام رائج ہے وہاں لڑکیوں کی تعلیم کو اتنا ضروری نہیں سمجھا جاتا اور اگر انھیں اسکول میں داخل کروا بھی دیا جائے تو پرائمری کے بعد آگے مڈل اسکول میں داخلہ دلوانے کے بجائے شادی کروادی جاتی ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 57 % حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے پر المیہ یہ ہے کہ ہر سال کیے گئے مختلف سروے اپنی جو رپورٹ پیش کرتے ہیں اس میں ہمیشہ پاکستان میں لٹریسی ریٹ کم ہی ہوا ہے خاص طور پر صوبہ سندھ میں جس کا ایک بڑا سبب کم عمری کی شادی ہے۔

کم عمری کی شادی کی وجہ سے جہاں تعلیم کی شرح کم ہوئی ہے وہیں خواتین میں صحت سے متعلقہ مسائل میں اضافہ ہوا ہے صحت کے لئے ملنے والی سہولتیں ویسے ہی اتنی ناقص اور ناکارہ ہیں جو ایک بالغ عورت کی زندگی کے لئے خطرہ بن سکتی ہیں اس صورتحال میں وہ بچی جو پہلے ہی متاثر ہو اس کی صحت کو کیسے محفوظ کیا جاسکتا ہے پر جو سب سے کم زیرِ بحث آنے والی وجہ ہے وہ ہے نوجوان جوڑوں میں تنازعات جن کا نتیجہ کبھی طلاق اور کبھی قتل یا خودکشی نکلتا ہے۔

جس عمر میں بچے ابھی خود کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوتے اور نہ ہی معاشی مستحکم ہوتے ہیں کہ اُن کو ایک بڑی ذمہ داری میں الجھا دیا جاتا ہے وہ آنکھیں جو کچھ کرنے کچھ بننے کے خواب دیکھنا شروع ہی ہوتی ہیں کہ وہ خواب چھین کر سخن کو رسم و رواج کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔

آج کے اس جدید ڈیجیٹل دور میں جہاں دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے اس دور میں بچوں کو ناسمجھی والی عمر میں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دینا وہ بھی چند خود غرض وجوہات کی وجہ سے شاید ان کے ساتھ نا انصافی ہے۔ اس دور میں جب وہ غیرمستقل مزاج ہوتے ہیں ہر نئی چیز کی جستجو اِن کو اپنی طرف کھینچتی ہے، اِس غیر مستقل مزاج عمر میں نکاح جیسے اہم اور سنجیدہ معاہدے میں انہیں پابند کرنا غلط ہے۔

کم عمری کی شادیوں کے بارے میں ہمارے معاشرے میں مختلف سطحوں پر مختلف آراء کا اظہار کیاجاتا ہے. لیکن ناسور کی حیثیت رکھنے والے اس ناپسندیدہ عمل کو بڑی حد تک بے ہودہ، فرسودہ اور تباہ کن اثرات کی حامل رسم سمجھا جاتا ہے۔ اس دلخراش رسم میں کہیں غربت، کہیں زور زبردستی اور کہیں لالچ کا عنصر شامل حال ہوتا ہے لیکن معصوم زندگیوں سے کھلواڑ کے پیچھے جہالت ان مختلف وجوہات میں سب سے بڑی وجہ ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق "بچوں کی شادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور لڑکیوں کی صحت، تعلیم اور بہبود کے لیے خطرہ ہے۔یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق "بچوں کی جلد شادی حمل، زچگی کی اموات، اور غربت کے دائمی چکروں کا باعث بن سکتی ہے۔”

مجموعی طور پر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کم عمری کی شادی کے بچوں، خاص طور پر لڑکیوں کی جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی تندرستی پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان کی تعلیم، معاشی بااختیار بنانے اور مجموعی ترقی میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔

پاکستان میں شادی کی کم از کم عمر کے قوانین مختلف صوبوں میں مختلف ہیں۔ پنجاب میں لڑکیوں کے لیے عمر 16 سال اور لڑکوں کے لیے 18 سال ہے، جبکہ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں لڑکا لڑکی دونوں کے لیے یہ عمر 18 سال ہے۔ وفاقی قانون کے مطابق بھی لڑکیوں کے لیے 16 اور لڑکوں کے لیے 18 سال ہے، لیکن صوبائی قوانین اس سے زیادہ اہم ہیں۔ان قوانین کے باوجود، ثقافتی اور سماجی وجوہات کی بنا پر بچوں کی شادیاں اب بھی جاری ہیں۔

کم عمری کی شادیوں کا خاتمہ نوجوانوں اور معاشرے کی فلاح و بہبود کےلیے بہت ضروری ہے۔ اس کےلیے موثر کوششوں کی ضرورت ہے جس میں تعلیمی پروگرام، قانونی اصلاحات، اور کمیونٹی بیداری کے اقدامات شامل ہیں۔ لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کےلیے معیاری تعلیم تک رسائی کو یقینی بنانا چاہیے۔

جبکہ کم عمری کی شادی کے حوالے سے موجود قوانین کا موثر نفاذ بھی ازحد ضروری ہے۔

بچپن کی شادی کے خلاف اور صنفی مساوات کو فروغ دینا اس نقصان دہ سائیکل کو توڑنے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ ملک بھر میں کم عمری کی شادی کے خاتمے کےلیے پائیدار نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں