عظمی شہزادی
اس دنیا میں موجود ہر ذی روح کو جلد یا بدیر اپنی پیدا کرنے والی ذات کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ مرنے کے بعد ہر شحض کو اپنے اچھے اور برے اعمال کا حساب دینا ہے۔لیکن آج کا انسان ان سب باتوں کو بالاۓ طاق رکھتے ہوۓ بدعنوانی جیسی خطرناک برائیوں میں مبتلا ہے۔ جیسا کہ انور مسعودصاحب نے بھی کہا تھا
"روز و شب کے میلے میں، غفلتوں کے مارے ہم بس یہی سمجھتے ہیں۔ ہم نے جس کو دفنایا بس اسی کو مرنا تھا۔
انگریزی لغت میں کرپشن کے معنی وسیع ہیں۔ کرپشن کا مطلب ہے ایسی خرابی جس سے پورا نظام اتھل پتھل ہو جائے۔ کمپیوٹر استعمال کرنے والے جانتے ہیں کہ ’سسٹم کرپٹ‘ ہونے سے کمپیوٹر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ تو صاحب ’کرپشن‘ کا مفہوم ناجائز ذرائع سے دولت کمانے تک محدود نہیں۔ اگر ’کرپشن‘ دور کرنی ہے تو سسٹم میں موجود ’کرپشن‘ کی درست نشاندہی کرنا ہو گی۔ آخر کوئی وجہ تو ہے کہ دوسری قومیں ترقی کر رہی ہیں اور ہمارے دھان سوکھے ہیں۔
آج، ہم اپنے آپ کو دھوکے کے جال میں الجھے ہوئے پاتے ہیں، جہاں بدعنوانی ایک عیش و عشرت ہے اور ایمانداری ایک دور کی یاد ہے۔ ہمارے معاشرے کے تانے بانے بے ایمانی کے دھاگوں سے بنے ہوئے ہیں، جہاں خود غرضی بنیادی محرک ہے، اور انجام اسباب کو جواز بناتا ہے۔ ہم ہیرا پھیری کے ماہر بن گئے ہیں، اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنے الفاظ اور اعمال کا استعمال کرتے ہوئے، قیمت سے قطع نظر۔ اس دنیا میں دیانتداری ایک کمزوری ہے اور جو لوگ اسے برقرار رکھتے ہیں وہ بھولے اور بے وقوف تصور کیےجاتے ہیں۔ ہم نے ایک ایسا کلچر بنایا ہے جہاں کامیابی کا اندازہ جھوٹ اور آدھے سچ کے اس پیچیدہ نیٹ ورک کو نیویگیٹ کرنے کی ہماری صلاحیت سے لگایا جاتا ہے، جہاں انتہائی ہنر مند دھوکے بازوں کو انعام دیا جاتا ہے اور ان کی تعریف کی جاتی ہے۔
مولاناالطاف حسین حالیؔ نے کیا خوب کہا تھا:
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
جیسے کوئی بھی شے خلا میں پیدا نہیں ہوتی بلکہ اسباب و علل کا ایک طویل سلسلہ اس کو وجود میں لانے کا باعث ہوتا ہے۔اسی طرح ایک فرد کی بدعنوانی جو ابتداء میں ایک معمولی سی برائی لگتی ہے۔رفتہ رفتہ ایک بڑےبحران میں تبدیل ہو ثاتی ہے۔اور قوم کو پاتال کی گہرائیوں میں گرا دیتی ہے۔جیسے ایک مضبوط پرواز ہوا کے بھاری جھٹکوں سے لرز جاتی ہے ویسے ہی بدعنوانی قوم کی ترقی اور پرواز کو دھچکے پہنچاتی ہے۔اس کا اثر اتنا گہرا ہوتا ہے کہ امید کی روشنی مدھم ہو جاتی ہے اور ترقی کی راہیں ایک تاریک اور گہری کھائی مین بدل جاتی ہے ۔جہان ہر کوشش محض ایک دھوکہ نظر آتی ہے۔
عمل کی بنیاد پر ہی انسانی زندگی کندن بنتی ہے ۔ بد اعمالی سے تباہی و بربادی اُس کا مقدر بن جاتی ہے ۔ خیر اور شر دوونوں ہی انسان کی سرشت میں شامل ہیں۔ نیکی اور برائی کی دونوں راہیں انسان کے سامنے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے دونوں میں فرق کی شناخت کے لیے انسان کو شعور کی دولت سے مالامال کیاہے ۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒؒ نے کیا خوب فرمایا ہے:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اس ماحول میں رہنے کا مطلب ہے اپنی اقدار اور اصولوں سے مسلسل سمجھوتہ کرنا۔ ہم اپنے آپ کو یہ بتا کر اپنے اعمال کا جواز پیش کرتے ہیں کہ باقی سب یہ کر رہے ہیں۔ ہم خود کو باور کراتے ہیں کہ ہم کسی کو تکلیف نہیں دے رہے ہیں، یہ صرف ایک چھوٹا سا سفید جھوٹ ہے، ایک معمولی بے راہ روی ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ہر سمجھوتہ، چاہے کتنا ہی چھوٹا ہو، ہمارے احساس، ہماری شناخت اور ہمارے مقصد کو ختم کر دیتا ہے۔ ہم اپنے سابقہ نفوس کے سائے بن جاتے ہیں۔ ہم خود فریبی کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں، جہاں ہم مسلسل اپنے اعمال، خود اور دوسروں کے لیے جواز پیش کرنے پر مجبور ہیں۔
بدعنوانی ایک سست رفتار زلزلے کی مانند ہے، جو ہمارے اداروں کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے اور ہمیں گرنے کے خطرے سے دوچار کر دیتی ہے۔ جس طرح زلزلہ کسی شہر کو ملبے میں تبدیل کر سکتا ہے اسی طرح بدعنوانی معاشرے کو افراتفری اور تباہی کی طرف لے جا سکتی ہے۔ یہ چھوٹے جھٹکوں سے شروع ہوتی ہے، تقریباً ناقابل فہم۔ لیکن آہستہ آہستہ اس وقت تک شدت اختیار کر لیتی ہے جب تک کہ ہمارے اداروں کی بنیادیں ہل نہیں جاتیں اور جب خاک اُڑ جاتی ہے تو ہم ایک بکھرے ہوئے معاشرے کے ٹکڑے اٹھانے کے لیے رہ جاتے ہیں، یہ سوچتے ہوئے کہ یہ سب کیسے ٹوٹ گیا۔
اس حوالے سے کوئی حتمی اعداو شمار تو نہیں لیکن گمان غالب ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح جو لفظ سب سے ذیادہ بولا گیا ہے وہ ہے ‘کرپشن’۔ خصوصی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے اس لفظ کے اثرات اب عمومی ہو گئے ہیں۔اب سارے سماج کی آنکھوں پر کرپشن والی عینک لگ گئ ہے۔ آج ہم خود کو ایک ایسی تلخ حقیقت سے دوچار پاتے ہیں جسے ہم اکثر نظرانداز کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ بدعنوانی ہمارے معاشرے میں اتنی گہرائی تک پیوست ہو چکی ہے کہ ہم نے اسے ایک طرزِ زندگی کے طور پر قبول کرنا شروع کر دیا ہے۔ہم اس کی موجودگی کے عادی بن چکے ہیں اور یہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں ایک مستقل ساتھی بن چکی ہے۔ تاہم اس قبولیت کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے جس میں ہماری سالمیت ، ہمارے اقدار اور انسانیت سرِ فہرست ہیں۔
حالیہ سالوں میں کرپشن میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی 80 فیصد دولت پر 20ہزار خاندان قابض ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 70فیصد لوگوں کی رائے ہے کہ کرپشن نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اور ہر سال اربوں روپے کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں کرپشن کی 40 فیصد شکل رشوت ہے۔پاکستان ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل 2023 کی انسداد بدعنوانی کی عالمی فہرست میں 180 ممالک میں سے 133 نمبر پر ہے۔ جو کہ ایک سنگین چیلنج کی عکاسی کرتا ہے۔ کرپشن پورے معاشرے میں سرایت کر چکی ہے۔ناجائز طریقے سے رزق کمانا ایک فیشن بن چکا ہے۔ جسے
بڑھاوا دینے میں ہر کوئی بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈال رہاہے۔
بدعنوانی محض ایک فرد کی خرابی نہیں، بلکہ یہ ایک عمیق سماجی مرض ہے جو معاشرتی ساخت کو مفلوج کر دیتا ہے۔ جب بدعنوانی معاشرتی اور سیاسی نظام کی جڑوں میں سرایت کر جاتی ہے، تو وہ معاشرہ ایک بڑے بحران کی طرف بڑھتا ہے۔ بدعنوانی کی جڑیں عام طور پر طاقت، دولت، اور اختیار میں موجود بے ضابطگیوں سے پھوٹتی ہیں، جو کہ زندگی کے بنیادی اقدار کو کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ اس کا آغاز اکثر چھوٹی مگر قابل توجہ نوعیت کی بے ایمانی سے ہوتا ہے جو رفتہ رفتہ ایک بڑے مسئلے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
بدعنوانی کے اس عالمی بحران نے ہمیں ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیا ہے جہاں ہم خود کو عاجز اور بے بس محسوس کرتے ہیں۔ ہم اپنے ارد گرد بڑھتی ہوئی بے حسی اور معاشرتی ٹوٹ پھوٹ کا مشاہدہ کرتے ہیں، لیکن اپنی انفرادی اور اجتماعی بے عملی کی وجہ سے اسے روکنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ایک عام انسان کو، جو کہ سماجی تبدیلی کا حصہ بننے کی خواہش رکھتا ہے، بدعنوانی کی موجودگی میں ایک بے بسی اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے خود کو اس فریب کی دنیا میں بند کر لیا ہے جہاں ہم اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ ہمیں خود کو اس مسئلے کا حصہ بننے کا ذمہ دار سمجھنا چاہئے۔
یہ حقیقت ہماری توجہ کا مرکز بننی چاہئے کہ بدعنوانی کی جڑیں صرف نظام میں ہی نہیں، بلکہ ہمارے معاشرتی رویوں اور ثقافت میں بھی پیوست ہیں۔ جب ہم اس بدعنوانی کے نظام کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہمیں سب سے پہلے خود کو بدلنا ہوگا۔ ہم سبھی کو اپنی زندگیوں میں ایمانداری، شفافیت اور ذمہ داری کی اقدار کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف ایک فرد کی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک اجتماعی جدوجہد کا حصہ ہے جو ہمیں اس بحران سے نکال سکتی ہے۔
ہمارے مسائل کا حل صرف بیرونی اصلاحات میں نہیں، بلکہ اندرونی تبدیلی میں بھی ہے۔ ہم سب اپنی زندگیوں میں سچائی، انصاف، اور اصولوں کے مطابق چل کر ہی اس بدعنوانی جیسے ناسور کو شکست دے سکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ تبدیلی ہمارے اپنے اندر سے شروع ہوتی ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی اقدار اور اصولوں کی پاسداری کریں، تاکہ ہم ایک بہتر اور انصاف پسند معاشرہ تشکیل دے سکیں۔
چونکہ بدعنوانی کی جڑیں ہمارے نظام میں گہرائی تک موجود ہیں اس لیے اس کا خاتمہ صرف قانون سازی سے نہیں، بلکہ ہر فرد کی ذاتی ذمہ داری اور اخلاقی قیادت سے ہی ممکن ہے۔ جیسا کہ شیکسپیئر نے کہا تھا،
"خرابی ہمارے ستاروں میں نہیں، خود ہم میں ہے۔ اور خرابی یہ ہے کہ ہم بالشتیے ہیں”۔