پاکستان جیسے پدرشاہی(patriarchal ) معاشروں میں خواتین اکثر سماجی توقعات کے جال میں الجھی رہتی ہیں، جہاں ان کی زندگی کے فیصلے غیر تحریری اصول و قوانین کے تابع ہوتے ہیں اور یہ اصول صرف اس وقت لاگو ہوتے ہیں جب خاندان کے مفادات کے مطابق ہوں ۔ جیسے بیوی کا شوہر کی نا اہلی اور نکمے پن کے باعث اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا۔ اسی طرح مالی حیثیت کو اکثر caste پر اور رنگ وظاہر کو صلاحیات پر ترجیح دینا
مفادات کو مدے نظر رکھتے ہوے سماجی منافقت اور دوہرے معیار کو بے نقاب کرتا ہے۔
یہ ایک سادہ سوال اٹھتاہے کہ صرف لڑکی کے شادی کے فیصلے کو خاندانی غیرت کے خلاف کیوں سمجھا جاتا ہے؟ جبکہ کسی کے گھر میں کام کرنا ایسا کیوں نہیں ہے؟ کیوں اس کے لیے مشکل حالات میں کام کرنا خاندان کے لیے بے عزتی نہیں، لیکن اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنا غیرت کے خلاف ہو جاتا ہے؟ یہ پدرشاہی معاشروں کے دوہرے معیار کی بنیاد ہے، جہاں عورت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خدمت کرے، لیکن لیڈ نہ کرے۔
ایک اور نمایاں تضاد اُس وقت نظر آتا ہے جب خاندان ذات کو شادی کی تجویز مسترد کرنے کی وجہ بناتے ہیں۔ اکثر، ایک لڑکی کو اس کی ذاتی خصوصیات کے بجائے اس کی ذات کی بنیاد پر ناقابلِ قبول سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ معیار اُس وقت غائب ہو جاتا ہے جب لڑکا امیر ہو یا اس کا معاشرتی مقام اونچا ہو۔ اچانک وہی ذات کے سخت اصول لچکدار بن جاتے ہیں۔
یہ واضح ہے کہ مالی حیثیت اکثر روایتی اقدار پر فوقیت رکھتی ہے، جو ان نام تشکیل شدہ "غیرت” کی بنیادوں کو بے نقاب کرتی ہے
رنگت اور ظاہری صلاحیت کے حوالے سے بھی خاندانوں میں دہرا معیار ہوتا ہے۔ اکثر، کسی کی ظاہری شکل یا رنگت کی بنیاد پر رشتے رد کر دیے جاتے ہیں، جبکہ انہی خاندانوں میں اپنے بچوں کی انہی خصوصیات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے
یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ معاشرتی توقعات کتنی بے بنیاد ہیں، جہاں سطحی صفات دوسروں کو مسترد کرنے کا جواز بنتی ہیں، لیکن خود کے معاملے میں نظرانداز کر دی جاتی ہیں۔ یہ دہرا معیار نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ مضر اور تباہ کن تصورات کو بھی فروغ دیتا ہے، جو ظاہری شکل کو کردار اور اخلاقی قدروں پر ترجیح دیتا ہے.
یہ دہرا معیار پیشے کے حوالے سے بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثال کے طور پر، پولیس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کا رشتہ آتا ہے تو خاندان فوراً یہ فرض کر لیتا ہے کہ وہ شخص رشوت لیتا ہو گا یا بدعنوان ہو گا، بغیر کسی ثبوت کے۔ وہ اس پیشے کے افراد کو ان بدنام تصورات کی بنا پر مسترد کر دیتے ہیں۔ لیکن اگر ان کا اپنا بیٹا یا بیٹی اسی شعبے میں ہو، تو وہ ان مفروضوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
یہ منافقت معاشرتی تعصب کی ایک اور پرت کو ظاہر کرتی ہے۔ جب مخصوص پیشوں کے افراد کو بغیر کسی ٹھوس بنیاد کے بدنام کیا جاتا ہے، تو وہی معیار اپنے خاندان کے لیے لاگو نہیں ہوتا۔ یہ معاشرتی رجحان کو ظاہر کرتا ہے، جہاں لوگوں کو ان کے پیشے کے بجائے ان کی ذاتی خوبیوں پر پرکھنے کے بجائے، پیشہ ورانہ ٹائٹل کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے
پدرشاہی معاشروں میں سماجی اقدار کا منتخب اور من پسند اطلاق اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ خواتین کی خود مختاری کا احترام کرنے کے بجائے، انہیں قابو میں رکھنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ خواتین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ صبر کریں،خاندان کی غیرت کا سارا بوجھ اٹھائیں، محنت کریں اور قربانیاں دیں، لیکن جیسے ہی وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے لگتی ہیں، چاہے وہ شادی ہو، کام ہو،سیاسی و سماجی معاملات ہوں یا زندگی کے دیگر فیصلے، ان کے فیصلے "غیرت” کے نام پر جانچنے لگتے ہیں۔
اگر کسی عورت کی خود مختاری کی واقعی قدر کی جاتی ہے، تو اس کا حق ہے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے کرے، اور یہ حق سطحی فیصلوں یا پرانے اور قبائلی سماجی اصولوں کی بنیاد پر محدود نہیں ہونے چاہیں۔ خواتین کی حقیقی عزت ان کے فیصلے پر مکمل کنٹرول کرنے میں نہیں، بلکہ عائلی،سیاسی ،سماجی اور معاشی فیصلوں سمیت زندگی کے ہر پہلو میں ان کی خود مختاری کا احترام کرنے میں ہے۔
ضحٰی اختر ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ کے بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینٹک انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ سے بی ایس گریجویٹ ہیں ،مطالعہ کا شوق ہے اور ہزارہ ایکسپریس نیوز کے لیے لکھتی ہیں۔