Skip to content

کیا میں آزاد ہوں ؟

شیئر

شیئر

یہ سوال ہر باشعور پاکستانی اپنے آپ سے کئی دفعہ پوچھتا ہے۔ہر بار جب کوئی فرسودہ روایت اس کے خوابوں کا رستہ روکتی ہے ،جب معاشرے کے کچھ باثر افراد دین کی من مانی تعبیر پیش کرکے یا آڑ لے کر اس کی زندگی کے فیصلے خود کرنے اور ان کے تصور دنیا سے مختلف سوچ رکھنے پر باغی اور کافر قرار دینے پر مصر ہوتے ہوں ۔اس وقت یہ سوچ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا اسلامی ہونا اس کی آزادی کا ضامن نہیں ؟زہن میں ابھرتی ہے ۔
جب سکول میں فرسودہ سلیبس کو رٹنے رٹانے کے کا مکمل بندوبست ہو،جب بسیوں صدی میں بھی فرسودہ تصورات کو سائنس کا نام دے کر پڑھایا جاتا ہو ،جب سوچ پر روایت کے پہرے ہوں،جب کسی علاقے کی محدود روایت کو زندگی کا ضابطہ قرار دے کر راہنمائی کی امید باندھ لی جائے اور کسی روشن زہن اور منفرد سوچ کو بدتمیزی قرار دے کر مخصوص ڈسپلن کے لیے خطرہ تصور کیا جائے تو غور و فکر کی آزادی کو کیا معنی پہنائے جائیں؟
جب کوئی با صلاحیت نوجوان اپنی ساری جوانی اور اک مزدور باپ کی ساری زندگی کی محنت کے بل بوتے پر ڈگری اور صلاحیت کے ساتھ نوکری کی جستجو میں نکلے اور کسی بااثر سفارشی کے مقابلے میں اس کی صلاحیت و قابلیت اور جوانی بھر کی محنت بے اثر ہو جائے ۔کیا ہم ازاد ہیں ؟یہ سوال اس وقت اس کے سینے میں اگ کی طرح سلگتا ہے ۔
جہاں اک مزدور کی عمر بھر کی مزدوری ،جہاں اک محنت کش کی محنت ،اک مڈل کلاس گھرانے کی تمام تر کاوشیں بھی اس امیروں کی قائم کی ہوئی طبقاتی تقسیم کو نہیں بدل پاتی تو سوال اٹھتا ہے۔۔۔کیا ہم ازاد ہیں ؟
جب کوئی بیوہ خاتون حیا کی چادر اوڑھے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے چار دیواری سے نکلتی ہے تو ہزاروں گدھ تاک لگائے یوں دیکھتے ہیں جیسے عورت کوئی دوسرے سیارے میں بسنے والی محلوق ہے جو سیارہ زمین پر آ ج اتری ہے۔ ان نظروں سے پیچھا چھڑاتی جب وہ کام کے لیے کہیں عرضی دیتی ہے تو اس کی صلاحیتوں کو عورت ہونے سے ماپا جاتا ہے اور کئی ہوس زدہ مسیحا اپنی مسیحائی اس پر لٹانے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔اس سب سے اگر وہ بچ بھی جایے تو فتووں کے ٹھیکیدار اس کو بدکردار کہنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ۔کیا اک عورت کے لیے اسلامی جمہوریہ کا شہری ہونا اس کی آزادی اور حقوق کو یقینی نہیں بنا سکتا ؟سوال اٹھتا ہے.
کیا آزاد پاکستان میں حق اظہار رائے رکھنا جرم ہے؟ کیوں ملک کے غریب عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والوں سے احتساب مانگنا زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے مترادف ہے ؟ کیوں عدلیہ کا ادارہ عدل دینے میں ہی ناکام ہے؟ میری سوچ روٹی اور تحفظ کے مسلہ سے کب آزاد ہو گی؟ یہ مسلہ کون حل کرے گا؟
ان سب سوالات کا اک ہی جواب ہے۔۔۔۔کہ ہم آزاد نہیں! جی ہاں ہم آ زاد نہیں نہ ہوسکتے !کیوں کہ انگریز سامراج اگرچہ چلا گیا ہے مگر ان کے جانشین ان جیسی سوچ رکھنے والے اور ان کے پیروکار آج بھی موجود ہیں۔ اس کا حل صرف اک ہے…. سوچ کی تبدیلی! یہ تبدیلی کچھ سوالات اٹھانے کی صورت میں ،کچھ سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی صورت میں ،کچھ خواب دیکھنے کی صورت میں اور کچھ خوابوں کی تعبیر پانے کی جستجو کی صورت میں،کچھ الگ سوچنے کی صورت میں اور کچھ الگ سوچنے والوں کو سمجھنے کی صورت میں !

ازقلم جویریہ ارشد

   جویریہ ارشد گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مانسہرہ میں شعبہ انگریزی کی طالبہ ہیں۔جویریہ کو افسانہ اور کالم نگاری کا شوق ہے۔جویریہ ارشد ہزارہ ایکسپریس نیوز کے لیے لکھتی ہیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں