تحریر امر سندھو
منتخب حکمرانوں کی کرپشن یا بدعنوانی، جمہوریت کو ڈی ریل کرنے ( پٹڑی سے اتارنے ) کا بہترین جواز ہے اور پاپولسٹ سیاست کا مقبول بیانیہ منتخب جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
اس لیے بنگلہ دیش کی سات اگست کے اور پاکستان کے نو مئی کے واقعات و منظر نامے میں مماثلت محض اتفاق نہیں۔
آج کے اس دور میں جب عوامی سیاسی شعور کے برعکس سیاسی بیداری اور تبدیلی کا واحد ذریعہ سوشل میڈیا ہے، وہاں منتخب حکومتوں کو ’گھر بھیجنے‘ کے لیے ’تبدیلی‘ یا ’غیر نامیاتی مقبولیت‘ کو واحد پیمانہ بنا کر منتخب حکومتوں کو ذلیل و رسوا کر کے گھر بھیجنے کا سستا طریقہ اپنا لیا گیا ہے۔
بے شک، دنیا میں ڈائریکٹ مارشل لا کا دور تمام ہو چکا ہے اور ڈائریکٹ فوجی حکومتوں کو خوش آمدیدی رویہ بھی ناپید ہوتا جا رہا ہے۔
مگر پارلیمانی جمہوریت کے قیام کے لیے ابھی کتنا وقت اور انسانی خون درکار ہے، یہ یقین سے کہا نہیں جا سکتا۔ پارلیمانی جمہوریت کو کمزور کرنے اور پس پردہ اقتدار پر قابض ہونے کے لیے اس دور میں اس سستے طریقہ کار کا استعمال زیادہ ہو گیا ہے۔
ماورائے آئین اقتدار پہ قبضہ گیری اس طریقہ کار میں مصنوعی طریقے سے قائم کردہ ”مقبول قیادت“ (جس کے پاس پارلیمنٹ میں طاقت کا مینڈیٹ نہیں ہے ) کی مصنوعی ”مقبولیت“ کو ہی اقتدار پہ غیر جمہوری طریقے سے قبضہ کرنے کا واحد جواز بنا کر منتخب پارلیمانی قیادت کو ”غیر مقبول“ قرار دیتی ہے اس تیاری میں مقبول قیادت کے پیچھے ایک بے لگام ’ہجوم‘ بھی تیار کیا جاتا ہے جو طاقت کے استعمال سے آئینی مینڈیٹ میں ڈینٹ ڈال کر اسے ناکارہ بنانے کا کام کر سکے۔
بے رحم سرمایہ داری کے ہاں اقتدار کے قبضے کے تمام جواز بے شک غیر انسانی ہیں، لیکن انہیں ’قانون‘ کے مقدس کپڑے میں لپیٹ کر عوامی سطح پر منتشر معاشروں میں قابل قبول بنایا جاتا ہے۔ آئینی پارلیمنٹ کی قابل قبول شکل کے خلاف، اس کی ”مقبول بیان بازی“ کے پیچھے کسی منتظم پارٹی کے بجائے ایک ”منتشر ہجوم“ کا ہونا کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔
حقیقی تبدیلی کے سیاسی شعور سے لیس پارٹی کارکنان کے بجائے سیاسی طور پہ کنفیوز اور منتشر عوام کے اجتماعی غم، غصے اور ناراضگی کو ”قابض طاقت“ کے اندرونی یا بیرونی مرکز سے نمٹنے کے بجائے سوشل میڈیا اور کنٹرولڈ میڈیا کے نام پر ’جھوٹے شعور‘ کا زہر گھول دیا جاتا ہے
پاپولسٹ پالیٹکس میں ’مقبولیت‘ کا یہ المیہ ہے کہ وہ سماج کے تاریخی سیاسی شعور سے نا آشنا ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نئے سماجی نظام میں، جہاں ڈیجیٹل انقلاب نے انسانی شعور کو شکست دے کر پچھاڑ دیا ہے۔ مصنوعی ذہانت نے انسانی ذہانت اور انسانی تخیل کو شکست دی ہے، وہیں ’فوری انقلاب‘ کے خواہشمند بھی حقیقی انقلابی جماعتوں کی تنظیم سازی سے گریز کرتے کسی بھی ہجوم کو انقلابی سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ اس لیے جہاں تبدیلی کے لیے حقیقی سیاسی شعور کو استعمال کرنے سے قاصر سماج کو بے لگام ’ہجوم‘ نے یرغمال بنا رکھا ہے وہاں سیاست اور تبدیلی کے نام پہ میں ایسے سانحات جنم لیتے ہیں جو سیاسی تاریخ میں ستم ظریفی کے المناک باب کے طور پر زندہ رہتے ہیں۔
چیکو سلواکیہ کا ویلوٹ انقلاب، پرپل انقلاب، یوکرین کا نارنجی انقلاب، جارجیا کا گلابی انقلاب (روز ریوولوشن) یا یوگوسلاویہ کا بلڈوزر انقلاب، ان کو سرمایہ دارانہ استعماریت کے کیے آلہ کار طور پہ استعمال کیا گیا۔ اگرچہ یہ سوویت یونین کا زوال تھا، لیکن درآمد کا طریقہ وہی ہے، اور ان نیلے، پیلے، گلابی یا رنگیلے انقلابات سے دو قطبی دنیا (سوشلسٹ دنیا/سرمایہ دارانہ دنیا) کو ایک ہی ضرب سے ختم کر دیا گیا، اور یوں رنگارنگی انقلابات سے یک قطبی دنیا میں سرمایہ داری کی راہیں مزید آسان ہو گئیں۔
سخت گیر، یک جماعتی آمرانہ ریاستیں نو لبرل معیشت کی عالمگیریت میں رکاوٹ تھیں۔ افغانستان میں طالبان کے سبز انقلاب سمیت مشرقی یورپ کی سخت گیر ریاستوں کے اندر تحریک کو ’رنگین انقلاب‘ کا دلکش نام دے کر متعارف کرایا گیا
ان تبدیلیوں کو قبول صورت بنانے کے لیے مزید رومانوی اصطلاحات مارکیٹ میں لائی گئیں۔ اس طرح جامنی، گلابی، سبز اور نارنجی انقلابات نے سخت گیر، یک جماعتی آمرانہ ریاستوں کو کچل دیا۔
ہمارے جیسے ابھرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک میں، جہاں کوئی معاشی ترقی کی صورت نظر نہ آتی، سیاسی اور معاشی نظام کی جڑیں مضبوط نہیں تھیں وہاں فوجی وردیوں کو ڈائریکٹ اقتدار سونپا گیا تھا۔
اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کی سیاسی ہلچل کا آغاز مصر کے تحریر اسکوائر پر کئی روزہ احتجاجی دھرنے کے خاتمے سے ہوا۔ یہ حسنی مبارک کی آمرانہ حکومت کے خلاف ”رنگیلے انقلاب“ کی طرز پہ عوامی احتجاج کا اختتام تھا، ۔ جس نے گیارہویں روز قاہرہ کے تحریر اسکوائر پر عوامی دھرنے کی شکل اختیار کر لی اس دھرنے نے بظاہر حسنی مبارک کو اقتدار چھوڑ کر جیل جانے پہ مجبور کیا لیکن اقتدار کی منتقلی سے مصر کے عوام کے لیے زیادہ اچھی خبریں نہیں آئیں کیونکہ اقتدار مبارک حسین سے ملٹری کونسل کو منتقل کر دیا گیا تھا۔
تحریر اسکوائر کی ”عوامی مقبولیت“ ابھی دم توڑ نہیں پائی تھی کہ تیونس میں ایک معذور شخص کے سبزی کے ٹھیلے الٹنے کے خلاف عوامی احتجاج سے ”عرب اسپرنگ“ (یعنی عرب میں آنے والی بہار) کا آغاز ہوا۔
عرب بہار کو ’عرب اسپرنگ‘ کا نام دے کر قذافی کے قصے کو تمام کیا گیا اور اپنے طور پر ایک مصنوعی مقبولیت سے شام، عراق، یمن اور پورے مشرق وسطیٰ میں سیاسی اتھل پتھل کے ذریعے سیاسی قوتوں کے بجائے پرتشدد گروہوں کو مضبوط کیا گیا۔
شخصی آمریت پر مبنی حکومتیں، جو پرانی دو قطبی دنیا میں سرمایہ دارانہ جمہوریتوں کی آڑ میں مغربی دنیا کی ایکویشن میں نہیں آ رہی تھیں ان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دولت اسلامیہ تک سے کام لیا گیا۔
معمر قذافی کے قصے کو تمام کیا گیا مگر شام میں دولت اسلامیہ یعنی داعش کو سرگرم رکھا گیا تاکہ بشار الاسد کی حکومت کو غیر مستحکم کیا جا سکے۔
مغربی سرمایہ دار بلاک نے ناٹو کے ذریعے فوجیں براہ راست عراق میں اتار دیں۔
مطلوبہ تبدیلی کے لیے البتہ ایران میں ہاتھ نہیں ڈال سکے، کیونکہ وہاں رفسنجانی کے دور سے لے کر ”عورت، زندگی، آزادی“ کے نام پہ ابھرنے والی نوجوانوں کی تمام تحریکوں سے نمٹنے کے لیے ریاستی اداروں کی مضبوط گرفت تھی۔ اور ایران میں ریاستی جبر کے بے دریغ استعمال سے نوجوانوں کی مزاحمت کو کچل دیا گیا۔ تاہم ایران میں اس قسم کی حکومتوں کی موجودگی اسرائیل کے مفادات کو تقویت دینے کا جواز بخشتی تھیں اس لیے ایران کو صرف معاشی پابندیوں تک ہی محدود رکھا گیا۔
شام میں اینٹ سے اینٹ بجانے اور دمشق کو راکھ کا ڈھیر بنانے کے باوجود شامی صدر بشار الاسد کو اپنی موجودگی کے جواز کے طور پہ سلامت رکھا گیا۔
پاکستان اور بنگلہ دیش میں فوجی آمریتوں نے بھی اس استعماری قبضہ گیری کو آگے بڑھانا آسان بنا دیا۔
نسلی/قومی طور پر منقسم سیاسی قیادت اور پارلیمانی جمہوریت میں الگ الگ پاکٹس سے نمٹنے کے بجائے کسی ایک طاقت سے نمٹنا آسان تھا اس لیے فوجی آمریتیں انہیں زیادہ آسان لگتی تھیں۔
یقیناً اس خطے میں چینی سرمائے کی موجودگی مغربی بورژوا جمہوریتوں اور نو لبرل معیشت کے لیے اچھا شگون نہیں تھیں، اس لیے افغانستان میں طالبان کی موجودگی میں پاکستانی طالبان کی کی پراکسیز کا استعمال ان کے لیے مزید آسان تھا۔
پاکستان کی کثیر النسلی ریاست میں سبز اور رنگین انقلاب یا سرخ اور سبز انقلاب کے لیے حالات آسان نہیں ہیں۔ پاکستان میں یک نسلیت یعنی ایک ہی قوم نہ ہونے کی وجہ سے پاپولسٹ سیاست کے جوڑ توڑ کا تجربہ باقی سیاسی طریقوں کی نسبت آسان تھا۔ چنانچہ دو دہائیوں کی کوششوں کے بعد بالآخر پاکستان میں مقبولیت کے نام پر ’بے لگام ہجوم کی طاقت‘ کا ماحول بنایا گیا۔ مصنوعی مقبولیت سے پوسٹر بوائے کو پاپولر لیڈر شپ کا نام پاپولزم کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔
انہیں پاکستان میں اس پوسٹر بوائے پاپولسٹ قیادت کو لانے سے پہلے بے نظیر بھٹو کو بھی راستے سے ہٹانا پڑا۔ سیاسی جماعتوں نے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تصادم سے گریز کرتے ہوئے سیاسی مفاہمت کا راستہ اختیار کر کے طور پر ’میثاق جمہوریت‘ اور ’اٹھارہویں ترمیم‘ کے خاتمے کے بعد پارلیمانی جمہوریت کا راستہ یقینی طور پر ہموار ہوا جس کو ہضم کرنا مقتدرہ کے لیے اتنا آسان نہ تھا اس لیے پوسٹر بوائے والی مقبول قیادت سے ناکام دھرنے کو مصنوعی طور پہ عوام کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ مصنوعی دھرنا دیا گیا۔
اس وقت بھی سیاسی پختگی سے کام لیتے ہوئے پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے اقتدار کی منتقلی کے لیے کسی بھی بیرونی دباؤ قبول کرنے کی بجائے ماورائے آئین اقتدار کی تبدیلی والے امکان کو یکسر مسترد کر دیا۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے کرین کے ذریعے پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی کوشش کے سین، اور اس کے احاطے اپنے زیر جامہ کپڑے سکھانے سے لے کر، پی ٹی وی کی عمارت پر قبضے کے مناظر اور بنگلہ دیش کے موجودہ منظر تقریباً ایک جیسی تصویر پیش کر رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ خان صاحب مطلوبہ ہجوم اکٹھا نہ کرنے کے باعث وزیراعظم ہاؤس پہ حملے جیسی سازش میں کامیاب نہیں ہوئے۔ مگر بلاشبہ یہ یک قطبی دنیا میں سیدھا مارشل لا لگانے کے بجائے پارلیمانی جمہوری، منتخب حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے اور انہیں گھر بھیجنے کا نیا طریقہ کار تھا۔
دیکھا جائے تو 9 مئی کو لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ، جناح ہاؤس، کی ’لوٹ مار‘ اور شیخ حسینہ واجد کے گھر کی لوٹ مار کے مناظر تقریباً ایک جیسے ہیں۔ اور اس پہ بھی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اسی قسم کی پاپولسٹ سیاست کے فین کلب کے علاوہ کسی اور سیاسی گروہ نے بنگلادیش میں شیخ مجیب الرحمان کے مجسمے پہ موتنے اور شیخ حسینہ واجد کے زیر جامہ برا اور ساڑھی کی نمائش پہ خوشی کا اظہار نہیں کیا۔
یہ آرٹیکل دراصل اسی طریقہ کار کی وضاحت ہے، جس میں ”عوامی مقبولیت“ کے نام نہاد بیانیے کو کو آئینی/جمہوری اداروں سے منتخب حکومتوں کو غیر آئینی/غیر پارلیمانی طریقے سے اقتدار ہٹانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس نئے وضع کیے ہوئے طریقہ کار میں ”لوگوں میں مقبول“ اور ”غیر مقبول“ جیسے بیانیے کو کو عمل میں لایا جاتا ہے۔ اس طرح درآمد کی سیاسی اصطلاح میں پاپولر بیانیہ (مقبول قیادت) بنا کر اسے عوام کی ترجمانی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
پاپولسٹ سیاست میں عوامی مقبولیت کو ’صحیح سیاسی نظریہ‘ یا ’درست سیاسی قدم سمجھنا‘ اور اخلاقی طور پر اسے اقتدار کے قابل سمجھنا دراصل ”جھوٹا اور جعلی سیاسی شعور“ ہے جو سیاسی جدوجہد کے برعکس سوشل میڈیا کے ذریعے مصنوعی طور پر تیار کیا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں اس مصنوعی طریقے کے نٹ بولٹ پہ قابو پانے کے لیے ریاستی اداروں کی جانب سے ایک مقبول جماعت کے پروپیگنڈا سیل پر بار بار چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
جیسا کہ ہر سیاسی نظریہ کو سمجھنے کی اپنی خصوصیات ( characteristic ) ہوتی ہیں۔ پارلیمانی جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے اس خطے میں جو پاپولسٹ سیاست متعارف کرائی گئی، اس میں یہ تمام خصوصیات بخوبی دیکھی جا سکتی ہیں۔
یاد رہے کہ پاپولسٹ سیاست میں کسی بھی تسلیم شدہ پارٹی اور منشور کی بجائے پرسنیلٹی کلٹ اور کچھ مشہور اور مقبول لوگوں پر مبنی قیادت ہوتی ہے، جو پارٹی پالیسی کا تعین کرتی ہے۔ ان کے پاس ایک منظم سیاسی کیڈر اور تنظیم کے بجائے، ان کے پاس لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے، جو دراصل پارٹی کے پروگرام یا پارٹی پالیسی کے بجائے ”دلکش، خوبصورت، اچھی نظر آنے والی، اسٹائلش قسم کی لیڈر شپ“ کا فین کلب ہے۔
شخصیت پرستی پہ مبنی پرسنالٹی کلٹ کے فین کلب کے کچھ دلکش عوامی نعرے ہیں، جنہیں وہ ساری زندگی ’سیاسی پروگرام‘ سمجھنے کی غلطی کرتے ہیں۔
پوری دنیا کی بات کو چھوڑیں، اس ہمارے خطے میں سیاسی نظریات پر مبنی پارٹیوں کا دور رہا ہے، جو سوشلزم یا سرمایہ داری کی نمائندہ جماعتیں سمجھی جاتی تھیں۔ اس کے بعد عوامی سیاسی جماعتوں کا دور آیا، جس میں پارٹی پروگرام کی تعریف معاشی نظام سے جڑی ہوتی تھی۔
آج کا دور سوشل میڈیا کے ذریعے تخلیق کیے گئے مٹھی بھر لوگوں کے ایجاد کردہ پاپولسٹ بیانیے کا ہے جس میں نظریہ، پارٹی یا تنظیم سازی یا سیاسی پروگرام کی ذرہ برابر بھی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ دراصل شخصیت پرستی میں مبتلا کچھ گروہ، سستی جذباتیت پہ مبنی عوامی نعروں کی سطح پر مبنی بیانیہ بنانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
پاپولسٹ سیاست کی خصوصیات درج ذیل ہیں، جسے سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی امنگوں کی نمائندگی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
1) کرشماتی قیادت: پرسنالٹی کلٹ کو لیڈر شپ کے نام پر پروان چڑھایا جاتا ہے : جیسے معجزاتی مسیحا، خدا کا خاص چنا ہوا بندہ، لاپرواہ، نڈر، خوبصورت، سجیلا، ایماندار، قومی فخر، ہمارے پاس خوبصورت، سمارٹ، دلفریب و دلکش جیسی خصوصیات کا ذکر بھی عام ہے۔ قائدانہ خصوصیات کی علامت بھی سمجھی جاتی ہے۔
( 2 ) اشرافیہ مخالف جذباتی پن: پاپولسٹ سیاست میں یہ معروضی نظریہ دیا جاتا ہے کہ یہ عام لوگوں کے معیارات پر کھڑی ہے اور سماجی اشرافیہ کے خلاف ہے (حقیقت میں، ریاستی اشرافیہ کی خفیہ طاقت کے پاؤں میں بھٹے نظر آتے ہیں پاؤں ) لیکن اشرافیہ مخالف جذبات کو ابھار کر عوام کو اکسایا جاتا ہے جبکہ ان کی اپنی قیادت سیکیورٹی کے نام پر اشرافیہ سے زیادہ پروٹوکول وصول کرے گی۔ (پاکستان میں اشرافیہ مخالف عوام کو بنی گالہ سے وزیراعظم ہاؤس تک جانے کے لیے ہیلی کاپٹر پہ کوئی اعتراض نہ تھا)
3) قومی فخر/جذبہ: پاپولسٹ سیاست قومی اور مذہبی فخر کو فروغ دینے کے بارے میں ہے (پاکستان جیسے ممالک میں، پاپولسٹ قیادت بھی مذہبی جذبات کو بھڑکانے کا کام کرتی ہے ) جیسے اقلیتوں کا مذاق اڑانا/دشمن ملک کا مذاق اڑانا اور عظیم ہونے کا بہانہ کرنا۔ اور قوم کو عظیم اور اعلیٰ ترین مذہب کا نمائندہ ثابت کرنا۔ کافر اور سچے مسلمان بیہودہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین مذہبی آیات پہ مبنی نعروں کو کرانا وغیرہ وغیرہ
( 4 ) سطحی جذباتی زبان کا استعمال: پاپولسٹ سیاست میں پاپولسٹ قیادت تمام مخالفین کے لیے توہین آمیز زبان بول کر دوسرے سیاسی مخالفین اور ناقدین کی تذلیل کر کے عوامی جذبات کو بھڑکاتی ہے۔ مخالفین کو نیچا دکھانے سے سیاسی بحث کے بجائے بازاری زبان کے استعمال سے بپھرے ہوئے ہجوم کے کیے تسکین کا تاثر پیدا کیا جاتا ہے۔
5 ) سیاسی اداروں پر تنقید: پاپولسٹ سیاست میں پاپولسٹ لیڈر شپ ریاستی اداروں میں ایک ایک کر کے پارلیمنٹ، عدلیہ، مقننہ اور پریس سے لے کر فوج تک ہر ادارے کے ساتھ تضحیک آمیز طنزیہ رویہ اپناتی ہے، اور ن کے خلاف عوام کے جذبات بھڑکانے کا کام کرتی ہے اور دوسری جانب وقت آنے پر انہی اداروں سے اقتدار کی سودے بازی کی جاتی ہے۔
( 6 ) پاپولسٹ لیڈرشپ میں مطلق العنانیت: پاپولسٹ سیاست میں لوگوں کو لچک کی بجائے قائد کی مطلق العنانیت سے بھرپور رویے کی تعریف کرنے اور ان کی پیروی کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ پاپولسٹ سیاست میں مطلق العنانیت کو ایک مثبت رویہ / رویہ سمجھا جاتا ہے۔ نہ جھکنے والا اور نہ بکنے والا قسم کے نعرے استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ جمہوری روایت میں اس کے برعکس سیاسی مکالمے اور اختلاف رائے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے گفت و شنید کے ذریعے سیاسی موقف کو سامنے رکھا جاتا ہے۔
( 7 ) ماضی کا سرور: پاپولسٹ سیاست میں ماضی کو غیر ضروری مبالغہ آرائی کے ساتھ مقدس بنا کر پیش کیا جاتا ہے، چاہے اس کی بنیاد مذہبیت پر ہو یا معروضی تاریخیت پر۔ تاریخی حقائق کے بجائے دیو مالائی کہانیاں گھڑ کر عوام کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ پھر جھوٹا وہم پیدا کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ان کو ایمان کی حیثیت دیتے ہوئے تقدس کا چادر اس حد تک پہنایا جائے گا کہ لوگ ان کی پوجا کریں
( 8 ) معاشی یا سیاسی پروگراموں کے بجائے اخلاقی/مذہبی اہداف: عالمی معیشت اور سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے حل تلاش کرنے کے بجائے، انتہائی آسان حل پیش کیے جاتے ہیں، جیسے کہ صفر بدعنوانی، ایماندار، پختہ مذہب وغیرہ۔
( 9 ) ہم بمقابلہ وہ: پاپولسٹ سیاست میں اپوزیشن/مخالف پارٹی یا اختلاف رائے کا کوئی تصور نہیں ہوتا، سیاسی مکالمے کی کوئی روایت درست نہیں سمجھی جاتی۔ بلکہ سیاست سمجھنے کے بجائے اسے حق و باطل کے آخری معرکے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جس میں مخالف فریقین/ افراد/ اداروں کو باطل (طاغوتی قوتیں ) سمجھا جاتا ہے اور عوامی جذبات کو شدید نفرت کی سطح پہ ابھار کر مخالفین کے ساتھ مسلسل لڑائی پر اکسایا جاتا ہے۔ اپنے آپ کو حق/سچائی/دیانت و دیانت کے اعلیٰ مقام پر فائز کر کے مسیحا/مجاہد کا تصور دیا جائے گا، بقائے باہمی یا سیاسی رواداری کی گنجائش نہیں رہے گی، مخالف کو ہمیشہ شدید ترین دشمن ہی سمجھا جائے گا۔ اس کے ذاتی کردار، سیاست، خاندان، گھر کو نشانہ بنانا اور اس سے جڑی ہر چیز کی تذلیل کرنا ان کا بنیادی سیاسی مقصد ہوتا ہے۔ پاپولسٹ قیادت کا فین کلب سیاسی بحث کے بجائے منطق/دلیل کو ترجیح دیتا ہے، تکبر، تذلیل اور آمنے سامنے لڑائی پر ہر وقت آمادہ رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاپولسٹ سیاست کا اکثر ’گٹر ماؤتھ‘ (گندی زبان) والوں کی قیادت سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔
اگرچہ بنگلہ دیش کے موجودہ عروج کے پیچھے کوئی پاپولسٹ قیادت نہیں ہے، لیکن پاپولسٹ سیاست کے تمام خد و خال اس احتجاجی تحریک کا حصہ تھے، جس کے ساتھ منتخب وزیراعظم کو استعفیٰ دینے اور ملک کا وزیراعظم بننے کے لیے صرف 45 منٹ کا وقت دیا گیا تھا۔
یہ درست ہے کہ شیخ حسینہ کے پاس حکمرانی کا کوئی انقلابی ماڈل نہیں تھا اور نہ ہی ایسا ہے کہ اتنے سال اقتدار میں وہ کوئی سیاسی غلطی یا بڑی غلطیاں نہ کر چکی ہوں مگر اچانک وردی والی قوت کی جانب سے پون گھنٹہ دے کر گھر خالی کروانا، اور پھر عوامی فتح کا منظر بنا کر اس میں حقیقی رنگ بھرنے کے لیے جیسے وزیراعظم ہاؤس کو لوٹ مار کے لیے کھلا چھوڑ دینا اسی پاپولسٹ طریقہ کار کا ہی ٹیکسٹ ہے۔
وزیر اعظم ہاؤس میں منتشر ہجوم کو گھسنے کی کھلی چھٹی دینا کہ ملک کے کی بیٹی کے برا اور انڈرویئر لے کر بے شرمی سے سڑکوں اور چوراہوں پہ لہراتے پھریں یا بنگلا دیش کے بانی کے بنگلہ بندھو کے مجسمے پہ موتتے نظر آتے یہ عوامی فتح کا منظر نہیں تھا، بلکہ یہ مخصوص گروہ کی طویل عرصے تک اقتدار سے محرومی کا بدلہ تھا۔
دی پیپل بمقابلہ رولنگ ایلیٹ جیسے منظر کے پیچھے ایک متن واضح تھا۔
”غیر مرئی طاقت بمقابلہ جمہوریت“
یہ ”پارلیمانی جمہوریت بمقابلہ غیر منتخب اقتدار“ کی آڑ میں حکمران اشرافیہ کے خلاف عوام کا مظہر معلوم ہوتا ہے۔
جس میں پارلیمانی جمہوریت کی شکست کو عوام کی جیت کے بجائے غیر منتخب طاقتوں کی فتح سمجھا جائے.
بشکریہ ہم سب
یہ آرٹیکل اصل میں ہم سب پر شاٸع ہوا ہے۔ہزارہ ایکسپریس نیوز ہم سب کے شکریہ کے ساتھ اپنے قارٸین کے لٸیے شاٸع کر رہا ہے۔