اللہ تعالی کی موجودگی کا احساس جہاں اس کی تخلیق کردہ کائنات،اس کا حسن و جمال اور سحر انگیزی مختلف قسم کے درختوں، سرسبز و گھنے جنگلات، شفاف و گنگناتی آبشاروں، جھرنوں،گہرے سمندروں، داستان سناتی وادیوں اور ٹھاٹیں مارتے اورشور مچاتے دریاؤں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے وہیں یہ سب مل کر ایک طلسماتی دنیا تخلیق کر کے دیکھنے والوں کو محظوظ کرتے ہیں.پانی جو کہ زندگی کا جوہر ہے اور دریا اس کا اظہار ہیں. اس دنیا میں ہزاروں دریا نہ صرف جانداروں کے لیے لائف لائن ہیں بلکہ ان کی موجوں کی مدھر موسیقی،روانی کا حسن، رزق، سکون اور الہام کا منبع ہیں.
دریائے سرن مانسہرہ کی ایک شاندار اور پرشکوہ آبی گزرگاہوں میں سے ایک ہے. جو اپنی مختلف رنگوں ، ساخت اور دلکش آوازوں سے دل و جان کو مسحور کر دیتی ہے وہیں اس کے ہر سو پھیلے سبزے،پانی کی لہروں کی سرگوشیاں اور ان کی مدھر موسیقی،نیلم اور ہیرے کی مانند چمکتے پتھر اور بلند و بالا پہاڑوں کی آغوش میں خوبصورت وادیاں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ فطرت کی تمام تر رعنائیاں یہاں سمو دی گئی ہیں. ایک اندازے کے مطابق یہ دریا 128 کلومیٹر لمبا ہے جو ہزارہ کی دلکش وادی بھوگڑ منگ کے شمال میں واقع موسی کے مصلی اور کھنڈہ گلی کی چوٹیوں,کھوڑی مالی ببیال اور بٹیاڑ کی دودھیا آبشاروں اور اردگرد برفانی پہاڑوں سے نکل کر ڈھور ,منڈہ گچھہ اور سرن ویلی کے درجنوں ندی نالوں کو اپنی آغوش میں سمیٹ کر تناول سے ہوتا ہوا تربیلہ جھیل میں گم ہو جاتا ہے اور دریائے سندھ کے ساتھ یکجان ہو جاتا ہے.
دریائے سرن قدیم تہذیبوں کا گہوارہ ہے. قدیم زمانے میں اسے نقل و حمل کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا تھا. یہاں کے محنت کش اور جفاکش لوگ لکڑی، خشک میوہ جات اور دیگر مصنوعات کو دوسرے شہر بھیجتے اور نمک، کپڑا اور معدنی تیل کو مارکیٹ تک پہنچاتے تھے. یہاں کی زرخیز مٹی سے دیسی لوبیا، چاول، مکئی، ٹماٹر,پیاز ,لہسن ,تمباکو اور دیگر سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں. اور سب سے اہم وادی سرن کے یخ بستہ پانی میں پاٸی جانے والی پروٹین، وٹامنز، معدنیات اور اومیگا تھری سے بھرپور ٹراؤٹ مچھلی بہت اہمیت کی حامل ہے. یہ علاقہ معیشت اور ثقافت میں بہت اہم مقام رکھتا ہے.
مانسہرہ جو کبھی اپنے قدیم قدرتی حسن کے لیے مشہور تھا، اب خطرناک حد تک ماحولیاتی بحران سے دوچار ہے ,کچھ سالوں سے یہاں بہت سی بیرونی اور اندرونی تبدیلیاں اس کے حسن کو گرہن لگا رہی ہیں.دریاۓ سرن کے زوال کے اثرات دور رس اور کثیر جہتی ہیں۔پانی کی کمی ایک تلخ حقیقت بن چکی ہے،جس سے آبپاشی، پینے کے پانی کی فراہمی اور صنعتی استعمال متاثر ہو رہا ہے۔پانی کے کم بہاؤ میں مرتکز آلودگی پانی کو ذیادہ زہریلا اور انسانی صحت اور ماحول کے لیے نقصان دہ بنا رہی ہے۔ دریا کے کنارے تجاوزات کی زد پر ہیں مسلسل کٹاو جاری ہے، جس سے زمین کی تنزلی اور تلچھٹ مین اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف ارد گرد کی بڑھتی ہوئی آبادی ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے. اس آبادی کے رہن سہن اور کھانے پینے کے لیے جنگلات کا بےدردی سے قتل کیا جا رہا ہے. زراعت کے لیے بھی بھاری مقدار میں پانی کی ضرورت دریائے سرن کو مزید سکیڑ رہی ہے. جنگلات کی کٹائی سے بارش کے معمولات میں حد درجہ فرق آیا ہے، جس کے نتیجے میں زیر زمین پانی کی سطح میں کمی آ رہی ہے. اور اب یہی زیرِ زمین پانی باسیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے. بہت سی ماحولیاتی تبدیلیاں جن میں عالمی درجہ حرارت میں اضافہ، فضا میں آبی بخارات کا اضافہ دریائے سرن کو مزید گھٹن زدہ بنا رہی ہیں.
سرسبز وادیوں کے درمیان دریائے سرن جو کبھی آب حیات کے طور پر کام کرتا تھا، اب وہ جانداروں کے لیے موت کا پروانہ بنتا جا رہا ہے. انسانی آبادیوں کا ناقص فضلہ اور گندگی نالیوں کی صورت میں سرن میں انڈیلے جا رہے ہیں جس کی بدولت دریائے سرن آلودہ ہو رہا ہے. ایک وقت تھا جب دریائے سرن کا پانی جانداروں کے لیے اکسیر کی مانند تھا اور اب مچھلیوں کے لیے جگہ جگہ کرنٹ اور کیمیکلز کا استعمال کیا جا رہا ہے جس سے ایک لائف لائن کے بجائے جنازہ گاہ بن چکا ہے. ماہر تحقیق نے جب پانی کی جانچ پڑتال کی تو معلوم ہوا کہ مقامی لوگ کیرورین کیمیکل کا استعمال کرتے ہیں جس سے پچھلے کئی برس سے نایاب مچھلی کی نسل کشی ہو رہی ہے اور پانی بھی زہر آلود ہو چکا ہے. یہی کیمیکل پانی کے ساتھ رواں دواں تربیلہ تک پہنچ چکا ہے اور وہاں بھی اپنے اثرات مرتب کر رہا ہے. اسی طرح دریائے سرن جو کبھی زندگی کی بقا کا ضامن تھا، بہت سے جانداروں کا بچھونا تھا، آج خود اپنے مکینوں سے جدائی میں سکڑتا جا رہا ہے.
ان تمام مسائل کے پیش نظر حکومت کو فوری طور پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے. سکڑتا ہوا دریاۓ سرن فوری ایکشن کا مطالبہ ہے۔ہمیں اس بحران کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے اور پائیدار حل کے لیے کام کرنے کے لیے اکٹھا ہونا چاہیے۔ آلودہ پانی کے مسلے کو حل کرنے کیلیے ٹریٹمنٹ پلانٹس نصب کرنے چاہییں۔ ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب سے نہ صرف آلودہ پانی کی صفائی ممکن ہے بلکہ اس سے حاصل صاف پانی استعمال بھی کیا جا سکے گا. کیڑے مار ادویات اور مچھلیوں کو مارے جانے والے کیمیکلز کے استعمال کو بروقت روکا جائے اور قانونی کاروائی کی جائے. جنگلات کی کٹائی کو روک کر ہم ماحولیاتی تبدیلی میں مثبت فرق لا سکتے ہیں اور اس سے قدرتی توازن بھی برقرار رہے گا. پانی جیسی نایاب دولت کو بچانا ہم سب کا قومی فریضہ ہے آئیں ہم سب مل کر عہد کریں کہ دریا کو ویسے ہی صاف، پانی کو محفوظ اور فطرت کو حسین بنائے گے جیسے ہمارے پرکھوں نے ہمارے حوالے کیا تھا
بسمہ شفیق گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مانسہرہ کے شعبہ انگریزی میں ساتویں سمسٹر کی طالبہ ہیں.بسمہ کو ادب، سیرو سیاحت اور دنیا کو جاننے کا بہت شوق ہے۔بسمہ ہزارہ ایکسپریس نیوز کے لیے لکھتی ہیں۔