Skip to content

پاکستان کی سب سے بڑی سیاحتی انڈسری گزشتہ پانچ دنوں سے ایک نالے پہ قائم پل کے ٹوٹنے سے مفلوج ہو کر رہ گئی ہے

شیئر

شیئر

بالاکوٹ اور ناران کو آپس میں ملانے والا مہانڈری کا پل سیلاب کی نذر ہو گیا ، سیلابی ریلے نے ایک بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کیا ہے ، مہانڈری کا بازار اور لوگوں کی دکانیں گر چکی ہیں ، سیلابی ریلے سے دو لوگ جانبحق ہو گئے ، گزشتہ کئی روز سے مقامی لوگ تکلیف سے گزر رہے ہیں ، دو سال قبل بھی یہ علاقہ بارشوں سے متاثر ہوا تھا اور لوگوں کا جانی و مالی نقصان ہوا تھا ، دو سال کے عرصے میں انتظامیہ نے کچھ بھی نہیں کیا ، یہاں جو ادارے ہیں وہ نا اہلی کی مکمل داستان اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں

ناران کئی حوالوں سے دنیا میں منفرد مقام رکھتا ہے ، تاہم دو وجہوں سے اسے خصوصی اہمیت حاصل ہے ، اول دنیا بھر کے سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں ، سیاح کسی بھی ملک کا سفیر ہوتا ہے ، جب سیاح کسی جگہ سے خوش ہو کر جاتا ہے تو وہ دنیا بھر کو اس جگہ کا تعارف کرواتا ہے ، ناران کا تعارف دنیا بھر میں موجود ہے ، جب ناران جانے والا زمینی راستہ بارش کی نذر ہو جائے گا تو پھر سیاحت سے جڑے پیشے کو متاثر کرے گا ، سیاح متاثر ہوں گے ، کاروبار متاثر ہو گا ، لوکل افراد متاثر ہونگے ،

دو سال پہلے والے سیلابی ریلے کو سامنے رکھ کر جامع پالیسی بنائی جاتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ، کے ڈے اے جیسا نا اہل ادارہ صرف لوگوں کو تنگ کرنے اور کرپشن کرنے کے لیے ہی رہ گیا ہے ، ہزارہ ایکسپریس نیوز نے کے ڈی اے سے جب اس حوالے معلومات لینا چاہیں تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ،

جب ہزارہ ایکسپریس نیوز نے مقامی تاجروں اور شہریوں سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ دو سال قبل جب سیلاب آیا تو مہانڈری پل پر کچرا جمع ہو گیا تھا جسے کے ڈی اے نے اٹھانے کی زحمت نہیں کی ، اگر بروقت کچرا اٹھا لیا جاتا اور بیس فٹ اس جگہ کو مزید گہرا کیا جاتا تو آج پل سلامت ہوتا ، لیکن یہاں پیسے کے بغیر کوئی کام کا رواج ہی نہیں تو عوام یہ دن دیکھ رہی ہے ،

شہریوں کا کہنا تھا کہ ناران سکی کناری ڈیم کی وجہ سے بھی اہم ہے ، یہاں پاک فوج اور چائنز کام کر رہے ہوتے ہیں آج بھی جو کام ہو رہا ہے وہ فوج اور چائنہ کی مشینری کی وجہ سے ہو رہا ہے اگر سکی کناری ڈیم نہ ہوتا تو عوام کی کسی نے خبر نہیں لینی تھی ،

پاکستان کی سب سے بڑی سیاحتی انڈسری گزشتہ پانچ دنوں سے ایک نالے پہ قائم پل کے ٹوٹنے سے مفلوج ہو کر رہ گئی ہے ، سوال یہ ہے کہ آخر این ڈی ایم اے ، پی ڈی ایم اے ، این ایچ اے ، کے ڈی اے اور ضلعی و تحصیل انتظامیہ ، محکمہ سیاحت اور ٹیکس وصول کرنے والے دیگر درجنوں ادارے کس مرض کی دوا ہیں ؟ عوامی نماٸندے فوٹو سیشن کے بجائے ذمہ داروں سے سوال کرنے کی اہلیت کیوں نہیں رکھتے ؟

حالیہ بارشوں کی وجہ سے دو لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوئے ، پندرہ ہزارہ سیاح پھنس کر رہ گئے تھے ، مہانڈری بازار مکمل بند ہوا پڑا ہے ، کاروباری لوگوں کا کروڑوں کا نقصان کو چکا ہے ، کئی قیمتیں جانیں ضائع ہو چکی ہیں ؟ اسکا حساب کون دے گا ؟

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں