Skip to content

 ذہنی صحت — ایک ممنوعہ موضوع

شیئر

شیئر

ڈاکٹر جزبیہ شیریں

ہم روز کسی نہ کسی کی مسکراہٹ کے پیچھے چھپی اداسی کو نظرانداز کرتے ہیں۔ کوئی چپ چاپ دفتر جاتا ہے، کوئی یونیورسٹی میں لیکچر دیتا ہے، کوئی دوستوں کے ساتھ ہنستا ہے — اور پھر رات کو اپنے کمرے میں ایک خالی چھت تکتا رہتا ہے۔ ڈپریشن اسی کا نام ہے۔ نہ شور، نہ دھماکہ، بس اندر ہی اندر سب کچھ ٹوٹتا جاتا ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، وہاں اگر زخم دکھائی نہ دے، تو وہ مانا ہی نہیں جاتا۔ اور اگر کوئی کہہ بھی دے کہ وہ ٹھیک نہیں ہے، تو جواب اکثر یہی ہوتا ہے: "اتنی بھی کیا بات ہے؟ شکر کرو، سب کچھ تو ہے۔”

بس یہ "سب کچھ” ہی تو وہ قید ہے جس میں ہم نے خوشی، سکون، اور ذہنی سلامتی کو بند کر دیا ہے۔ ہم نے زندگی کو صرف کامیابی سے جوڑ دیا ہے، اور جو تھک جائے، رک جائے، یا گِر جائے، اس کے لیے نہ جگہ ہے نہ ہمدردی۔ ڈپریشن کو ہم آج بھی کمزوری، ایمان کی کمی، یا توجہ کی طلب سمجھتے ہیں۔ یہی سوچ ہے جو ان گنت لوگوں کو خاموش رہنے پر مجبور کرتی ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے دکھ کو سمجھنے والا شاید کوئی نہیں۔

ڈپریشن صرف اداسی نہیں ہے، یہ ایک کیفیت ہے جو جسم، دماغ، اور جذبات کو یکساں طور پر مفلوج کر دیتی ہے۔ نیند اُڑ جاتی ہے، دل گھبراتا ہے، اور سب کچھ بے معنی لگنے لگتا ہے۔ جو باتیں پہلے خوشی دیتی تھیں، اب بوجھ بن جاتی ہیں۔ انسان لوگوں سے کٹنے لگتا ہے، خود پر شک کرنے لگتا ہے، اور بدترین لمحے میں زندگی کو بے کار سمجھنے لگتا ہے۔

یہ مسئلہ خاص طبقے، عمر یا معاشی حالت سے وابستہ نہیں — یہ ہر کسی کو ہو سکتا ہے، اور ہو رہا ہے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ جو جتنا زیادہ "کامیاب” نظر آتا ہے، اس کے درد کو اتنا ہی جھوٹ مان لیا جاتا ہے۔ ڈپریشن ایک ایسی خاموش آگ ہے جو نہ صرف انسان کے اندر دھیرے دھیرے سب کچھ جلا دیتی ہے بلکہ اس کے چہرے پر ایک مصنوعی مسکراہٹ بھی رکھ دیتی ہے تاکہ کوئی پہچان نہ سکے کہ اندر کیا قیامت برپا ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں درد کی پہچان صرف زخم کے نشان سے کی جاتی ہے، اور جو تکلیف دکھائی نہ دے، اسے بہانہ، نخرہ یا کمزوری کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں "تمہیں کیا کمی ہے؟ سب کچھ تو ہے!” اور یہ "سب کچھ” سن کر وہ شخص مزید خاموش ہو جاتا ہے جو اندر سے کچھ بھی نہیں بچا ہوتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈپریشن صرف کمزور لوگ محسوس کرتے ہیں، حالانکہ اکثر وہ لوگ جو سب سے زیادہ ہنستے ہیں، سب کو سہارا دیتے ہیں، سب کے لیے مسکراتے ہیں، خود اندر سے سب سے زیادہ خالی ہوتے ہیں۔ اس بیماری کی سب سے بڑی بدقسمتی یہی ہے کہ یہ نظر نہیں آتی، اور جو دکھائی نہ دے، اس کے لیے مدد مانگنا بھی جرم بن جاتا ہے۔ معاشرہ اسے "ٹبُو” کہہ کر نظرانداز کرتا ہے، والدین اسے بددعائیں اور گناہوں کا نتیجہ سمجھ لیتے ہیں، دوست اسے ڈرامہ کہہ کر دور ہو جاتے ہیں، اور خود انسان خود کو سزا دینے لگتا ہے۔ ڈپریشن کی ایک اور ظالمانہ حقیقت یہ ہے کہ یہ انسان کو قائل کر لیتا ہے کہ وہ اکیلا ہے، کسی کو اس کی فکر نہیں، اور سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ ایسے میں تھراپی، مشورہ یا دوا کی بات کرنے سے پہلے بہت سے لوگ اپنی خاموشی میں دفن ہو جاتے ہیں۔ اور جب کوئی خودکشی کر لیتا ہے، تب جا کر ہم "کاش پہلے کچھ پتا چلتا” کہہ کر افسوس کرتے ہیں، لیکن تب تک سب ختم ہو چکا ہوتا ہے۔

  اسی تناظر میں پی ایچ ڈی کرنے والے طلباء کا معاملہ اور بھی حساس ہے۔

  ان کے لیے تو ڈپریشن ایک غیر تحریری جزوِ نصاب بن چکا ہے۔ برسوں کی تنہائی، تحقیق کا دباؤ، مالی غیر یقینی، اور بعض اوقات سپروائزرز کی بے رحمی، ان سب کو ملائیں تو ایک خاموش بحران جنم لیتا ہے، جسے کوئی "ریسرچ گَیپ” نہیں مانتا۔ یہ لوگ اکثر بہت کچھ سیکھ کر بھی اپنے دل کی سننے سے قاصر ہو جاتے ہیں، کیونکہ انہیں سکھایا ہی نہیں گیا کہ ذہنی صحت بھی ایک تعلیم ہے۔ ایسے میں ان کے لیے سب سے بڑی کامیابی صرف زندہ رہنا ہوتا ہے — سانس لیتے رہنا، دن گزار دینا۔ مگر نہ صرف ان کے لیے بلکہ ہر فرد کے لیے جو روز جی رہا ہے اور لڑ رہا ہے، یہ جاننا ضروری ہے کہ مدد مانگنا کمزوری نہیں، یہ پہلا قدم ہے بہتری کی طرف۔ ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہو گی، ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ دماغ کی بیماری اتنی ہی حقیقی ہے جتنی دل یا جگر کی

   ہمیں سیکھنا ہو گا کہ ڈپریشن ایک بیماری ہے — جیسے شوگر، بلڈ پریشر یا آرتھرائٹس — اور اس کا علاج ممکن ہے۔ تھراپی، کونسلنگ، بات چیت، اور بعض اوقات دوا — یہ سب مددگار ہو سکتے ہیں، اگر ہم ان کو اپنانے میں شرمندگی محسوس نہ کریں۔ مدد مانگنا کمزوری نہیں، بلکہ ہمت ہے۔

ہمیں خود کو، اپنے بچوں کو، دوستوں کو یہ سکھانا ہو گا کہ رونا شرمندگی نہیں، اور "ٹھیک نہ ہونا” بھی کبھی کبھار بالکل ٹھیک ہوتا ہے۔ آج کے دور میں جب ہر شخص ایک دوسرے سے مقابلے میں ہے، جب سوشل میڈیا پر ہر چہرہ کامیاب لگتا ہے، اصل بہادری یہ ہے کہ ہم اپنے اندر کے زخم دکھانے کی ہمت کریں۔ موٹیویشنل اسپیکرز ہمیں جیتنے کے راز بتاتے ہیں، مگر وقت آ گیا ہے کہ وہ ہارنے کے درد کو بھی سنیں اور سنائیں۔ کیونکہ اصل موٹیویشن وہی ہوتی ہے جو صرف آگے بڑھنے کی نہیں، بلکہ رکنے، گرنے، اور پھر آہستہ آہستہ سنبھلنے کی اجازت بھی دیتی ہے۔ اور شاید یہی احساس، یہی قبولیت، کسی ایک دل کو بچا سکتی ہے — یا پھر ایک مکمل زندگی کو۔

اگر آپ خود یا آپ کا کوئی قریبی شخص خاموش، تنہا، یا مسلسل اداسی میں مبتلا ہے تو صرف ایک جملہ کافی ہو سکتا ہے: "میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اکیلے نہیں ہو۔” یہ جملہ شاید دوا نہ ہو، لیکن درد بانٹ سکتا ہے۔

ہمارے اردگرد ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو جینے کے لیے لڑ رہے ہیں — کسی رشتے کے لیے، کسی خواب کے لیے، کسی خودی کی بقا کے لیے۔ ہمیں ان کی آواز بننا ہو گا۔ موٹیویشنل اسپیکرز ہمیں کامیابی کے راز سکھاتے ہیں، مگر اب وقت ہے کہ وہ شکست کی اذیت کو بھی بیان کریں۔ کیونکہ ہر جیتنے والا پہلے کبھی نہ کبھی گرا ضرور ہوتا ہے، اور اس گرنے کو قبول کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔

اگر آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں، اور دل کے کسی کونے میں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ زندگی بے رنگ، بے سمت سی لگ رہی ہے… ہر چیز بے جان ہے، اور دل کہہ رہا ہے کہ جیسے کچھ بھی معنی نہیں رکھتا… اور لگتا ہے کہ جیسے جینے کی کوئی وجہ کہیں کھو گئی ہے— تو بس ایک بات یاد رکھیں: آپ اکیلے نہیں ہیں۔ آپ کی خاموشی بے معنی نہیں، اور آپ کا وجود — اس دنیا کے لیے بے حد قیمتی ہے۔  

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں