تحریر: وحید مراد
تعلیم انسان کی زندگی کو سنوارنے اور معاشرے کو ترقی دینے کا ذریعہ ہے لیکن جب تعلیم کاروبار بن جائے تو اس کا مقصد صرف منافع رہ جاتا ہے ۔ آج کے نجی اسکولوں میں معیار تعلیم کا زوال اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔ والدین لاکھوں روپے ادا کرتے ہیں لیکن بدلے میں ان کے بچوں کو خوف، دباؤ، اور رٹّا کلچر کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اپنے بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں یا صرف امتحانات میں کامیابی کے ہنر سکھا رہے ہیں؟
کراچی میں ایک مشہور اسکول چین ایسی بھی ہے جو سال میں تین سے چار مرتبہ داخلے کرتی ہے نتیجتاً اس کی عمارتیں طلبہ سے جبکہ بینک اکاؤنٹس نوٹوں سے بھرے جا رہے ہیں۔ مسئلہ معیاری اسکولوں کی ضرورت کا نہیں بلکہ ترجیح کا ہے جو تعلیمی ترقی کے بجائے صرف فیسوں کے حصول پر دی جا رہی ہے۔
یہ اسکول دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے طلبہ کو ٹیوشن کی ضرورت نہیں پڑتی مگر حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ ٹیوشن انہی کے طلبہ لے رہے ہیں۔بس خفیہ طور پر! یہاں اساتذہ ہوم ورک کروانے کے نام پر بچوں کوزیادہ دیر تک "بیگار کیمپ” میں روکے رکھتے ہیں اور دھمکاتے ہیں کہ اگر کسی نے ٹیوشن لی تو اسکول سے نکال دیا جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے خوفزدہ ہو کر خفیہ ٹیوشن پڑھتے ہیں تاکہ اسکول کی نظروں میں بھی اچھے رہیں اور امتحان میں بھی پاس ہو سکیں۔
یہاں ریاضی پڑھانے والے اساتذہ کا نظریہ ہے کہ اگر ابتدا میں ہی تمام موضوعات پاسٹ پیپرز کے ذریعے پڑھا دیے جائیں تو بچے امتحان تک مہارت حاصل کر لیں گے۔ اسی فلسفے کے تحت اسکول اپنی ٹک شاپ پر مخصوص کتابیں فروخت کرتا ہے اور طلبہ کو انہیں خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے، مگر کلاس میں ان کا استعمال کیے بغیر پروجیکٹر پر چند سوالات اور ان کے حل دکھا دیے جاتے ہیں۔ چونکہ بنیادی تصورات نہیں سکھائے جاتےاس لیے یہ سب کچھ طلبہ کے لیے بے معنی رہتا ہے اور وہ رٹا لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
کلاس ختم ہوتے ہی گوگل کلاس روم پر ایک طویل ہوم ورک شیٹ بھیج دی جاتی ہےجس میں وہی مشکل پاسٹ پیپرز شامل ہوتے ہیں۔ اب ایک گریڈ 9 یا 10 کا طالب علم گریڈ 11 کے امتحانی سوالات کیسے حل کرے؟ جب وہ ناکامی کے خوف سے والدین کے سامنے رونے لگتا ہے تو والدین مجبوراً خفیہ طور پر کسی ٹیوٹر کے پاس لے جاتے ہیں تاکہ بچے کو رٹوا دیا جائے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اسکول کو خبر نہ ہو!
یہ سب اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ اسکول اپنے تمام دعووں کے برخلاف "رٹّا کلچر” کو فروغ دے رہا ہے۔ تعلیم کا مقصد محض امتحان پاس کرنا نہیں بلکہ سیکھنے کی حقیقی صلاحیت پیدا کرنا ہے۔ اگر کوئی تعلیمی ادارہ بنیادی تصورات سکھانے کے بجائے بچوں کو محض سوالات رٹوانے میں لگا دےتو وہ درحقیقت تعلیمی نظام کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
کئی اسکول ایسے ہیں جو گریڈ 10 اور 11 میں طلبہ کو ان کی پسند کے مضامین لینے کی اجازت تو دیتے ہیں مگر جب امتحانی فارم جمع کرانے کا وقت آتا ہے تو کمزور طلبہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی پسند کا مضمون فارم میں شامل نہ کریں تاکہ اسکول کے نتائج خراب نہ ہوں۔ نتیجتاً یہ طلبہ پرائیویٹ طور پر فارم بھرتے ہیں اور اگر ناکام ہو جائیں تو اسکول کی کارکردگی پر کوئی داغ نہیں لگتا۔ اس طرح اسکول "عمدہ نتائج” کا فریب دے کر نئے طلبہ کو لبھاتا رہتا ہے۔
مگر مذکورہ معروف اسکول چین نے اس سے بھی زیادہ غیر منصفانہ طریقہ اپنا رکھا ہے۔ یہ نہ صرف طلبہ سے دو سال کی فیس وصول کرتے ہیں بلکہ انہیں پرائیویٹ طور پر امتحان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ والدین خوفزدہ رہتے ہیں کہ اگر انہوں نے آواز اٹھائی تو ان کے بچوں کو اسکول سے نکال دیا جائے گا۔ اسکول انتظامیہ کا مؤقف یہ ہے کہ اگر کوئی طالب علم پرائیویٹ امتحان میں فیل ہوا تو یہ بات کہیں نہ کہیں ظاہر ہو جائے گی جس سے ان کے "نمبر ون رزلٹ” کے دعوے پر سوال اٹھے گا۔
ایک اور اسکول میں عجیب فیصلہ کیا گیا کہ کلاس 6 سے اولیول تک کے تمام درجات کے لیے علیحدہ کتابیں ختم کر کے صرف ایک ہی کتاب متعارف کروا دی گئی جو دراصل گریڈ 9، 10 اور 11 کے لیے لکھی گئی تھی۔ نتیجتاً، چھٹی اور ساتویں جماعت کے طلبہ کے لیے اس کے اسباق سمجھنا انتہائی دشوار ہو گیا ہے۔ اساتذہ نے اس کتاب کو "کتاب مقدس” بنا کر لاگو کر دیا ہے چاہے بچوں کی سطح کے لیے یہ موزوں ہو یا نہ ہو۔
تعلیم میں سیکھنے کے عمل کو آسان بنانے کے بجائے مشکل ترین راستے اپنانا جیسے ایک روایت بن چکی ہے۔ دنیا بھر میں طلبہ کی تیاری کے لیے Mock Exams کرائے جاتے ہیں، مگر یہاں معاملہ الٹ ہے۔ کراچی کے کئی اسکول جان بوجھ کر اتنے مشکل Mock Exams بناتے ہیں کہ 95 فیصد طلبہ فیل ہو جائیں۔ کچھ ریاضی کے اساتذہ نصابی کتابوں کو ہاتھ لگائے بغیر سپلیمنٹری سیزن کے مشکل ترین سوالات نکال کر پیپر میں شامل کر دیتے ہیں۔ پھر جب والدین اعتراض کرتے ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے "یہ سب بچوں کے فائدے کے لیے ہے، تاکہ وہ اصل امتحان سے پہلے خوفزدہ ہو کر مزید محنت کریں!”
یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی مجرم کو پھانسی سے پہلے کئی دن تک پھندے پر لٹکانے کی پریکٹس کرائی جائے تاکہ اصل سزا کے وقت وہ چیخے نہ! یہ سخت گیری بچوں میں سیکھنے کی لگن پیدا کرنے کے بجائے، خوف اور ذہنی دباؤ بڑھا دیتی ہے، جس کے اثرات زندگی بھر برقرار رہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی طلبہ اسکول سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں وہ اپنی کتابوں کو آگ لگا کر جشن مناتے ہیں کیونکہ ان کے لیے یہ جبر سے نجات پانے کا دن ہوتا ہے۔ وہ کتابوں کو دشمن سمجھنے لگتے ہیں اور کئی لوگ زندگی بھر دوبارہ انہیں ہاتھ تک نہیں لگاتے کیونکہ ان کے لیے تعلیم ایک ناخوشگوار یاد بن چکی ہوتی ہے۔
ہمیں کسی اسکول کے کمرشل ہونے یا اس کی وسعت پر اعتراض نہیں۔ نجی اسکولوں نے یقیناً بہتر تعلیمی مواقع فراہم کیے ہیں مگر توجہ صرف پیسہ بٹورنے کے بجائے اگر طلبہ کی حقیقی تعلیمی ترقی پر بھی دی جاتی تو یہ نظام کہیں زیادہ مؤثر اور فائدہ مند ثابت ہو سکتا تھا ۔ جاری ہے