کنعانِ آرزو/بلال اشفاق
معمولاتِ زندگی میں حالات سدا ایک جیسے نہیں رہتے اور کئی مواقع پر مختلف طرح کا طرزِ عمل اپنانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ بعض اوقات بالکل ایک جیسے الفاظ موقع محل کے اعتبار سے مختلف طرح کے معنی دیتے ہیں ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ الفاظ جو مذاق یا تنبیہ کے طور پر بولے جاتے ہیں لب و لہجے کی تبدیلی کے ساتھ وہی گالی میں بدل کر نوبت ہاتھا پائی اور بعض اوقات ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے تک پہنچا دیتے ہیں۔ زندگی میں کئی باتوں پر خاموشی اختیار کرنے انسان کو بڑے مسائل اور مزید پریشانیوں میں الجھنے سے بچا لیتے ہیں۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ معاملات میں خاموشی اختیار کرنا آپ کو مزید پریشانیوں اور بڑے مسائل میں دھکیل دیتا ہے۔
عرض کرنا یہ مقصود تھا کہ انسان کو موقع محل کے اعتبار سے خاموشی اختیار کرنی اور لب کشائی کرنا چاہیے ورنہ اُس کے مصائب اور آزمائشیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس کے برعکس چلتے ہیں اور جہاں خاموشی اختیار کرنا ہمارے حق میں بہتر ہو وہاں زبان درازی پر اُتر آتے ہیں اور جہاں آواز اُٹھانے اور بولنے کی ضرورت ہوتی ہیں وہاں لبوں کو سی لیتے ہیں اور اس کے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں اس پر دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے اور اسے قسمت کا لکھا مان لیتے ہیں۔ قسمت کے لکھے پر بھی کوئی شک نہیں لیکن انسان اپنا قسمت بھی خود تخلیق کرتا ہے اور رب کریم نے زندگی گزارنے کا جو طریقہ وضع کیا ہے ، اگر اُس پر چلنے کی سعی کی جائے تو انسان کی قسمت خود سنور جاتی ہیں اور اگر ہمارا طرز عمل اس کے برعکس ہو تو خرابی ہمارا مقدر بن جاتی ہے۔
اگر ہم اپنے معمولات کا از خود محاسبہ کریں تو ہمیں متعدد معاملات میں خرابی کا احساس ہوگا۔یہ وہی خرابیاں ہوں گی جن کا ہم دوسروں پر الزام دھرتے اور اُنہیں اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں ۔ لیکن اگر ہم ایمانداری سے اُن سب چیزوں کا جائزہ لیں تو اُن میں بیشترخرابیاں ہماری اپنی پیدا کردہ نظر آئیں گی۔ ان میں شاید چند ایک مسائل ہی ایسے ہو سکتے ہیں جن کی وجہ کوئی دوسرا ہو گا ۔ چاہے وہ دوسرے کی جانب سے انجانے میں یا جان بوجھ کر پیدا کیے گئے ہوں۔ لیکن اُس میں بھی اگر معاملہ فہمی سے کام لیا گیا ہوتا تو شاید وہ مسائل نہ کھڑے ہوتے۔
ممکن ہے بلکہ یقینا قارئین کو راقم کی اس بات سے اختلاف ہو گا کہ ایک انسان کیسے خود اپنے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے یا مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنی غلطی کو تسلیم کرنے یا اُسے صحیح کرنے کے بجائے غلطی پر ڈٹ جانے کو اپنی بہادری یا اپنے حق میں بہتر خیال کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسائل حل ہونے کے بجائے مزید گہرے اور پیچیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں اور ایک وقت ایسا بھی آتاہے جب وہ ناقابلِ برداشت بن کر رہ جاتے ہیں۔ اگر انہی خرابیوں کو بروقت دور کر لیا جائے تو شاید وہ اس قدر گمبھیر ہی نہ ہوں اور مزید خرابیوں کا بھی باعث نہ بنیں۔
اس کے علاوہ اگر کوئی شخص کسی خرابی یا مسئلے کی نشاندہی کی کوشش کرے تو یہ بھی گستاخی کے زمرے میں آتا ہے اور خود اُس شخص کے لیے مسائل کا باعث بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں کوئی کیسے یہ جسارت کر سکتا ہے کہ وہ مسئلے کی نشاندہی یا اُسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرے۔شاعر نے تو کہا ہے:
تیرے تکبر سے زیادہ گستاخ ہے میرا لہجہ
میرا ظرف نہ آزما مجھے خاموش رہنے دے
لیکن راقم نے شاعر کے اس سبق کے برخلاف اپنے معاشرے کی ان خرابیوں کی نشاندہی کی کوشش کی ہے۔ ایسی جسارت اکثر بلکہ بیشتر اوقات ہی مہنگی پڑتی ہے کیونکہ ہم میں سچ کہنے ، سننے اور آگے پہنچانے کا حوصلہ نہیں۔ اگر کوئی ایسی کوشش کر بیٹھے تو بقول شاعر:
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
تاہم عوام الناس کی ناراضگی کو مدِنظر رکھ کر سچ کہنا ترک کرنا کسی طرح بھی درست نہ ہو گا۔ فیض کہتے ہیں:
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
دل پہ جو گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
محترم قارئین! بعض الفاظ اور جملے سماعتوں کو بہت گراں گزرتے ہیں، تاہم کانوں پر ہاتھ رکھ کر حقائق کو بدلا تو نہیں جا سکتا۔ اس لیے حقائق سے نظریں چرانے کی بجائے اُن کا سامنا کرنے اور جو خرابیاں ہیں اُنہیں دور کرنے کا حوصلہ پیدا کرنے چاہیے۔ پانی سر سے گزر جانے کے بعد متوجہ ہونے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔