ہم جس زمانے میں رہ رہے ہیں اسمیں سب سے مشکل کام سچ کو فکشن سے علیحدہ کرنا ہے۔ ہرارای کی مطابق پہلے زمانوں میں معلومات کم تھی اور لوگ جہالت کی زد میں تھے اور علم کی جستجو صحیح طریقے سے کی جاتی تھی جسمیں لوگوں کو مشقت لگتی تھی اور لوگ کوشش سے کسی معلومات کو سچ یا جھوٹ ثابت کرتے تھے۔ لیکن اکیسویں صدی بلکل مختلف ہے جہاں معلومات کا انبار ہے اور لوگ جاہل معلومات کی بہتات کیوجہ سے بن رہے ہیں۔ ایک کلک سے بہت سی معلومات آپکو مل جاتی ہے جو کہ مشقت کے بغیر ہوتی ہے اور اسکا غلط ہونا بھی کافی حد تک ممکن ہوتا ہے۔ اسلئے معلومات تک رسائی کیلئے ان زرائع کو فالو کیا جائے جن پہ یقین کیا جا سکتا ہے اور جو معروضی ہو۔ اگر معلومات کو بغیر چانچ پڑتال کے آگے شیئر کیا جائے تو اس سے سازشی نظریات جنم لیتے ہیں جو کہ کسی بھی معاشرے کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انھیں جھوٹ پر مبنی سازشی نظریات کو کچھ پاپولسٹ لیڈر میڈیا کے ذریعے بار بار لوگوں کو سچ بنا کو پیش کرتے ہیں جس کو پوسٹ ٹروتھ کہا جاتا ہے۔ جھوٹ کو سچ کا لباس پہنانا۔ اسی پوسٹ ٹروتھ کیوجہ سے کلٹ سیاست بھی وجود میں آتی ہے۔
کللٹ سیاست یا پاپولزم اکیسویں صدی میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ٹرمپ، اردوان، مودی سے لیکر پاکستان میں عمران خان تک سب کلٹ بنا رہے ہیں۔ کلٹ کی ایک ذہنیت ہوتی ہے کہ ان کا لیڈر مسیحا ہے اور وہ دنیا کے شیطانوں اور کرپٹ لیڈروں کیساتھ لڑھ رہا ہے۔کلٹ اپنے لیڈر کیساتھ جزباتی انداز سے جڑا ہوتا ہے اور اسکی غلطیوں کو ہمیشہ کسی گہرے نشانی سے تشبیہ دیتا ہے۔ محبت میں ویسے بھی عقل ہمیشہ گھاس ہی چرتی ہے۔ بیکن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ کسی انسان کے لیے یہ نا ممکن ہے کہ وہ محبت بھی کرے اور عقل مند بھی ہو۔ غیر مشروط محبت جب سیاست میں آ جائے تو اس سے کلٹ وجود میں آتے ہیں جو اپنے لیڈر کو ڈیمی گاڈ بناتے ہیں اور ان کی پوجا کرتے ہیں ۔ کلٹ ہمیشہ سیاست کو جہاد یا سچ یا جھوٹ کی جنگ بنا لیتا ہے جو کہ سیاست کے ایک طالب علم کیلئے ایک مضحکہ خیز بات ہے کیونکہ سیاست تو اقتدار میں آکے اپنے اور اپنے لوگوں کے فائدے کیلئے کوشش ہے یا مکیاویلی کے مطابق یہ تو طاقت کیلئے مسلسل کوشش ہے۔
ایک پاپولسٹ لیڈر پوسٹ ٹروتھ کے زریعے لوگوں کے ذہنوں کو غلط معلومات سے بھر لیتا ہے جس سے انکی تنقیدی سوچ مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔ ٹرمپ نے لوگوں کو کیو انان تھیوری پہ یقین دلایا جسکے مطابق دنیا کو کچھ ایلیٹ لوگوں کا گروہ چلا رہا ہے اور یہ ایلیٹ لوگ کرپٹ ہیں اور امریکہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور وہ امریکہ کو ان شیطانوں سے پاک کر دیگا۔ مودی نے بھی لوگوں کو مختلف طریقوں سے برین واش کیا ہے اور کبھی کبھی یہ بھونگی بھی مار لیتا ہیکہ سائنس اسکے پروجوں کی ایجاد ہے یا وہ بھگوان کا اوتار ہے۔ خان کا بھی یہی حال ہے اور اسکے سپورٹرز کو بھی ہر چیز پہ اندھا یقین جیسا کہ اجکل لوگوں کی قتل کا غلط نمبر بتا کہ سادہ لوح لوگوں کو بھڑکایا اور بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ کسی بھی قابل اعتماد مقامی یا بین لاقوامی میڈیا پہ یہ خبر نشر نہیں ہوئی ۔
کلٹ سیاست کی ایک خاصیت یہ بھی ہیکہ یہاں لیڈر کی پرستش کی جاتی ہے اور مخالفین کو دشمن جا شیطان سمجھا جاتا ہے۔ ڈینیئل زبلٹ اور لویٹسکی اپنی کتاب "جمہوریت کیسے مرتی ہیں ” میں لکھتے ہیں کہ جب اپنے سیاسی مخالفین کو دشمن سمجھا جائے تو جمہوریت ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور یہیں سے ڈکٹیٹر شپ کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کے کلٹ لیڈر یا پاپولسٹ میڈیا، کورٹ اور دوسرے اداروں کو اپنی کلٹ فالونگ میں تبدیل کر دیتے ہیں اور اس طرح لوگ ایک کلٹ لیڈر کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں جن کو دوسر نظریات سننے اور برداشت کرنے میں کوفت ہوتی ہے۔
کللٹ لیڈر ایک اچھا انٹرٹینر بھی ہوتا ہے ۔ جتنی بڑی بھونگی ہوتی ہے اتنے ہی زیادہ اسے فالورز بھی ملتے ہیں۔
ٹرمپ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ڈرامے کرتا ہے اور دوسر کلٹ لیڈرز بھ کم و بیش ایسا ہی کرتے ہیں ۔ لوگ ایک ہینڈسم شخصیت کی پیچھے بھاگتے ہیں چاہیے اسکے خیالات اور آئیڈیاز کتنے سطحی کیوں نہ ہوں ۔ ڈینیل پوسٹ مین اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ یہ صدی مسخروں کو صدی ہے جو جتنا زیادہ انٹرٹینر ہوگا وہ اتنا ہی مشہور ہوگا جس سے معاشرے شاید ریورس پروگریس شروع کر دے اور شاید یہ انسانیت کیلئے اچھا نہ ہو۔
پاپولزم اور کلٹ سیاست کا جڑ سے اکھاڑنے کا سب سے موثر طریقہ لوگوں کو سیاست کی تعلیم دینا ہے اور انکو بتلانا ہے کہ اپنے اصل مسائل پے فوکس کرو اور لوگوں کو فیور کرو جو آپکے اصل مسائل کی باتیں کر رہے ہو۔ کسی سے جزباتی لگاؤرکھنے کے بجائے ایسے لوگوں کو سپورٹ کرو جو زمانے کیساتھ چلنے والے ہوں اور اکیسویں صدی کے مسائل کو سمجھتے ہو۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس، موسمیاتی تبدیلی ، تعلیم ،آبادی میں اضافہ ،عورتوں اور اقلیتوں کی حقوقِ ،صحت ،معیشت یہ آپکے اصل مسائل ہیں ان پہ فوکس کیا جائے ورنہ پاپولزم اور کلٹ فالونگ کی کشتی بنا کسے ڈائریکشن کے آپکو واپس تاریک ادوار میں پھینک دینگی۔
تحریر :امیر حمزہ