خیبرپختونخوا میں نئے تعلیمی سال کے آغاز سے قبل سرکاری سکولوں کے طلباء کو درسی کتب کی عدم دستیابی کا شدید مسئلہ درپیش ہے۔ روزنامہ مشرق پشاور اور روزنامہ آج پشاور کی رپورٹس کے مطابق صوبے کو درکار 7 کروڑ 39 لاکھ کتابوں میں سے تاحال تین کروڑ اور انتالیس لاکھ کتابیں پرنٹ ہو کر سکولوں تک نہیں پہنچ سکی ہیں جبکہ باقی چار کروڑ کتابوں کی جگہ پرانی کتابیں طلبہ کو فراہم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے اور یہ نہ پالیسی کا حصہ ہے ۔اس صورتحال سے تعلیمی سال کے بروقت اور منظم آغاز پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق، اگرچہ پہلی سے پانچویں جماعت تک کی بیشتر کتب چھپ چکی ہیں، لیکن چھٹی سے بارہویں جماعت تک کی کتب کی ایک بڑی تعداد کی پرنٹنگ اور ترسیل میں تاخیر ہو رہی ہے۔ یہ صورتحال ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب نیے تعلیمی سال کا آغاز ہو چکا ہے اور اساتذہ کے مطابق ہر سال طلباء اور والدین کو کتابوں کی فراہمی کے حوالے سے مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
ذرائع کے مطابق، کتابوں کی پرنٹنگ میں تاخیر کی بنیادی وجوہات میں ٹینڈر کے عمل میں پیچیدگیاں، کرپشن،عدالتی معاملات اور انتظامی سست روی اور بد انتظامی شامل ہیں۔ زرائع کے مطابق بقیہ کتابوں کی پرنٹنگ کے لیے دوبارہ ٹینڈر جاری کیا گیا تھا، لیکن یہ عمل تاحال التواء کا شکار ہے۔اساتذہ زرائع کے مطابق اضلاع میں سکولوں کو طلبا و طالبات کی تعداد کے مطابق کتابیں نہیں مل رہیں اور اساتذہ بھی اس صورتحال میں پریشان اور نصاب کی تکمیل کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہیں۔
اس صورتحال نے موجودہ مفت درسی کتب کی فراہمی کے نظام پر بھی کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پرانی درسی کتب نصاب کی تبدیلی کی وجہ سے عموماً ناقابل استعمال ہو جاتی ہیں، اور ہر سال نیا نصاب متعارف کرانے اور کتب کی از سر نو پرنٹنگ پر اربوں روپے کے اضافی اخراجات آتے ہیں، جنہیں عوامی خزانے کا ضیاع قرار دیا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں متعدد ٹیچرز نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہزارہ ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مفت کتب کی پالیسی میں کافی مسائل ہیں اگر یہ مسائل محکمہ دور نہیں کر سکتا تو بہتر یہی ہو گا کہ یہ سلسلہ بند کر دیا جائے۔
سرکاری سکولوں میں مفت کتب کی فراہمی کا طریقہ کار غلط ذلت آمیز اور کرپشن کے بھی انکشافات ہوئے ہیں حکومتی پالیسی اور نمود و نمائش یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے تمام سرکاری سکولز میں مفت کتب دی جائیں گی لیکن فی الواقع ایسا نہیں جس پر بلدیاتی ممبران اور سیاسی وسماجی شخصیات سکولز کی کمیونٹی کی کمیٹی اور اساتذہ تنظیموں کی خاموشی معنی خیز ہے تفصیل کے مطابق صوبائی محکمہ تعلیم نے سرکاری سکولز میں زیر تعلیم طلباء وطالبات کی آسانی اور غربت کے پیش نظر اور عوام کے رجحان کو سرکاری سکولز کی طرف موڑنے کے پیش نظر فری تعلیم جیسے نعرے کو تقویت دینے کیلئے مفت کتب فراہمی کا آرڈر جاری کر رکھا ہے لیکن اس پر جزوی عمل درآمد کے باعث طلباء وطالبات کا مستقبل تاریک ہونے کا خدشہ پایا جاتا ہے زرائع کے مطابق سرکاری سکولوں میں تعداد کے مطابق اور بروقت کتب فراہم نہیں کی جاتی نیز کتب فراہمی کا شیڈول حتمی نہیں ہوتا دور دراز کے سکولز ٹیچرز /مردانہ و زنانہ کو بار بار چکر لگوائے جاتے ہیں جس سے نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ آنے جانے میں اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں اگر کسی سکول میں زیر تعلیم طلباء وطالبات کی تعداد ایک سو ہے تو تقریبا پچاس طلباء وطالبات کیلئے کتب ملتی ہیں جس پر سکول سٹاف کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ سو میں سے کن پچاس طلباء وطالبات کو کتب دیں یوں سو کے سو طلباء وطالبات مفت کتب کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں اور سکول کا تدریس سیشن آدھا ضائع ہو جاتا ہے جس سے کورس مکمل نہیں ہو سکتا نتیجتاً سرکاری سکولز کے طلباء وطالبات امتحانات میں قابل قدر مارکس حاصل نہیں کر پاتے عوامی سماجی حلقوں نے اس موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ارباب اختیار اس اہم مسلے کی طرف توجہ دیں ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ سکولز کو کتب فراہم کرنے پر تعینات سٹاف کا رویہ بھی ہتک آمیز ہوتا ہے چیک اینڈ بیلنس کا کوئی معقول انتظام نہیں اور یہ تاثر بھی ہے کہ سرکاری سکولز کیلئے جاری کتب خفیہ طریقے سے فروخت بھی کی جاتی ہیں اور بڑے پیمانے پر والدین اور اساتذہ کی شکایات کے باوجود محکمہ کے پاس کتب کی تقسیم کیلئے کوئی میکنزم نہیں جس سے حکومت کو فائدہ ملنے کے بجائے نقصان پہنچ رہا ہے ،اگر محکمہ اس معاملے میں سنجیدہ ہے تو ہونا تو یہ چاہیے کہ کتب فراہمی بروقت ہو اور سکولز میں زیر تعلیم طلباء وطالبات کی تعداد کے مطابق سو فیصد طلباء وطالبات کو بروقت اور ڈور سٹپ پالیسی کے مطابق کتب دی جائیں ۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب سے مفت کتب کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہوا تب سے کتاب کی قدر کم ہو گئی ہے۔ایک سال کی کتاب بوسیدہ کر کے واپس دی جاتی ہے سارے صفحے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں یا بلکل غائب ہوتے ہیں
جب کسی بچے کے حصے میں پھٹی پرانی کتاب آتی ہیں اور کسی کو نئی ملتی ہیں تو بچے بھی ذہنی الجھن کا شکار ہوتے ہیں۔نئی کتابیں پھر ضد کی وجہ سے بچے چوری کر دیتے ہیں یا نئی کو دیکھ کے پرانی کتابیں پھاڑ کے نئی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ محکمہ تعلیم ایک سال قبل ہی سکولوں سے طلباء کی تعداد اور درکار کتب کی ڈیمانڈ لے لیتا ہے، اس کے باوجود نئے تعلیمی سال کے آخر تک بھی تمام طلباء کو مکمل کتابیں فراہم نہیں ہو پاتیں۔ اس مسلسل تاخیر اور بے قاعدگی کے پیش نظر کچھ حلقوں کی جانب سے یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ درسی کتب کی مفت فراہمی کا یہ موجودہ منصوبہ ختم کر دینا چاہیے اور اس کے بجائے بچوں کو خود کتابیں خریدنے کا پابند کیا جائے تاکہ وہ ان کی قدر کریں اور ان کا خیال رکھیں، جیسا کہ مفت ملنے والی چیزوں کا عام طور پر نہیں رکھا جاتا۔
ہزارہ ایکسپریس نیوز نے سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کے والدین اور اساتذہ کی شکایات پر ضلع مانسہرہ میں سرکاری سکولوں میں درسی کتب کی فراہمی کے بحران اور محکمہ تعلیم کا موقف جاننے کے لیے محکمہ تعلیم کے ضلع مانسہرہ میں فوکل پرسن اشتیاق احمد کے وٹس ایپ نمبر پر یہ سوالنامہ شئیر کیا اور جواب نہ ملنے پر ان سوالات کا جواب جاننے کی کوشش کی کہ:
- موجودہ صورتحال کے مطابق ضلع مانسہرہ کے لیے کتنی کتابیں درکار ہیں اور اب تک کل کتنی کتابیں سکولوں تک پہنچائی جا چکی ہیں، اور باقی ماندہ کتابوں کی پرنٹنگ اور فراہمی میں کتنی تاخیر ہو سکتی ہے؟ جماعت وار صورتحال کیا ہے ؟، خاص طور پر چھٹی سے بارہویں جماعت تک کی کتب کے حوالے سے؟
تھی 2. درسی کتب کی فراہمی میں اس تاخیر کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟
جیسا کہ ذرائع نے ٹینڈر کے عمل میں پیچیدگیوں، عدالتی معاملات، اور انتظامی سست روی کی نشاندہی کی ہے؟ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے محکمہ کیا اقدامات کر رہا ہے؟
- بقیہ کتابوں کی پرنٹنگ کے لیے دوبارہ جاری کیے گئے ٹینڈر کا عمل کس مرحلے پر ہے اور اس کی تکمیل کب تک متوقع ہے؟
- زیر تعلیم طلبہ کے والدین اور اساتذہ شکایت کر رہے ہیں کہ اضلاع میں سکولوں کو طلبا و طالبات کی تعداد کے مطابق کتابیں نہیں مل رہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے اور ہر طالب علم کو اس کے حصے کی کتاب فراہم کرنے کے لیے کیا تقسیم کا نظام وضع کیا گیا ہے؟
- یہ مسئلہ تقریباً ہر سال سامنے آتا ہے، اس کی مستقل وجوہات کیا ہیں اور محکمہ ان کو دور کرنے کے لیے کیا طویل المدتی منصوبہ بندی کر رہا ہے تاکہ آئندہ تعلیمی سالوں میں طلباء کو بروقت کتابیں مل سکیں؟
- میڈیا میں مفت درسی کتب کی فراہمی کے موجودہ نظام پر سوالات اٹھائے گئے ہیں، خاص طور پر نصاب کی تبدیلی کی وجہ سے پرانی کتابوں کے ناکارہ ہونے اور ہر سال نئی پرنٹنگ پر آنے والے اربوں روپے کے اخراجات کے حوالے سے۔ اس پر محکمہ کا کیا موقف ہے؟ کیا واقعی یہ نظام عوامی خزانے پر بوجھ ہے؟
- اساتذہ کی جانب سے یہ شکایات سامنے آئی ہیں کہ مفت ملنے والی کتابوں کی قدر نہیں کی جاتی، وہ پھاڑ دی جاتی ہیں یا ضائع کر دی جاتی ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے اور کتب کے بہتر استعمال کو یقینی بنانے کے لیے محکمہ کیا اقدامات کر رہا ہے؟ کیا پرانی مگر قابل استعمال کتابوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کا کوئی میکانزم موجود ہے؟
- مبصرین کا کہنا ہے کہ محکمہ ایک سال پہلے ڈیمانڈ لے لیتا ہے، اس کے باوجود بروقت فراہمی کیوں یقینی نہیں بنائی جا سکتی؟
منصوبہ بندی کے عمل میں کہاں خامی ہے اور اسے کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟ - کچھ حلقوں کی جانب سے یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ مفت کتب کی فراہمی کا سلسلہ بند کر دیا جائے اور والدین کو کتب خریدنے کا پابند کیا جائے تاکہ کتب کی قدر ہو سکے۔ اس تجویز کے بارے میں محکمہ تعلیم کی کیا رائے ہے؟
- درسی کتب کی عدم دستیابی سے طلباء اور اساتذہ کو کن مشکلات کا سامنا ہے اور محکمہ ان کے لیے کس قسم کی معاونت فراہم کر رہا ہے تاکہ تعلیمی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں؟
ہم امید کرتے ہیں کہ محکمہ تعلیم ان اہم سوالات کا جلد از جلد اور تفصیلی جواب دے گا تاکہ والدین، طلباء اور اساتذہ میں پائے جانے والے تحفظات دور ہو سکیں۔
مگر محکمہ تعلیم ضلع مانسہرہ کے درسی کتب کی تقسیم کے فوکل پرسن اشتیاق احمد نے نہ ہی وٹس ایپ پر اور نہ ہی فون کال پر ان سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا ہے اور نہ ہی کال ریسیو کی۔
فی الحال، لاکھوں طلباء کو نئے تعلیمی سال کے آغاز پر مکمل درسی کتب ملنے کے حوالے سے غیریقینی کی صورتحال کا سامنا ہے، اور والدین و اساتذہ اس تاخیر پر اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ حکومت کو اس اہم تعلیمی معاملے پر فوری توجہ دینے اور کتابوں کی بروقت فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔