Skip to content

سندھ طاس معاہدے کی معطلی

شیئر

شیئر

ڈاکٹر جزبیہ شیریں

سندھ طاس معاہدہ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پایا تھا اور اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دریاؤں کے پانی کی تقسیم کو منصفانہ اور باہمی طور پر تسلیم شدہ بنانے کے لیے تھا۔ اس معاہدے کے تحت، پاکستان کو تین دریا – چناب، جہلم اور راوی – ملے تھے جبکہ بھارت کو تین دریا – سندھ، ستلج اور بیاس – ملے تھے۔ اس معاہدے کو ایک عالمی معاہدہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں عالمی بینک کی مداخلت بھی شامل تھی، جو کہ اس معاہدے کو تسلیم کرنے والے دونوں ممالک کی مدد کرتا تھا۔ اس وقت کے عالمی سیاسی حالات نے اس معاہدے کو اہمیت دی تھی، خاص طور پر بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے باوجود، یہ ایک ایسی کوشش تھی جو دونوں ممالک کے درمیان پانی کے وسائل کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دیتی تھی۔

سن 1947 میں برطانوی راج کے خاتمے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان جو تنازعات شروع ہوئے، ان میں پانی کے وسائل کا مسئلہ بھی شامل تھا۔ پاکستان کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنی زراعت کے لیے دریا کے پانی پر انحصار کرے، اور یہ بھارت کے لیے ایک طاقتور ہتھیار بن سکتا تھا، کیونکہ بھارت کے دریاؤں کا منبع زیادہ تر پاکستان کے علاقوں میں تھا۔ اس لیے سندھ طاس معاہدہ ایک نازک مسئلہ کی شکل میں سامنے آیا تھا، لیکن اس معاہدے نے دونوں ممالک کے درمیان پانی کے وسائل کو ایک باقاعدہ نظام میں تقسیم کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ اس سے ہونے والی ممکنہ کشیدگیوں سے بچا جا سکے۔

سندھ طاس معاہدہ کے بعد، کئی بار بھارت نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی اور اس پر اعتراضات اٹھائے۔ بھارت نے ڈیمز اور بیراج بنانے شروع کیے تاکہ وہ اپنے پانی کے وسائل کو زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کر سکے۔ اس سے پاکستان کے دریاؤں کے پانی کی مقدار کم ہونے لگی اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کی زرعی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونے لگے۔ تاہم، بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات کے باوجود یہ معاہدہ ہمیشہ قائم رہا اور دونوں ممالک نے اس کے اصولوں کو تسلیم کیا۔ حتیٰ کہ 1965، 1971 اور 1999 کی جنگوں کے باوجود بھی یہ معاہدہ معطل نہیں ہوا تھا، اور دونوں ممالک نے اس پر عمل پیرا رہنے کی کوشش کی تھی۔

ماضی میں بھارت نے سندھ طاس معاہدہ کے حوالے سے کئی بار پاکستان کو دھمکیاں دی تھیں کہ وہ معاہدے کو معطل کرسکتا ہے، لیکن کبھی بھی بھارت نے اسے عملی طور پر نہیں کیا تھا۔ پاکستان کے لیے یہ معاہدہ ایک اقتصادی اور جغرافیائی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اس کی زراعت کا انحصار بڑی حد تک ان دریاؤں پر تھا جن کی تقسیم سندھ طاس معاہدے میں کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ، پاکستان کی توانائی کی ضرورت بھی ان دریاوں سے پیدا ہونے والے پانی سے منسلک تھی۔

حال ہی میں، بھارت نے 2025 کے شروع میں پاہلگام دہشت گرد حملے کے بعد سندھ طاس معاہدہ کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اقدام سے نہ صرف پاکستان کو زراعت میں مشکلات کا سامنا ہو گا بلکہ بھارت کی طرف سے دریا کے پانی کی مکمل بندش پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، اس معاہدے کے معطل ہونے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بھارت چناب، جہلم اور راوی جیسے اہم دریاوں پر مزید ڈیمز اور بیراج بنا سکے گا، جس سے پاکستان کے لیے ان دریاؤں کا پانی حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔

پاکستان نے بھارت کے اس فیصلے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان اس صورتحال کو انتہائی سنگین مانتا ہے اور اس کے لیے اپنے تمام آپشنز پر غور کر رہا ہے۔ وزیر خارجہ اور دیگر حکومتی ارکان نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ پاکستان اس معاملے میں سخت موقف اپنائے گا اور عالمی برادری کو اس پر آگاہ کرے گا۔ پاکستان کا موقف ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ایک عالمی معاہدہ ہے اور بھارت کا اسے معطل کرنا عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان کی جانب سے جنگی امکان کے بارے میں باتیں بھی کی جا رہی ہیں، کیونکہ پانی کے بغیر پاکستان کی زراعت اور معیشت کا تصور ممکن نہیں ہے۔

پاکستان کا ردعمل اس بات پر منحصر ہے کہ بھارت کا اس فیصلے پر عمل کس حد تک کرے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عالمی برادری اس معاملے میں مداخلت کرے اور دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لائے تاکہ یہ بحران مزید بگڑ نہ سکے۔ تاہم، ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان پانی کے مسئلے پر مسلسل کشیدگیاں رہی ہیں اور سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی کی منصفانہ تقسیم ہمیشہ ایک چیلنج رہی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آیا بھارت واقعی سندھ طاس معاہدہ کو معطل کرنے میں کامیاب ہو گا یا نہیں؟ اس سوال کا جواب عالمی سیاست اور دونوں ممالک کے تعلقات پر منحصر ہے۔ بھارت کی طرف سے پانی کی بندش پاکستان کے لیے ایک بڑی مشکل بن سکتی ہے، لیکن پاکستان کے لیے یہ ایک موقع بھی ہو سکتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر اس معاملے کو اٹھا کر بھارت پر دباؤ ڈالے۔ اگر بھارت معاہدہ کو معطل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے پاکستان کی زرعی معیشت اور توانائی کے نظام پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ دوسری طرف، پاکستان عالمی برادری کو اس فیصلے کے اثرات کے بارے میں آگاہ کر کے بھارت پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔

پاکستان کے لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ وہ اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرے اور اس صورتحال میں مذاکرات کی کوشش کرے تاکہ جنگ کی صورتحال سے بچا جا سکے۔ اگرچہ اس وقت جنگ کا امکان کم دکھائی دیتا ہے، مگر پانی کے مسئلے پر دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کا بڑھنا ایک خطرہ بن سکتا ہے۔ اس لیے مستقبل میں اس معاہدے کے حوالے سے مذاکرات اور عالمی سطح پر حل کی کوششیں ضروری ہوں گی تاکہ دونوں ممالک کے درمیان ایک متوازن اور طویل المدت حل تلاش کیا جا سکے۔

اس تمام صورتحال کے تناظر میں، پاکستان کے لیے بہترین راستہ یہی ہوگا کہ وہ اس معاملے پر عالمی سطح پر سفارتی اور قانونی ذرائع سے دباؤ ڈالے تاکہ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے فیصلے پر نظرثانی کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں