سعید ابراہیم
آئیڈیل ازم ایک طرف رہا مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کی سیاست میں ایک ایسی سیاسی لیڈرشپ کی پہلے دن سے گنجائش موجود رہی ہے جو عوام کی معاشی اور سماجی حالت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ امن و امان بھی قائم کرسکے۔ اس خواب کی تعبیر کیلیے عوام نے پہلی بار پیپلز پارٹی پر بھروسہ کیا۔ اس دور میں جہاں ایسے نئے اقدامات لیے گئے جو دور رس اثرات کے حامل تھے وہیں بہت سے بلنڈرز بھی کیے گئے۔ پیپلز پارٹی کی عوامی حمائت کے خاتمے کیلیے پہلے بھٹو کو پھانسی دی گئی اور اس کے بعد جہاں ایک طرف بوتل سے الطاف حسین کا جن نکالا گیا تو دوسری طرف پنجاب سے نواز شریف کو میدان میں اتارا گیا۔ کوشش یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کو اسکا سیاسی ایجنڈا روبہ عمل لانے سے روکا جائے۔ نواز شریف کو پاریمانی سیاست کو سمجھنے میں کئی برس لگے۔ ہاں البتہ اس دوران اس نے پنجاب میں ترقی اور تبدیلی کے عمل کو جاری رکھا۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو کسی بھی صورت آئیڈیل سیاسی پارٹیاں نہیں کہا جاسکتا مگر سچ تو یہ ہے کہ اس وقت یہی دو پارٹیاں ہیں جو اپنی جملہ خامیوں کے باوجد سیاسی نظام کو چلانے کی اہل ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کے مقابل تحریک انصاف کے اتھرے گھوڑے کو میدان میں اتارا گیا۔ اس کی جگہ بنانے کیلیے اسٹیبلشمنٹ نے ریاستی وسائل کی مدد سے زرداری اور نواز شریف کے خلاف منظم پراپیگنڈے کا آغاز کیا۔ یہی کام پہلے نواز شریف سے لیا گیا تھا جب زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کے عنوان سے بدنام کیا گیا اور پھر خان کے ذریعے زرداری اور نواز شریف کو چور کہہ کر بدنام کروایا گیا۔ جیسا کہ بالکل ابتدا میں لکھا کہ پاکستانی سیاست میں ایک ایسی سیاسی لیڈرشپ کی پہلے دن سے گنجائش موجود رہی ہے جو عوام کی معاشی اور سماجی حالت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ امن و امان بھی قائم کرسکے۔ تو عوام کی ایک معقول تعداد اس پراپگنڈے کا شکار ہوکر خان کی ہمنوا بن گئی مگر اپنی جذباتیت کی وجہ سے یہ نہ دیکھ سکی کہ خان کے پیچھے کونسی عوام اور جمہوریت دشمن قوتیں متحرک ہیں۔ مسلسل پراپیگنڈے کے ذریعے سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری ایک بدنام زمانہ پلے بوائے کو ایک انقلابی لیڈر کے طور پر اسٹیبلش کردیا گیا۔ پاکستانی عوام جہاں ایک جانب نفاذِ اسلام کے شائق ہیں وہیں انتہا کے من موجی بھی ہیں۔ انہیں ریاستِ مدینہ کا نعرہ بھی کشش کرتا ہے اور رقص اور موسیقی کا رنگا رنگ ماحول بھی۔ خان کی سیاسی مہم جوئی میں انہی دو عناصر سے کام لیا گیا۔ خان کے منہ میں ایسے نعرے ڈال دیے گئے جو کانوں کیلیے تو بہت پرکشش تھے مگر ان کا عمل میں آنا ممکن نہیں تھا اور نہ ہی خان میں ایسی صلاحیت تھی کہ وہ ان نعروں کا دس فیصد بھی عمل میں لا کر دکھا سکتا۔ اس نے اقتدار میں آتے ہی جن اہداف کا اعلان کیا جیسے کہ نوے روز میں کرپشن کا مکمل خاتمہ، ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کی فراہمی اور انڈوں مرغیوں اور کٹے کٹیوں کی مدد سے معیشت کی بہتری۔ یہ سب باتیں کسی مذاق سے کم نہیں تھیں اور ان دعووں کا جو حشر ہونا تھا وہی ہوا۔ جلد ہی خان کی انقلابی سیاست کا ملمع اترنے لگا۔ جوں جوں خان کی ناکامی آشکار ہوئی اس نے بہت سے حکومتی معاملات جنرل فیض کے حوالے کرنے شروع کردیے۔ فیض نے جب دیکھا کہ اسے قمر باجوہ کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کی حمایت بھی حاصل ہے تو گویا اسے من مانی کا سرٹیفیکیٹ مل گیا۔ اس شخص نے ریاست کے اندر اپنی ریاست بنالی جس میں جج، جرنلسٹ، سیاست دان، مذہبی گروہ اور صنعتکار سبھی اس کے معاون تھے۔ خان کیلیے جو پراپیگنڈا کیا گیا اس نے پہلی بار فوج کو بھی اس وائرس کا شکار بنادیا۔ خان کو بتایا گیا کہ کچھ سینئر جرنیلوں کے علاوہ فوج کی اکثریت اس کی گویدہ ہوچکی ہے۔ اسی حمایت کی امید پر خان نے نو مئی کا معرکہ بپا کر ڈالا جس کے نتائج اب اس کے گلے کا پھندا بنے ہوئے ہیں۔ خان کا گمان تھا کہ اگر وہ جنرل عاصم منیر کی تقرری روکنے میں کامیاب ہوگیا تو اس کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہوجائے گی مگر ایسا نہ ہو پایا اور آج وہ جیل میں بیٹھا اپنی غلطیوں سے لگنے والے زخم چاٹ رہا ہے۔ اس کی حالت اس وقت اس زخمی سانپ جیسی ہے جسے پٹاری میں بند کردیا گیا ہو۔
یہ خان ہی ہے جو پارٹی کی سب سے بڑی طاقت بھی ہے اور سب سے بڑی کمزوری بھی۔ وہ اپنی مقبولیت کے زعم میں پہلے دن سے اپنی ہی جونیر قیادت کو لڑوانے کے شغل کا شوقین رہا ہے۔ آج بھی وہ اسی شوقِ فضول میں مبتلا ہے۔ اس شوق نے اس کی پارٹی کی ساری مقبولیت کو بے اثر بنا کے رکھ دیا ہے اور اب یہ بے بسی خود خان کی ذات میں اپنے بد اثرات دکھانے لگی ہے۔ پارٹی اس وقت بھان متی کے کنبے کا منظر پیش کر رہی ہے۔ اب یہاں ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا ہے۔ بھابی اور نندوں کی لڑائی عروج پر ہے۔ ولاگرز کو سمجھ نہیں آرہی کہ کس نے کس کی حمایت کرنی ہے۔ خان کی مسلسل احتجاجی مہم حکومت کا اب تک کچھ نہیں بگاڑ سکی ہاں البتہ پارٹی کے اعصاب کافی مضمحل ہوچکے۔ اب صورت یہ ہے کہ پہلے فضل الرحمان کے در پر شرمندگی سے جھکے سروں کے ساتھ بار بار حاضری دینا پڑی کہ کسی طرح آئینی ترمیم کو روکا جاسکے، مگر ان حاضریوں سے کچھ حاصل نہ ہوا۔ ہاں البتہ فضل الرحمان کو ڈیزل کے ذلت انگیز خطاب سے نجات مل گئی۔ اب یہ کوشش ہورہی ہے کہ کسی طرح ان لوگوں سے مذاکرات کی بھیک مل جائے جنہیں تیس برس سے چور چور کہا کا رہا تھا مگر اب وہ خان کی بے بسی کا مزا لے رہے ہیں۔ خان اس وقت جس ذلت انگیز بے بسی کا شکار ہے، اس کی واحد وجہ وہ خود ہے اور افسوس کی بات یہ کہ وہ جس افتادِ طبع کا قیدی ہے، اس سے نجات پانا ممکن دکھائی نہیں دیتا سو اس کی بے بسی کم ہونے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ خان اگر واقعی کسی سیاسی سوجھ بوجھ کا حامل ہوتا تو اپنی مقبولیت کو ملکی صورتحال کو بہتر بنانے کیلیے استعمال کرسکتا تھا، مگر افسوس وہ ایسا کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوا۔