ترقی پذیر ممالک جیسے کہ پاکستان کو نقصان اور تباہی کے مالیاتی ڈھانچے کو سمجھنا چاہیے تاکہ اس کو عملی جامہ پہنایا جا سکے، کیونکہ یہ موضوع آنے والے کوپ اجلاس میں مرکزی حیثیت اختیار کرے گا
صر میں 2022 میں ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (کوپ 27) میں نقصان اور تباہی فنڈ کا اعلان پاکستان کے لئے ایک اہم سفارتی کامیابی تھی،اور گزشتہ سال کوپ 28 میں متحدہ عرب امارات میں اس کو باضابطہ شکل دی گئی تھی۔ نقصان اور تباہی موسمیاتی تبدیلی کے ایسے ناقابل تلافی نقصانات کی نشاندہی کرتا ہے جو ماحولیاتی نظام کی موافقت کی صلاحیت سے باہر ہیں۔ یہ پچھلے دو سالوں میں نقصان اور تباہی کی مالیات کا مرکزی نقطہ بن چکا ہے، حالانکہ اسے ابھی مکمل طور پر فعال نہیں کیا جا سکا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مختص کئے گئے فنڈز انتہائی ناکافی ہیں، جو تقریباً 700 ملین امریکی ڈالر پر مشتمل ہیں، جبکہ 2030 تک تخمینہ شدہ ضرورت 290 سے 580 بلین امریکی ڈالر کے درمیان ہے۔
نقصان اور تباہی کے معاملے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستان جیسے ممالک کو نقصان اور تباہی فنڈ (ایل ڈی ایف) سے پہلے دو بنیادی میکینزمز (کسی سلسلے کے طریقِ عمل) کو سمجھنا ہوگا: وارسا انٹرنیشنل میکینزم (ڈبلیو آئی ایم) اور سینٹیاگو نیٹ ورک۔ یہ تینوں میکینزمز مل کر ترقی پذیر ممالک کو نقصان اور تباہی کا جواب دینے کے قابل بنانے کے لئے بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیتے ہیں۔ ڈبلیو آئی ایم اور سینٹیاگو نیٹ ورک مالیاتی ادارے نہیں ہیں۔ وارسا انٹرنیشنل میکینزم ایک رابطہ پلیٹ فارم ہے جو نقصان اور تباہی سے نمٹنے کے طریقوں پر تکنیکی مدد اور رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ دوسری جانب سینٹیاگو نیٹ ورک نقصان اور تباہی سے نمٹنے کی صلاحیت بڑھانے کا ایک اقدام ہے۔ آذربائیجان کے شہر باکو میں کوپ 29میں ہونے والی بات چیت میں اِن کا باہمی تعلق اور متعلقہ سپرد کردہ اِختیارات مرکزی اہمیت کے حامل ہوں گے۔
وارسا انٹرنیشنل میکینزم، جو 2013 میں قائم کیا گیا تھا، ایک جامع فریم ورک پیش کرتا ہے جس سے سینٹیاگو نیٹ ورک اور نقصان اور تباہی فنڈ دونوں تیار کئے گئے تھے۔ یہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے میں مددکے لئے مختلف شعبوں پر کام کر رہا ہے اور یہ اِدارہ مندرجہ ذیل پانچ اہم نقصان اور تباہی فنڈ کے شعبوں میں تکنیکی مطالعات کا پیش رو ہے: (1) موسم میں سست روی سے ہونے والی تبدیلی سے رونما ہونے والے واقعات ( 2) غیر اقتصادی نقصانات (3) جامع رسک مینجمنٹ (4) نقل مکانی اور (5) اِقدامات اور اِمداد۔ اِن مطالعات نے کئی طریقہ کار اور رہنما اصولوں کی ترقی میں معاونت کی ہے، جن سے مختلف ماحولیاتی نظاموں میں کمیونٹیز کی قیادت میں چلنے والے منصوبوں کی جانچ اور آزمائش کو ممکن بنایا جا سکا ہے۔
اِن مطالعات نے شریک ممالک کی تکنیکی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے، کیونکہ وہ نقصان اور تباہی (موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات) کو موافقت (موسمیاتی تبدیلی کے لئے تیاری اور نمٹنے کے لئے اقدامات) سے الگ کرنے میں مدد کرتے ہیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح موسمیاتی تبدیلی کا جدید سائنسی مطالعہ نقصان اور تباہی کو روکنے، کم سے کم کرنے اور حل کرنے سے متعلق پالیسیز بنانے میں مددگار ہوسکتا ہے۔ اس تکنیکی مواد نے نقصان اور تباہی کو موافقت سے الگ کرنے کے عمل کو بھی متحرک کیا ہے تاکہ اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے فریم ورک کنونشن کے تحت ایک علیحدہ مالیاتی سلسلہ باآسانی قائم کیا جا سکے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی کمزور تکنیکی صلاحیت اور وزارتِ اُمورِ خارجہ (جو وارسا انٹرنیشنل میکینزم ایگزیکٹو کمیٹی میں پاکستان کی نمائندگی کرتی ہے) اور وزارت موسمیاتی تبدیلی (ایم او سی سی) جو کہ سانتیاگو نیٹ ورک میں پاکستان کی نمائندگی کرتی ہے کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان نے اس کی موثر شمولیت میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ نتیجتاً، ہماری موسمیاتی اور دیگر شعبوں کی پالیسیاں، بشمول نیشنل ڈٹرمنڈ کنٹریبیوشن NDCs اور قومی موافقتی منصوبہ، اِن پانچ اہم شعبوں کی نقصان اور تباہی کی کارروائی سے متاثر نہیں ہو رہی ہیں۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے منصوبے موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لئے اتنے موثر نہ ہوں۔ پاکستان کی تکنیکی گروپوں سے عدم موجودگی قومی استعداد کار بڑھانے کا ایک موقع پہلے ہی ضائع کر رہی ہے۔
2019 میں وارسا انٹرنیشنل میکینزم کے تحت قائم کیا گیا سینٹیاگو نیٹ ورک ایک اہم قدم ہے جس کا مقصد خاص طور پر پاکستان جیسے کمزور ممالک کو تکنیکی معاونت فراہم کرنا ہے۔ اس کے دیگر مقاصد میں تکنیکی معاونت کی سہولت فراہم کرنا، ممالک کو متعلقہ تنظیموں، نیٹ ورکس اور ماہرین سے جوڑنا ہے۔ فی الحال، یہ اِدارہ 2022 میں عملی طور پر فعال ہونے کے بعد سے اب تک اپنی سرگرمیوں کو مسلسل بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اپنی تحدیدات کے باوجود، جن میں محدود عملہ اور مالی وسائل شامل ہیں، یہ نیٹ ورک کمزور ممالک کی مدد کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے تاکہ وہ منفی موسمیاتی اثرات کا سامنا کرنے کے لئے ہدفی تکنیکی معاونت، تبادلہ علم، اور صلاحیت کی تعمیر کے ذریعے کوششیں کر سکیں۔ سینٹیاگو نیٹ ورک کی کوششیں اِن ممالک کی مدد میں زیادہ اہمیت اختیار کریں گی تاکہ وہ نقصان اور تباہی فنڈ سے مؤثر طریقے سے مالی معاونت تک رسائی حاصل کرنے اور اِسے استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکیں۔ یہ سینٹیاگو نیٹ ورک کے کردار کو محض تکنیکی معاونت سے آگے بڑھائے گا۔ مستقبل میں وارسا انٹرنیشنل میکینزم کا عملی کردار کوپ 24 کے بعد سے ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے، جس میں سی او پی / سی ایم اے اختیارات پر بحث اب بھی جاری ہے۔ معاہدے کی اِس کمی نے وارسا انٹرنیشنل میکینزم کے طویل مدتی وژن پر بامعنی پیش رفت کو روک دیا ہے۔
گزشتہ سال دبئی میں ہونے والی موسمیاتی کانفرنس کوپ28 اِن موسمیاتی مالیاتی میکینزمز کے لئے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ سینٹیاگو نیٹ ورک کے لئے، مباحثہ میں اس معاملے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا کہ اسے کس طرح نقصان اور تباہی فنڈ کے ساتھ مزید مربوط کیا جائے تاکہ تکنیکی امداد سے لے کر مالی مدد تک مسلسل تعاون کو یقینی بنایا جاسکے۔ پاکستان نے کامیابی کے ساتھ نقصان اور تباہی فنڈ اور سینٹیاگو نیٹ ورک دونوں کے اختیاری ڈھانچے میں ایک نشست حاصل کی جس کی نمائندگی نقصان اور تباہی فنڈ میں اِس مصنف نے اور سینٹیاگو نیٹ ورک میں وزارتِ موسمیات کے سکریٹری نے کی۔ وزارتِ موسمیاتی تبدیلی میں افسران کی بار بار تعیناتی اور تبادلوں نے سینٹیاگو نیٹ ورک میں پاکستان کی شرکت کو مزید متاثر کیا ہے۔
جبکہ وارسا انٹرنیشنل میکینزم جامع فریم ورک کے طور پر کام کرتا ہے، سینٹیاگو نیٹ ورک تکنیکی مدد پر توجہ مرکوز کرتا ہے، اور نقصان اور تباہی فنڈ ٹھوس موسمیاتی اِقدامات کو نافذ کرنے کے لئے درکار مضبوط مالیاتی بنیاد کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ سہ فریقی ڈھانچہ موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لئے ایک جامع نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے۔ اِن تینوں میکینزمز کی موجودگی قومی اور بین الاقوامی سطح پر باہمی طور پر متّفق حکمت عملیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جس سے ممالک کو اپنی آب و ہوا کی حکمت عملیوں کو ہم آہنگ کرنے اور تینوں شعبوں میں مدد حاصل کرنے کے مواقع ملتے ہیں۔ جیسے جیسے یہ میکینزمز پختہ ہوتے ہیں، وہ اُن ممالک کے درمیان فرق کو ختم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور جنہیں وسائل کی اَشد ضرورت ہوتی ہے۔
باکو میں کوپ 29 میں، اِن تین میکینزمز کے مابین باہمی تعامل دوبارہ اُبھرنے کی توقع ہے۔ اہم مباحثوں میں ممکنہ طور پر مدد تک رسائی کے لئے واضح معیارات قائم کرنا اور فیصلہ سازی کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنانا شامل ہوگا۔ امکان ہے کہ تینوں میکینزمز کے درمیان زیادہ سے زیادہ انضمام پر زور دیا جائے گا، جس میں دیگر دو میکینزمز کو اسٹریٹجک رہنمائی فراہم کرنے کے لئے وارسا انٹرنیشنل میکینزم کی صلاحیت کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے گی، تاکہ ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے اور اِن کے اجتماعی اثرات کو بڑھایا جا سکے۔ اس میں نقصان اور تباہی فنڈ کی مالی امداد کے ساتھ ساتھ سینٹیاگو نیٹ ورک کے ذریعے تکنیکی مدد تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ممالک کے لئے لائحہ عمل کو ہموار کرنا شامل ہوسکتا ہے۔ غیر اقتصادی نقصان اور تباہی (این ای ایل ڈی) جیسے شعبوں میں مداخلت کے اثرات کی پیمائش کے لئے ٹھوس طریقہ کار تیار کرنا، اِن میکینزمز کی مدد سے اِن کی قدر کا مظاہرہ کرنے اور جاری تعاون کو برقرار رکھنے کے لئے بہت اہم ہوگا۔
مزید برآں، سینٹیاگو نیٹ ورک میں شامل شراکت داروں کے نیٹ ورک کو وسعت دینا اور نقصان اور تباہی فنڈ کے لئے مالی وسائل کی نوعیت کو متنوع بنانا، اِن دونوں نکات کو ایجنڈے میں شامل کئے جانے کا امکان ہے۔ اس بات پر زیادہ توجہ دی جاسکتی ہے کہ یہ میکینزمز کس طرح غیر اقتصادی نقصان اور تباہی (این ای ایل ڈی)، جیسے ثقافت اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان کو بہتر طریقے سے حل کرسکتے ہیں۔ ایک اور اہم پہلو یہ یقینی بنانا ہے کہ نقصان اور تباہی مالیات (ایل ڈی فنانس) کو نیو کلیکٹو کوانٹیفائیڈ گولز (این سی کیو جیز) میں ضم کیا جائے۔ تاہم، ترقی یافتہ ممالک نے اب تک این سی کیو جی فریم ورک کے اندر کسی مخصوص نقصان اور تباہی مالیاتی اہداف کو شامل کرنے کی مخالفت کی ہے۔
جیسے جیسے آب و ہوا کے اثرات میں شدت آتی جائے گی، عالمی برادری کی اِن میکینزمز کو چلانے اور ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت مشکل ہو جائےگی۔ باکو میں کوپ 29 میں ہونے والے مباحثے نقصان اور تباہی فنڈکے لئے موسمیاتی مالیات کے مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے گی۔ موسمیاتی تبدیلی کے محاذ پر کام کرنے والوں کو بروقت، موثر اور جامع مدد فراہم کرنے میں اِن میکینزمز کی تاثیر عالمی یکجہتی کے لئے ایک لٹمس ٹیسٹ (حقیقت کی جانچ) کا کام کرے گی۔