پی ٹی ایم سے غیر حقیقت پسندانہ مطالبات
ریاست سے زندگی کے حق کا مطالبہ کرنے والی تحریک جس کا بنیادی سوال سیکورٹی سٹیٹ سے یہ ہے کہ وہ اپنی جہادی پراکسیز کی سیاست چھوڑ کر ان کے خطے کو جنگ کا اکھاڑہ بنائے رکھنے سے باز آجائے، ان سے سے آپ کے جوابی مطالبات کس حد تک حقیقت پسندانہ ہیں؟
پی ٹی ایم کوئی چیمبر آف کامرس یا ٹریڈ باڈی نہیں ہے، اس سے معیشت کی بہتری یا کاروباری ترقی کا بیڑا اٹھانے کا مطالبہ مضحکہ خیز ہے ، ظاہر ہے آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں
معاشی ترقی کے لیے حکومتی سہولیات، پالیسی سازی اور انفراسٹرکچر درکار ہوتا ہے جس کی ضمانت حکومت دیتی ہے، اور سرمایہ کاری کی ترغیب دیتی ہے. قبائلی اضلاع میں مہمند میں ماربل سٹی موجود ہے ذرا اس کے حالات کا جائزہ لے لیں، ان سے پوچھیں کہ کام دھندہ کیسا ہے، ٹھپ ہے تو کیوں ہے؟
سیاسی میدان میں اے این پی یا پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پہلے ہی موجود ہیں، اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں ملنے والی صوبائی خود مختاری کے بعد تو پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے مطالبات بھی وہی ہیں جو کبھی قوم پرست جماعتیں کرتی تھیں، حوالے کیلئے علی امین، مشتاق احمد خان وغیرہ کی جرگے میں تقاریر سن لیں. پی ٹی ایم کا اضافہ کیا فوائد لے آئے گا.
احتجاجی تحریکیں ریورس اوسموسس کے ذریعے اپنے مطالبات سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے کا حصہ بناتی ہیں اس میں پی ٹی ایم کامیاب ہے، حالیہ جرگے میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ اور دیگر جماعتوں کی بائیس نکات کی توثیق اس کا اظہار ہے، لیکن آپ کچھ لکھنے سے پہلے پی ٹی ایم جرگے کی پوری کاروائی دیکھ سن لیتے تو بہتر تبصرہ کر پاتے
آپ کا اگلا مطالبہ کہ پی ٹی ایم کو آئینی ذرائع سے ریاست کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے ایک سیاسی محاذ بنانا چاہیے۔
حضور والا! جرگہ اسی جستجو کا اظہار ہے، تمام سیاسی جماعتوں اور قبائلی مشران کے مشورے سے تشکیل دی گئی اسی افراد کی کمیٹی ہی کو مجاز سمجھا جائے کہ وہ مذاکرات اور گفت و شنید کرے نہ کہ ہر ضلع یا تحصیل کی سطح پر ایک آدھ درجن حکومتی وظیفہ خوار ملکان کو بلاوا بھجوا کر ان سے بات کی جائے
یہ تشویش کپ پنجاب کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی پشتونوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے، خاص طور پر اُن لوگوں کے لیے جو پنجاب میں کاروبار کر رہے ہیں۔ تو عرض ہے کہ بائیس نکات میں ایسی کوئی بات نہیں ہے، جہاں تک پنجاب یا ملک کے کسی حصے میں کام کرنے والے پشتونوں کا معاملہ ہے، امتیازی سلوک کا گاہے گاہے وہ نشانہ بنتے رہتے ہیں، زمان پارک کے احتجاج کے دنوں میں جس قسم کی زہر افشانیاں کی گئیں اور پشتون مزدوروں کو جس ذلالت سے دوچار ہونا پڑا (نصرت جاوید اس پر لکھ چکے ہیں) وہ کل ہی کی بات ہے. جرگے نے اپنے مطالبات میں اس سلوک کے خلاف بات کی ہے لیکن کسی قوم کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا.
ہاں ایک بڑی اکثریت کی طرح آپ بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی تنقید کو پنجاب یا پنجابیت پر ضر ب سمجھتے ہیں تو یہ بہرحال محل نظر ہے.
ویسے یہ کام ریاست کے کرنے کا تھا جو کمر توڑنے کے دعوے بارہا کرتی آرہی ہے، مذاکرات اور آباد کاری بھی کی اور اب پاکستانی طالبان کے اتحادی افغان طالبان سے یہی توقع لگائے ہوئے ہے، سردست تو پی ٹی ایم کی جانب سے مسلح سرکاری اور غیر سرکاری جتھوں اور فوج کو ساٹھ دن میں یہ کھڑاگ سمیٹنے کی درخواست ہے، پھر دیکھیں گے اللہ جانے جرگے نے کیا سوچ رکھا ہے.
باقی جب تک جہادی جتھے بندی سے معاشی فوائد وابستہ ہوں، ریاست کی خارجہ پالیسی کیلئے اسے ایک کار آمد پرزے کی نظر سے دیکھا جاتا ہو، کوئی کیوں اس بہتی گنگا سے محروم ہونا چاہے گا، اسی لیے تو پہلی و آخری استدعا ریاست سے ہے کہ مسلح جتھوں کو سیاست (ٹی ایل پی) یا خارجہ پالیسی میں اپنے اہداف حاصل کرنے کا آلہ نہ بنائیں.
پھر مسلسل احتجاجی حکمتِ عملی سے قیادت اور حامیوں کی تھکان یا مایوسی کا خدشہ سر دست تو زیادہ وزن نہیں رکھتا، اب تو احتجاج کے نکات مین اسٹریم ہورہے ہیں، تمام سیاسی جماعتوں نے انہیں اپنا لیا ہے، یعنی کہ پی ٹی ایم نے ایک اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے،
حقوق کی تحریکیں ریاست پر دباؤ ڈال سکتی ہیں اور شعور اجاگر کر سکتی ہیں اور یہی وہ کررہی ہیں. پی ٹی ایم کے بائیس مطالبات کا مطالعہ بھی کرلیں اور گن لیں کہ کتنی بار پاکستان کے آئین اور قانون کا حوالہ دیا گیا ہے.
امید ہے ایک دن سب ہوش کے ناخن لیں گے، ٹرتھ اینڈ ری کنسلی ایشن کمیشن بنے گا اور نئی شروعات کی راہ کھلے گی