مانسہرہ کے رہائشی دلپزیر نے ہزارہ ایکسسپریس نیوز آفس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ اس کے زیر استعمال سم اچانک بند ہو گئی تھی جس پر مجھے بتایا گیا کہ این ٹی این کی وجہ سے ایف بی آر نے بند کی ہے چونکہ میں نے کچھ عرصہ قبل جگہ خریدی تھی اور حلقہ پٹواری نے مجھ سے نان فائلر کی شرح کے مطابق مجھ سے ٹیکس کی رقم وصول کرکے میری غیر موجودگی میری مرضی کے خلاف ایف بی آر مانسہرہ کے اہلکاروں کے ساتھ ملی بھگت سے میرا این ٹی این جنریٹ کرکے مجھے فائلر قرار دے کر سرکاری ٹیکس ہڑپ کرکے قومی خزانے کو لاکھوں روپے کا نقصان پہنچایا اور میرے علم میں یہ بات ایک ہفتے پہلے اس وقت آئی جب میری سم اچانک بند ہو گئی اور جب میں موبائل کمپنی کی فرنچائز پہ گیا تو کمپنی کے نمائندے نے مجھے بتایا کہ آپ کی سم ایف بی آر نے بلاک کی ہے کیوں کہ آپ فائلر تھے اس دفعہ آپ نے گوشوارے جمع نہیں کروائے اس بات پر مجھے کافی حیرانی ہوئی کہ میں نے تو نہ کبھی این ٹی این بنایا اور نہ کبھی فائلر ہوا پھر یہ کیسے ہوا تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ میں نے کچھ عرصہ قبل اراضی خریدی تھی اور پٹواری نے مجھ سے نان فائلر کی شرح سے ٹیکس وصول کرکے بعد ازاں ایف بی آر اہلکاروں کی۔ملی بھگت سے میری غیر موجودگی میں کسی دوسرے شخص کی سم اور ای میل لگا کر میرا این ٹی این جنریٹ کرکے مجھے فائلر قرار دیکر مجھ سے وصول کی گئی نان فائلر کی شرح سے ٹیکس کی اضافی رقم خود ہڑپ کر لی اور قومی خزانے کو صرف ایک میرے کیس میں لاکھوں کا نقصان پہنچایا جبکہ اب میری سم بند ہونے پر میں جمعہ کے روز بیس ستمبر کو ایف بی آر آفس میں اس سم اور ای میل کا پتہ کرنے اور لاگ ان کا پاسورڈ پتہ کرنے گیا تو لاری اڈہ کے ساتھ ہی ٹھاکرہ میں واقع ایف بی آر آفس میں مجھے ایک کمرے میں بھیجا گیا وہاں کمپیوٹر پہ بیٹھے بندے نے مجھے کہا کہ آپ کا کیس تو کافی ہیوی ہے چالیس ہزار بنتے ہیں مگر آپ کتنے دے سکتے ہیں؟ میں نے کہا کہ اتنے پیسے تو میرے پاس نہیں تو میں جیسے ہی واپس نکلنے لگا تو مجھے آواز دی کی اگر پیسے کم ہیں تو بیس ہزار روپے تک آپ کا کام کر دیں گے اس سے کم نہیں ہوں گے اس دوران میں واپس نکلنے لگا تو گیٹ کے باہر ایک بندے نے مجھے کہا کہ میں سفارش کرکے آپ کا کام کروا سکتا ہوں بیس ہزار تک یہ کام ویسے چالیس ہزار سے کم نہیں ہوتا تو میں انکار کرکے سامنے میڈیا کے آفس میں چلا گیا اور وہاں اپنا بیان ریکارڈ کروایا،دلپزیر نے بتایا کہ آفس میں داخل ہوتے وقت اسے بتایا گیا کہ آپ کمپیوٹر آپریٹر فیصل ہارون کے پاس جائیں اور اسی بندے نے مجھ سے رقم کی ڈیمانڈ کی جسے میں چہرے سے پہچان سکتا ہوں اور جس نے گیٹ کے پاس سفارش کرنے کی آفر کی اس کو بھی چہرے سے پہچانتا ہوں مگر اس کا نام نہیں معلوم۔
اس سلسلے میں ہزارہ ایکسپریس نیوز نے ایف بی آر مانسہرہ آفس میں تعینات اسسٹنٹ کمشنر ان لینڈ عمر خالد سے رابطہ کرکے اس خبر کے حوالے سے ان کے سامنے سوال رکھا کہ آیا ایف بی آر آفس مانسہرہ میں ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کے پاسورڈ ریکور کرنے کی کوئی فیس مقرر ہے تو عمر خالد نے بڑے واضع انداز میں بتایا کہ ایف بھی آر آفس مانسہرہ کے فیسیلیٹشن سںنٹر میں لاگ ان پاسورڈ ریکوری ،موبائل نمبر یا ای میل کی تبدیلی کی صورت میں کسی قسم کی کوئی فیس مقرر نہیں ہے اور آفس کے اندر اس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے فری سروس کی رشوت طلب کرنے کی کسی کو کوئی اجازت نہیں ہے،اگر اس طرح کی شکایات ہمارے نوٹس میں لائے جائے تو ہم سخت نوٹس لیتے ہیں یہ جو ٹیکس پئیر دلپزیر سے جس نے رشوت کی ڈیمانڈ کی ہے،وہ تحریری درخواست دے جس کی محکمانہ انکوائری کرکے ثابت ہونے پر تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے گی مزید برآں عمر خالد نے واضع کیا کہ ہمارے آفس میں ریڑن فائل کرنے یا کسی قسم کے ٹیکس گوشوارے جمع کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے نہ ہی ایسی کوئی سروس فراہم کی جاتی ہے اس حوالے سے عملہ کو سختی سے ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ کوئی بھی اہلکار آفس کے اندر ٹیکس گوشوارے جمع کرنے کی سروس کسی کو فراہم نہیں کر سکتا۔
متعدد ٹیکس گزاروں نے ہزارہ ایکسپریس نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ اس ملک میں کوئی بھی نئی حکومتی پالیسی سرکاری اہلکاروں کے لیے یا تو مکمل دھندہ ہوتی ہے یا کسی بڑے دھندے کا حصہ ہوتی ہے،پوائنٹ آف سیل اور ٹیکس ریٹرن کے بدلے سمز کی بندش کی آڑ میں بھی ایک نیے دھندے کا آغاز ہو گیا ہے جب سے ایف بی آر نے سم بند کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے تب سے ایف بی آر مانسہرہ کے اہلکاروں کے وارے نیارے ہیں یہ دن بھر سرکاری کام کرنے اور ٹیکس پئیرز کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے گوشوارے جمع کرنے اور سم کھولنے کی ڈیلنگ کرتے رہتے ہیں ،یہ رات لیٹ آور تک دفتر میں ہوتے ہیں اور کسی بھی سادہ لوح بندے سم کھولنے اور ریٹرن فائل کرنے کے لیے چالیس ہزار روپے سے گھیرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پندرہ سے بیس ہزار تک ڈیل فائنل کرتے ہیں یہ پریکٹس پہلے بھی کافی عرصہ سے چل رہی تھی مگر اب سم بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کو مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر حکومتی پالیسی کو اپنے دھندے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔۔سرکاری طور پر آفس میں گوشوارے جمع کرنا غیر قانونی ہے مگر یہاں بھاری رشوت کے عوض یہ دھندہ دھڑلے سے جاری ہے اور اہلکار کسے جوابدہی اور اپنے فرائض کی ادائیگی کی پرواہ کیے بغیر مال بنانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اوراپنے فرائض میں شامل سروسز کسی کو فری فراہم کرنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔