گھٹنوں کو چھوتی قمیض کے ساتھ سفید ٹراوزر میں ملبوس،پاوں میں سفید چپل اور سر پہ سلیقے سے اوڑھی ہوئی سفید شال میں سارہ تیز قدموں اٹھاتی مین گیٹ کی جانب چل دی۔ "رکو سارہ” سکندر صاحب کی رعب دار آواز گونجی۔” اسلام علیکم "گھبراہٹ میں میخنی سی آواز نکلی۔ "وعلیکم اسلام” یہ صبح صبح کہاں جا رہی ہو؟ گریجویشن تو ہو گئ ہے اب یونیورسٹی۔۔۔کھوں کھوں۔۔۔( کھانسی کا دورہ) ” وہ بابا ایک کمپنی میں CV دی تھی تو انٹرویو کے لیے بلایا ہے آج۔
واہ جاب کی تیاریاں ہیں؟ اور باپ سے پوچھا بھی نہیں، یہ ھے 16 سالہ تعلیم کا اثر ؟۔۔۔میں نے سوچا confirm ھو تو ۔۔۔۔۔بس بہت ہو گیا ۔سکول سے لے کر یونیورسٹی تک ہمیشہ بہتر ین تعلیمی اداروں میں پڑھایا تاکہ شعور آئے ۔اسلیے نہیں کہ روپے پیسے کے لیے جوتیاں چٹخاو۔ ” مگر میں۔۔” بس ! ہمارے خاندان میں لڑکیاں نوکری نہیں کرتی ۔
وطن عزیز میں خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب نوکری کے میدان میں قدم رکھتی ہیں تو انہیں بیش بہا مسائل کا سامنا کرنا پڑھتا ہے ۔جن میں سر فہرست معاشرے کا رویہ، سماجی اور ثقافتی رکاوٹیں، سہولیات کی کمی، دقیانوسی خیالات، صنفی امتیاز،ذاتی سلامتی کے مسائل ہیں۔معاشرے میں ہراسمنٹ کے مسائل، غالب مردانہ رویہ، ٹرانسپورٹ کی سہولیات کا فقدان، غیرت کا مسئلہ اور عورت کی عزت عصمت کے مسائل کی بناء پر مرد حضرات عورت کو چاردیواری میں مقید رکھنے کو ہی مناسب سمجھتے ہیں۔
کوئی بھی معاشرہ عورت ور مرد یعنی تولیدی حوالے سے جنس کی دو اہم اکائیوں سے مل کے بنا ہوا ہے۔آپ 24/7 کسی عورت کی حفاظت نہیں کر سکتے۔آخر کو اسے اس سماج میں نکلنا ہےجہاں اسے اچھے مردوں سے لیکر بری نیت والے بھیڑیوں تک،ہر قسم کے مردوں سے سامنا کرنا پڑے گا۔بجائے اس کے کہ آپ اسے چاردیواری میں مقید کرکے اسے مزید کمزور کریں, بلکہ اسے معاشرے کے مسائل سے آگاہ کریں، اسے شعور دیں، بتائیں کی اس نے اچھے برے کی تمیز کیسے کرنی ہے،رشتوں میں توازن کیسے قائم رکھنا ہے،اپنی اور دوسروں کی حدود کا تعین کیسے کرنا ہے۔ تعلقات میں اپنے آپ کو مضبوط اور خودمختار کیسے بنانا ہے ؟۔تعلیم ہی وہ کلید ہے جو اسے مشکل حالات سے نبردازما ہونے کا گر سکھائے گی اور اپنے حقوق و فرائض کو بہتر طور پہ نبھانے کا ڈھنگ بھی ۔
خدارا خواتین پہ یقین اور بھروسہ
کریں۔
بدقسمتی سے، پاکستانی ریاست اور معاشرہ خواتین کو نظرانداز کر رہا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے اور تمام رکاوٹوں کے باوجود آگے بڑھنے اور کامیابی حاصل کرنے والی خواتین کو نہ تو انعام دیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی صلاحیتوں کا مؤثر استعمال کیا جاتا ہے۔
وہ خواتین جو دقیانوسی تصورات اور صنفی امتیاز کے خلاف لڑ کر اعلی تعلیم کے حصول میں کامیاب ہو جاتی ہیں، پیشہ وارانہ طبقے کا سامنا کرنے کے بعد انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں ! ۔
(2017) کی ایک تحقیق کے مطابق، زیادہ تر خواتین ماہرین تعلیم کام اور گھر کی ذمہ داریوں کو متوازن کرنے میں مدد اور سہولیات کی کمی کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرتی ہیں، چاہے وہ گھر میں ہوں یا کام کی جگہ پر۔
یہ رویہ نقصان دہ ہے کیونکہ، کیونکہ یہ بات وسیع پیمانے پر تسلیم کی جاتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین انسانی سرمائے کی تعمیر اور مجموعی سماجی، ثقافتی، اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک باشعور، معاشی طور پر مستحکم، اور اپنے حقوق و فرائض سے بخوبی آگاہ خاتون نہ صرف معاشرتی مسائل کو بہتر انداز میں سمجھتی ہے بلکہ تعلیمی نظام کا مؤثر استعمال کرتے ہوئے معاشرے کی ترقی میں بھی اپنا فعال کردار ادا کرتی ہے۔
گوگل کی حالیہ رپورٹس اور یونیسکو کے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان کے تعلیمی نظام میں صنفی تفاوت نمایاں طور پر برقرار ہے، خاص طور پر اعلیٰ تعلیم میں اکثر خواتین کی نمائندگی کم ہے۔
ثانوی تعلیم کی سطح پر، پاکستان کے نیشنل اجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (NEMIS) 2021-2022 کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ لڑکیوں کے اندراج کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، مگر وہ اب بھی قبائلی معاشرت سے اخذ کردہ اصولوں، سیاسی و معاشی اختیارات سے محرومی ،کم عمری کی شادیوں اور تعلیمی اداروں تک محدود رسائی کی وجہ سے لڑکوں سے پیچھے ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں ۔
پاکستان میں ثانوی تعلیم کے لیے صنفی برابری کا انڈیکس (جی پی آئی) 0.85 بتایا جاتا ہے، جو کہ ایک نمایاں صنفی فرق کو ظاہر کرتا ہے۔
پاکستان میں خواتین کی مجموعی لیبر فورس میں شرکت کی شرح (LFPR) 21 فیصد ہے جو عالمی شرح 39 فیصد سے کافی کم ہے۔ قومی سطح پر، خواتین (15-64 سال کی عمر) کی بہتر LFPR مردوں کے لیے 84% کے مقابلے میں 26% پر بہت کم ہے۔اک اندازے کے مطابق پاکستانی یونیورسٹیوں میں خواتین تدریسی عملے کا صرف 39.7% حصہ ہیں۔جب ہم تعلیمی عہدوں، فیصلہ سازی کے اداروں اور قائدانہ کرداروں میں خواتین کی نمائندگی کا جائزہ لیتے ہیں، تو صنفی مساوات یا برابری کا دعویٰ کمزور اور گمراہ کن دکھائی دیتا ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی (STEM) کے شعبوں میں خواتین کی موجودگی کم ہے۔ سرکاری اور نجی دونوں یونیورسٹیوں میں خواتین قائدانہ عہدوں پر نمایاں اقلیت میں ہیں۔ مثال کے طور پر، پاکستانی یونیورسٹیوں کے صرف 15 فیصد وائس چانسلرز (VCs) اور ریکٹرز خواتین ہیں، اور فیصلہ سازی کے اہم اداروں (سنڈیکیٹ/BoG، سینیٹ، ASRB، اکیڈمک کونسل، بورڈ آف فیکلٹی، بورڈ آف اسٹڈیز، فنانس اینڈ پلاننگ وغیرہ) میں بھی ان کی تعداد کم ہے۔ سنڈیکیٹ/BoGs میں خواتین کی موجودگی 17 فیصد، سینیٹ میں 15 فیصد، اور ASRB کے ارکان میں ان کا تناسب 7 فیصد ہے۔ اکیڈمک کونسلز میں خواتین کا تناسب 5 فیصد، بورڈ آف فیکلٹیز میں 25 فیصد، بورڈ آف اسٹڈیز میں 21 فیصد، اور فنانس اینڈ پلاننگ میں 24 فیصد ہے۔
یہ اعداد و شمار موجودہ صنفی تعلیمی ثقافت اور مردوں کے ذریعے وضع کردہ ‘حکمران متن’ پرایک گہری نظر ڈالتے ہیں اور صاف نظر آتا ھے کہ کس طرح ان تعلیمی پالیسیوں نے تعلیمی مراکز میں صنفی کردار کو دیوار سے لگایا ہوا ہے۔
پاکستان میں خواتین کی معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ تعلیمی بجٹ میں اضافہ خاص طور پر STEM اور IT کے شعبوں میں خواتین کے لیے خصوصی اسکالرشپ اور جابز کے مواقع فراہم کرنا اور ورک پلیس پالیسیز میں فیملی فرینڈلی اقدامات شامل کرنا اہم ہیں۔ کامیاب بین الاقوامی ماڈلز کو مقامی تناظر میں اپنانا خواتین کے لیے مخصوص ترقیاتی پروگرامز اور تربیتی ورکشاپس کا انعقاد اور حکومت تعلیمی ادارے اور کاروباری اداروں کے درمیان شراکت داری کو فروغ دینا ضروری ہے۔ کمیونٹی بیسڈ تنظیموں کی مدد سے آگاہی بڑھانا اوراجتماعی کوششوں کے ذریعے خواتین کے حقوق اورمواقع میں بہتری لائی ا سکتی ہے، جومعاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔
مریم شکیل ہزارہ یونیورسٹی میں بائیو ٹیکنالوجی کی طالبہ ہیں،مریم کو اردو ادب کے مطالعہ کا شوق ہے۔مریم ہزارہ ایکسپریس نیوز کے لیے لکھتی ہیں۔