Skip to content

کمال سلیم سواتی کی دھمکی آمیز لیکڈ آڈیو اور تصویر کا دوسرا رخ محکمہ تعلیم مانسہرہ میں کیا ہوتا رہا اور ریاست کہاں کھڑی ہے؟ہزارہ ایکسپریس نیوز کی تحقیقاتی رپورٹ۔

شیئر

شیئر

تحقیقاتی رپورٹ : شیرافضل گوجر

دو دنوں سے سوشل میڈیا پر کمال سلیم سواتی کی ایک آڈیو گردش کر رہی ہے جس میں وہ محکمہ تعلیم کے بابر نامی کلرک کی پولیو ڈیوٹی نہ لگانے کی سفارش کرتے سناٸی دیتے ہیں اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر مانسہرہ ریحانہ یاسمین جیسے ہی ٹال مٹول کرتی ہیں تو کمال سلیم کہتے ہیں،” میڈم اگر بابر خان کی پولیو ڈیوٹی لگی تو آپ اپنے لیے کوئی سٹیشن پسند کر لیں ، اور خاتون آفیسر یہ کہہ کر فون بند کر دیتی ہیں کہ ٹھیک ہے پھر ؟

کمال سلیم سواتی کا تعلق ضلع مانسہرہ سے ہے اور اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے صوباٸی ناٸب صدر اور سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی کے بھتیجے ہیں ۔کمال سلیم نے گزشتہ بلدیاتی الیکشن میں پی ٹی آٸی کے ٹکٹ پر تحصیل مانسہرہ سے تحصیل چٸیرمین کا الیکشن بھی لڑا ہے ۔ اس آڈیو کو لیکر سوشل میڈیا پر کافی گرما گرم بحث چل رہی ہے ، کمال سلیم کی طرف سے خاتون آفیسر کو دھمکانے پر شدید تنقید ہو رہی ہے جبکہ دوسری طرف پی ٹی آٸی کا سوشل میڈیا اس آڈیو کو فیک اور مخالفین کی سازش قرار دے رہا ہے ۔

اس ساری صورتحال کو باریکی سے سمجھنے اور اس کے پس منظر میں اصل کہانی تک پہنچنے اور محکمہ تعلیم میں کیا کچھ چل رہا ہے جاننے کے لیے ہزارہ ایکسپریس نیوز نے تحقیق کا آغاز کیا تو آڈیو کے معاملے تک پہنچتے ہوئے یہ خبر ایسے حقاٸق سے پردہ اٹھاتی ہے جو ہماری سیاست ، طرز حکمرانی ، محکمانہ جوابدہی ، شفافیت ، صنفی حساسیت ، بدعنوانی اور لاقانونیت کے بدترین پہلو ہیں جن پر عمومی طور پر میڈیا میں بات نہیں کی جاتی یا کسی ایک خاص نقطے پر بات ہوٸی اور معاملہ رفع دفع کر دیا گیا مگر یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جیسے اس کو سوشل میڈیا پر چسکے لے کر بیان کیا جا رہا ہے۔۔

ہزارہ ایکسپریس نیوز کے سامنے مختلف آپشن تھے ۔ایک آپشن تو یہ تھا کہ کمال سلیم اور ڈی ای او ریحانہ یاسمین کے مابین گفتگو کی لیکڈ آڈیو کو شئیر کر کے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے عام صارف کی طرح تماشائی بن جاتا جو کہ سب سے آسان آپشن تھا جبکہ دوسرے آپشن کے طور پر صحافتہ زمہ داری تھی کہ اس معاملے کی گہرائی تک پہنچ کر حقائق کا پتہ لگایا جاتا،یوں ہزارہ ایکسپریس نیوز نے دوسرے آپشن کے استعمال کا فیصلہ کیا اور ہجوم کی نفسیات کے ساتھ مخالفت میں ہر حد پار کرنے یا حق میں واہ واہ کرنے کے بجائے اصل حقائق سامنے لانے کا فیصلہ کیا۔اس بات سے قطع تعلق کہ اس کے نتائج کس کے حق میں جاتے ہیں اور کس کے خلاف۔

اس سلسلے میں ہزارہ ایکسپریس نیوز نے آڈیو سے اس کہانی کا سرا پکڑا تو یہ کہانی پھیلتے پھیلتے چار سال پیچھے دو ہزار بیس تک چلی گٸی ۔ہزارہ ایکسپریس نیوز کی ریسرچ ٹیم نے اس کہانی کے سارے کرداروں سے رابطہ کرکے ان کا موقف شامل کرنے اور کہانی سے متعلقہ تمام شواہد کو اس سٹوری کا حصہ بنایا ہے۔قارٸین سرخ رنگ سے نمایاں کیے گئے تمام حوالوں اور شواہد پر کلک کر کے ان کا خود بھی مطالعہ اور تصدیق کر سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں کمال سلیم سے فون کال کے زریعے رابطہ کیا گیا اور کمال سلیم نے سوشل میڈیا پر واٸرل ہونے والے آڈیو کی تصدیق کرتے ہوٸے وضاحت کی کہ آڈیو میں گفتگو انکی اپنی ہے جو دس سے پندرہ روز پرانی ہے مگر گفتگو کا مکمل حصہ سوشل میڈیا پر ڈالنے کے بجائے خاتون آفیسر نے صرف وہ حصہ لیک کیا ہے جس کے زریعے اس کو عوامی ہمدردی اور تائید حاصل ہو سکے۔ کمال سلیم نے سفارش کی تصدیق کرتے ہوٸے ہزارہ ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ ہم عوامی نماٸندے ہیں ہمارے پاس لوگ اپنے کاموں کے سلسلے میں آتے ہیں تو ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم لوگوں کے جاٸز کاموں کے سلسلے میں بات کریں۔

جہاں تک دھمکیوں کا تعلق ہے تو اس کا پس منظر یہ ہےکہ جس وقت محکمہ تعلیم کے سینٸر کلرک میرے پاس آٸے تو انہوں نے درخواست کی کہ آفس کے دو مزید اہلکار مختلف وجوہات کی وجہ سے چھٹی پر ہیں کام کا بوجھ ہے,میڈم سے کہ دیں کہ کسی دوسرے اہلکار کی ڈیوٹی لگا دیں جہاں سرکاری کام متاثر نہ ہو اور ساتھ اس نے یہ بھی بتایا کہ ڈی ای او زنانہ ذاتی چپقلش نکالنے کے لیے اسے انتقام کا نشانہ بنا رہی ہےکلرک نے شکوہ کیا کہ کچھ عرصہ پہلے ہی اوگی سے اس نے اپنا تبادلہ مانسہرہ کروایا ہے۔

کمال سلیم نے مزید بتایا کہ مختلف سکول ٹیچرز روزانہ ہمارے گھر آکر شکایتیں کرتی ہیں کہ ڈی ای او آفس میں ٹرانسفر پوسٹنگ کے لٸیے سرے عام رشوت لی جاتی ہے اور فیلڈ میں خواتین ٹیچرز کی ہراسمنٹ ہوتی ہے

اور ڈی ای او کے خاوند کے خلاف گزشتہ کچھ عرصہ سے درجنوں ٹیچرز بلیک میل اور ہراساں کرنے کی شکایات کر رہی ہیں جنہوں نے عدالتوں اور محکمانہ طور پر تحریری شکایات بھی درج کروا رکھی ہیں ۔کمال سلیم کے مطابق جب یہ ساری باتیں میں نے ڈی ای او کے سامنے رکھیں تو اس نے اس ہمیں بلیک میل کرنے اور عوامی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے گفتگو کا کچھ حصہ ایڈیٹ کرکے اس کا سیاق و سباق تبدیل کرکے سوشل میڈیا پر ڈال دیا جو کہ ایک غیر اخلاقی اور غیر قانونی عمل ہے ,

میں عوامی نمائندہ ہونے کے ناطے اپنی ٹیچرز کو ہراساں کرنے اور بلیک میل کرنے کے خلاف اتنا حق تو رکھتا ہوں ,میڈم کو اگر میرے لہجے سے کوٸی شکایت تھی تو مختلف قانونی فورم موجود ہیں وہ وہاں شکایت کر سکتی تھی مگر وہ اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ حربہ استعمال کر رہی ہیں ,کمال سلیم نے وضاحت کی کہ قانون کا طالبعلم ہونے کے ناطے قانونی کاروائی کا بھی حق رکھتا ہوں ۔یہ کمال سلیم کا موقف ہے جو ان کی زبانی سامنے آیا ہے ۔

اس سارے قضیے کو سمجھنے کے لیے جب متعلقہ کلرک بابر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ ہمارا تحصیل آفس ہے جس میں دیگر ساتھی اہلکار مختلف وجوہات کی بنا پر چھٹی پر ہونے کی وجہ سے مجھ پر کام کا بوجھ زیادہ ہے اور اس سلسلے میں متعلقہ خاتون آفیسر سے بھی درخواست کی تھی کہ ضلع کے سٹاف سے کسی کو لگا دیا جاٸے تاکہ سرکاری کام میں حرج نہ پڑے مگر میڈم نے ہٹ دھرمی دکھاٸی تو میں بابر سلیم سواتی کے گھر گیا تو میری درخواست پر کمال سلیم سواتی نے میڈم کو کال کرکے میرے ساتھ دیگر خواتین ٹیچرز کے ایشوز پر بھی بات کی مگر میڈم نے اس مسئلے کو حل کرنے کے بجاٸے گفتگو کی آڈیو لیک کر دی ۔بابر نے بتایا کہ مسئلہ پولیو ڈیوٹی کا نہیں بلکہ میڈم کے موجودہ شوہر جلیل خٹک کے غیر قانونی احکامات نہ ماننے کی پاداش میں ہمیں انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

جلیل خٹک کون ہے ؟

جلیل خٹک ایک ایسا کردار ہے جس کے خلاف محکمہ تعلیم مانسہرہ کی متعدد خواتین اساتذہ اور کلرکس نے نہ صرف کورٹ میں ہراسانی اور بلیک میلنگ کےکیسز داٸر کر رکھے ہیں بلکہ ڈپٹی کمشنر مانسہرہ اور پراٸمری اینڈ ایلیمنٹری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو بلیک میلنگ,ہراسانی اور دھمکیوں کی درجنوں تحریری درخواستیں دے رکھی ہیں جو لوکل اور ڈان جیسے معتبر نیشنل سطح کے قومی اداروں نے رپورٹ بھی کررکھی ہیں۔

محکمہ تعلیم مانسہرہ کی ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر مہر ثانی نے اپنے ڈاٸریکٹوریٹ کے ساتھ ساتھ سیکرٹری ایجوکیشن پشاور اور ڈی پی او مانسہرہ کو دی گٸی درخواست میں جہاں جلیل خٹک پر آٸی ایس آٸی کا آفیسر ظاہر کرکے فیلڈ میں ڈیوٹی کرنے والی خواتین اساتذہ کو بلیک میل اور ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے کاموں کے سلسلے میں ڈی ای او ایجوکیشن آفس جانے والی خواتین اساتذہ پر بے ہودہ جملے کسنے اور دھمکانے کے الزام عاٸد کرتے ہوٸے اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے کے الزام عاٸد کیے ہیں وہاں ڈی ای او ایجوکیشن ریحانہ یاسمین پر مالی کرپشن اور بے ضابطگیوں کے بھی سنگین الزامات عاٸد کیے ہیں ۔یہ سب کو آفیشیل خط و کتابت کے زریعے کیا گیا جو جو سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہے۔

ہزارہ ایکسپریس نیوز کو ملنے والی قابل تصدیق اطلاعات کے مطابق یہ سلسلہ چار سال پہلے اس وقت شروع ہوا جب جلیل خٹک نے ایم فل کی بنیاد پر الاونس کا مطالبہ کرنے والی ایک خاتون سکول ٹیچر کو خلاف ضابطہ الاونس دینے کے لٸیے محکمہ تعلیم زنانہ کے کلرک حق نواز خان کو دھمکی آمیز کالز اور میسجز کیے اور کلرک کی طرف سے غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار پر معاملہ تھانے تک گیا ۔ حق نواز خان کی طرف سے شکایت پر اس وقت کی ڈی ای او نعمانہ سردار نے محکمانہ طور پر ڈپٹی کمشنر مانسہرہ کو خط لکھ کر جلیل خٹک کے خلاف کارواٸی کی درخواست کی مگر اس کے بعد معاملہ فاٸلوں میں دب گیا۔

محکمہ تعلیم مانسہرہ کے سینٸر کلرک حق نواز خان کے مطابق یہ معاملہ جس وقت شروع ہوا اس وقت جلیل خٹک کی ڈی ای او ریحانہ یاسمین کے ساتھ شادی نہیں ہوٸی تھی مگر ایجنسیوں کے نام پر بلیک میلنگ کی شکایات اس وقت بھی موجود تھیں تاہم اس وقت محکمہ کے اندر سے جلیل خٹک کو کوٸی سپورٹ حاصل نہیں تھی مگر جب دو ہزار بائیس میں جلیل خٹک کی طرف سے ڈی ای او ایجوکیشن سے پر اسرار طور پر شادی کے بعد ڈی ای او زنانہ کا دفتر بلیک میلنگ,ہراسانی کا گڑھ بن گیا ۔جلیل خٹک روز آفس آکر بیٹھ جاتا ہے اور آفس کے سارے سرکاری معاملات اپنے ہاتھ میں لیکر ان لوگوں کے ساتھ انتقام کا سلسلہ تیز کر دیا جنہوں نے ڈی ای او کا خاوند بننے سے پہلے اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی یا اس کے غیر قانونی احکامات کو ماننے سے انکار کیا۔۔

اس سلسلے میں ڈی ای او محکمہ تعلیم زنانہ مانسہرہ ریحانہ یاسمین کی طرف سے ڈپٹی ڈی ای او زنانہ مانسہرہ مہر ثانی ، سینئر کلرک حق نواز خان ،ٹیچر مس مارخ ملک اور ڈرائیور قیصر اقبال کے خلاف ایک انکوائری بھی کروائی گئی یہ انکوائری ریحانہ یاسمین کی طرف سے ڈیپارٹمنٹ کو لکھے گئے خط کے نتیجے میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر زنانہ ایبٹ آباد دلشاد بیگم کی سربرائی میں ہوئی مگر محکمانہ انکواٸری کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ ڈی ای او کی طرف سے لگائے گئے تمام الزامات کو بے بنیاد ہیں اور وہ انکوائری کمیٹی کو اپنے الزامات کے ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہیں،اس انکوائری کی فائنڈنگ میں ڈی ای او کو خبردار کیا گیا کہ وہ آئیندہ ایسی حرکات/الزامات سے باز رہے یہ انکوائری رپورٹ ڈپٹی ڈی ای او مہر ثانی کے موقف کی بھی تاٸید کرتی ہے۔ہزارہ ایکسپریس نیوز کے پاس ان تمام خط و کتابت کی تصدیق شدہ کاپیز موجود ہیں جن میں ڈی ای او نے اپنے ماتحت عملہ کے خلاف کاروائیاں کی ہیں اور ان تمام خطوط میں خواتین ٹیچرز کو بلیک میل اور ہراساں کرنے اور دھمکیوں کے حوالے موجود ہیں۔

یہ معاملہ یہاں تک نہیں رکا بلکہ ڈسٹرکٹ زکواة کمیٹی ضلع مانسہرہ کے سابق چٸیر مین ملک جبران اپنی فیملی کی ایک خاتون کی شکایت پر ان کے ساتھ ڈی ای او ایجوکیشن زنانہ کے دفتر گئے تو ان کی موجودگی میں جلیل خٹک نے خاتون ٹیچر کو دھمکیاں دیں جس کے نتیجے میں کافی ہنگامہ کھڑا ہوا اوردونوں طرف سے قانونی کارواٸی کے لٸیے درخواست دینے پر معاملہ ڈی آر سی میں چلا گیا ,ملک جبران سے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو انہوں نے اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے ڈی ار سی کے فیصلے کی کاپی ہزارہ ایکسپریس نیوز کو فراہم کی ہے جو اس سٹوری کا حصہ ہے۔

ڈی آر سی کی رپورٹ کے مطابق یہ فریقین کی طرف سے دی گئی درخواستوں کے مطابق یہ جھگڑا ڈی ای او ایجوکیشن کے دفتر کے اندر پیش آیا ہے ،کسی نتیجے پر پینچنے کے لئے دونوں فریقوں کو طلب کیا گیا مگر بار بار بلانے کے باوجود ڈی ای او ریحانہ یاسمین اس فورم پر پیش نہیں ہوٸیں ،اس رپورٹ میں بھی جلیل خٹک کو وجہ تنازعہ قرار دیتے ہوئے ملک جبران کے خلاف ڈی ای او کے موقف کو خلاف واقعہ قرار دیتے ہوٸے دیتے ہوٸے ڈی ای او ایجوکیشن کے خلاف شکایات کو درست قرار دیا جبکہ اس دوران ڈی ای او نے ملک جبران کے خلاف اپنے دفتر میں ہنگامہ کرنے اور دھمکیاں دینے پربائیس اے کے تحت ایف آئی آر کروانے عدالت سے رجوع کیا تھا ۔

https://hazaraexpressnews.org/wp-content/uploads/2024/05/CamScanner-05-26-2023-10.01.pdfہزارہ ایکسپریس نیوز کے پاس موجود دستاویزی شواہد کے مطابق ڈپٹی ڈی ای او زنانہ مہر ثانی نے اپنے متعلقہ محکمہ سمیت ہر قانونی پلیٹ فارم پر خواتین اساتذہ کو بلیک میل کرنے اور ہراسانی کے بارے میں تحریری طور پر آفیشل چینل سے آگاہ کیا,خواتین اساتذہ نے اپنے محکمہ کو تحریری طور پر آگاہ کرنے ,ڈپٹی کمشنر مانسہرہ درخواست دینے اور کورٹ میں بلیک میلنگ اور ہراسانی سے تحفظ کے لٸیے باقاعدہ کیس داٸر کیا اور پریس کانفرنس کرکے لوکل اور قومی میڈیا کے زریعے مسئلہ تمام متعلقہ فورم تک پہنچایا اور ریکارڈ پر موجود ہونے کے باوجود کے ڈی ای او ایجوکیشن زنانہ کا خاوند آٸی ایس آٸی کا افسر بن کر بلیک میلنگ کر رہا ہے اور ہراساں اور دھمکیاں دے رہا ہے مگر ریاست کے تمام اداروں کے نوٹس میں ہونے کے باوجود کسی قسم کی کوٸی قانونی کارواٸی کرنے اور وضاحت دینے کا اہل نہیں ہے۔

اس سلسلے میں ہزارہ ایکسپریس نیوز نے ڈی ای او زنانہ مانسہرہ ریحانہ یاسمین کا موقف جاننے او سٹوری میں شامل کرنے کے لٸیے تین مرتبہ فون کالز اور وٹس ایپ اور موباٸل میسجز کیے مگر انہوں نے کوٸی رسپانس نہیں دیا ۔ہزارہ ایکسپریس نیوز کا پلیٹ فارم اس سٹوری کے تمام کرداروں کے لٸیے حاضر ہے وہ جب بھی چاہیں اس حوالے سے اپنا موقف پیش کر سکتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ساری صورتحال کا زمہ دار کون ہے؟ کیا سرکاری محکمے اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان کے اندر کیا ہو رہا ہے؟ محکمہ تعلیم یا کسی بھی محکمہ کے اندر جوابدہی،شفافیت یا صنفی حساسیت کا تصور موجود نہیں،محکمہ کے پاس ان مساٸل سے نمٹنے کی صلاحیت موجود نہیں یا یہ تصور اپنی افادیت کھو چکا ہے؟

اگر محکمہ تعلیم کی استعداد کا مسئلہ ہے تو ڈپٹی کمشنر مانسہرہ اور ڈی پی او مانسہرہ کے دفاتر میں گزشتہ چار سالوں سے بلیک میلنگ اور ہراسانی کے خلاف خواتین اساتذہ عرضیاں لیکر طواف کرنے پر مجبور ہیں کیا ضلعی انتظامیہ اور پولیس بھی ایسے بڑے سماجی مساٸل کے سامنے ہاتھ کھڑے کر چکی ہے؟
جن ایجنسیوں کے نام پر بلیک میلنگ کی جا رہی ہے وہ ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں ؟ کیا ایسے کرداروں کو ان کی کوٸی خفیہ یا ظاہری آشیر باد حاصل ہے؟کمال سلیم سواتی کی گفتگو کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد کیا صوبائی حکومت یا محکمہ نے محکموں اور منتخب نمائندوں کی متعین حدود کو زیر بحث لانے یا اس معاملے کی کھوج لگانے کے لئے کوئی انکوائری کمیٹی قائم کی؟

ریاست کے کسی ادارے نے جلیل خٹک کے بارے میں جاننے کی کوشش کی کہ وہ کون ہے؟

دو ہزار بیس سے یہ مسئلہ زبان زد عام ہے کیا کسی عوامی نمائندے نے اس پر کسی پلیٹ فارم پر بات کی؟کیا عوامی نمائندے اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ دیگر صوبائی اور وفاقی محکموں میں کیا ہو رہا ہے؟اگر کلرک کمال سلیم کا خاص نہ ہوتا یا اس کی ڈیوٹی کے لئے ڈی این او ہاں کر دیتی تو محکمہ تعلیم کے اندر سب اچھا کا سلسلہ جاری رہتا ؟ کیا پی ٹی آٸی کی طرز حکمرانی اپنے ذاتی مساٸل تک محدود ہے؟
یہ وہ سوال ہیں جو ہماری ریاست کی بقا اور مستقبل سے جڑے ہیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں