Skip to content

جس شناخت کے لئے ماں باپ،بہن بھائی اور گھر بار چھوڑ دیا،وہ بھی نہی مل رہی؟

شیئر

شیئر

شیر افضل گوجر،عمیر خان آباد

ٹرانس جینڈر مانو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے آفس میں اپنی رجسٹریشن کروا رہی ہیں۔

پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد صنف کی بنیاد پر امتیاز،سماجی تنہائی اور اپنی شناخت کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔

انتالیس سالہ  شانی کوہاٹ روڈ پشاور کی رہاٸشی ہے جس نے میٹرک تک تعلیم اپنے گاوں کے سکول میں حاصل کی ، میٹرک  کے امتحانات کے دوران 2002 میں اپنا گھر چھوڑا اور پھر  اپنے والدین کے جنازوں پر بھی  واپس گھر نہیں لوٹ سکی۔شانی ایک ٹرانس خاتون ہے مگر اس نے گھر والوں کے دباو کے باعث مردانہ بھیس میں رہتے ہوٸے میٹرک تک لڑکوں کے سکول میں ریگولر تعلیم حاصل کی۔

” بھیس بدل کر اداکاری تو کی جا سکتی ہے مگر اپنی اصل شناخت کے بغیر  زندگی نہیں بسر نہیں کی جا سکتی”، یہ بتاتے ہوٸے شانی کی آنکھوں میں آنسو آگیے کہ جس شناخت کے اصول کے لئے گھر بار بہن بھائی سب کچھ چھوڑا آج بائیس سال بعد  بھی اس سے محروم ہیں،۔شانی گزشتہ بیس سال سے ضلع مانسہرہ میں رہاٸش پزیر ہے، شانی کہتی ہے کہ ویسے تو اٹھارہ سال  کی عمر کو پہنچتے ہی اس نے شناختی کارڈ بنانے کی متعدد کوششیں کیں مگر جب سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ  افتخار محمد چوہدری نے خواجہ سرا برادری کو شناختی کارڈ جاری کرنے کے احکامات جاری کئے تب سے وہ اپنے شناختی کارڈ کے لٸیے نادرا دفتر کی  چکر کاٹ رہی ہے مگر ابھی تک وہ  شناختی کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی، وہ کہتی ہیں کہ  قدم قدم پر انہیں شناختی کارڈ کی ضرورت پڑتی ہے مگر جب وہ  شناختی کارڈ کے حصول کے لئے نادرا کے دفتر جاتی ہیں تو نادرا کا عملہ  والدین کے شناختی کارڈز اور فارم ب مانگتاہے اور گرو کو ساتھ لانے کا کہتے ہیں،”ہمیں تو والدین کے جنازوں میں شرکت کی اجازت نہیں ملی،شناختی کارڈ اور فارم ب ہمیں کون دے گا؟گرو کو جب ہم ساتھ لے کر نادرا آفس جاتے ہیں تو نادرا والے کہتے ہیں یہ گروہ ہمارے سسٹم میں رجسٹرڈ نہیں ہے،جب گرو کی رجسٹریشن کا طریقہ کا پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ گروہ کی رجسٹریشن کے لئے پہلے خواجہ سرا کی جنس والا شناختی کارڈ ضروری ہے پھر اسلام آباد نادرا ہیڈ کوارٹر سے رجسٹریشن ہو گی ۔

شانی کے مطابق وہ گزشتہ بارہ  برس سے شناختی کارڈ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں مگر ریاست انہیں شناختی کارڈ بنانے کی اجازت نہیں دے رہی

شانی سے ملتی جلتی کہانی حسین عرف صائمہ کی ہے،صائمہ چارسدہ کے ایک گاوں میاں گانو کی رہائشی ہیں وہ کہتی ہیں گزشتہ سال اکتیس مارچ کو نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے ٹرانسجینڈرز کا قومی دن منایا اور اس نے ایک غیر سرکاری تنظیم سوشل ایمپاورمنٹ تھرو ایجوکیشن اینڈ نالج SEEK کے زریعے مجھے اور میرے دیگر ٹرانسجینڈر ساتھیوں کو نادرا کے دفتر میں بلا کر ہم سب کے شناختی کارڈ کا پراسز شروع کیا،پہلے تو نادرا کے سسٹم سے ہماری سم پر میسج ہی نہیں ہو رہا رہا تھا کیوں کہ ہمارے پاس اپنا شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے  موبائل سم ہمارے نام پر نہیں تھی مگر کافی تگ دو اور افسران کی سفارش کے بعد جب پراسز مکمل ہوا اور ہمیں جو فارم جاری کیا گیا اس پر لکھ کر دیا گیا کہ اس فارم کے ساتھ والدین کے شناختی کارڈز،سوشل ویلفئیر آفس سے سرٹیفیکیٹ اور والدین اور بہن بھائیوں کی بائیو میٹرک تصدیق کے ساتھ پاکستانی شہریت کی تصدیق کے لئے ایک سٹامپ پیپر بھی لکھ کر لائیں جس پر دو گواہوں کے دستخط موجود ہوں مگر میرے لئے تو یہ سب مشکل تھا ،میرے والدین تو نادرا کا شناختی کارڈ جاری ہونے سے پہلے فوت ہو چکے تھے،میں نے اپنے ایک بھائی اور والدین کے نادرا سے پہلے کے پرانے شناختی کارڈ لا کر دئے تو مجھے بتایا گیا کہ نادرا سے پہلے کے شناختی کارڈ کا ڈیٹا موجود نہیں ہوتا آپ اپنے بھائی کو ساتھ لائیں اور بائیو میٹرک کروائیں ، میں نے کہا میرا ایک ہی بھائی تھا جو تو فوت ہو چکا ہے اور پھر مجھ سے بھائی کا فوتگی سرٹیفیکیٹ مانگا میں نے بھائی کا فوتگی سرٹیفیکیٹ اور شناختی کارڈ لا کر دیا اور اپنے بھتیجے کو بھی بڑی مشکل سے چارسدہ سے راضی کرکے لایا مگرجب ہم سوشل ویلفئیر آفس سے سرٹییفیکیٹ لینے گئے تو انہوں نے بتایا کہ وہ تو اس طرح کا کوئی سرٹیفیکیٹ جاری نہیں کرتے یہ بات واپس جا کر نادرا کے دفتر میں بتائی کہ سوشل ویلفئیر آفس تو کوئی سرٹیفیکیٹ جاری نہیں کرتا اور پھر نادرا کے عملہ نے ہمارے فارم اپنے پاس رکھ لئے اور ایک ہفتے کے بعد آنے کو کہا اور اب ہم جب دفتر جاتے ہیں تو ہمیں بتاتے ہیں کہ آپ کے فارم جمع ہی نہیں ہوئے۔

صائمہ کہتی ہیں کہ شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے اسے اپنے والدین کی وراثتی جائیداد میں سے حصہ نہیں ملا کیوں کہ جب میرے بھائی کے بیٹے نے نادرا سے ایف آر سی بنوایا تو فیملی ہسٹری میں میرا نام نہیں تھا ”میرے پاس شناختی کارڈ ہوتا تو نادرا کی فیملی ہسٹری میں میرا نام بھی ہوتا،یوں میری جائیداد کو ہتھیانا خاندان کے دیگر افراد کے لئے اتنا آسان نہ ہوتا”

گل جی شی میل ایسوسی ایشن  ہزارہ ڈویژن کی سابق صدر  اور ٹرانس ایکٹیوسٹ ہیں ،وہ کہتی ہیں کہ دو ہزار بارہ میں سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت ٹرانسجینڈرز کے کچھ شناختی کارڈز بنے تھے مگر  جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق کی طرف سے وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانسجینڈر پرسن پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018  کو چیلینج کرنے کے بعد 2023  میں وفاقی شرعی عدالت نے جب سے فیصلہ دیا کہ یہ ایکٹ شریعت کے خلاف ہے تو اس کے بعد ٹرانس کمیونٹی کو ان کی اصل شناخت سے محروم کر دیا گیا ہے،اب جب جب ٹرانس جینڈرز افراد شناختی کارڈ کے حصول یا شناختی کارڈ کی تجدید کے لئے نادرا دفتر جاتے ہیں تو انہیں  بتایا جاتا ہے  کہ اب مرد اور عورت کے علاؤہ تیسری جنس کی بنیاد شناختی کارڈ نہیں بن سکتا۔

گل جی کہتی ہیں کہ شناختی کارڈ ایک بنیادی دستاویز ہے جو کسی شہری کی شہریت کی تصدیق کرتی ہے اور یوں شناختی کارڈ کا حامل شہری ہی ریاست سے آئین  میں دئیے گٸے بنیادی انسانی حقوق کا مطالبہ کر سکتا ہے۔پاکستان میں کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ لینا ہو,کوٸی سکالر شپ ہو، ہیلتھ سروس ہو یا کسی بھی سرکاری ادارے سے کوٸی کمیونٹی  سروس حاصل کرنی ہو اس کے لٸے شناختی کارڈ بنیادی شرط ہے ۔اس طرح محروم اور پسماندہ طبقات کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لٸے بھی حکومت کی طرف سے جاری کردہ سوشل سیکیورٹی کے پروگرامز اور سکیموں میں شامل ہونے کے لٸے شناختی کارڈ بنیادی شرط ہے۔ہم بھی انسان ہیں ہماری بھی دیگر انسانوں کی طرح ضروریات ہیں، اگر کوئی ٹرانس جینڈر  بینک میں اکاونٹ کھلوانا چاہتا ہے، موباٸل سم حاصل کرنا چاہتا ہے، این ٹی این بنانا چاہتا ہے، SECP میں کوئی کمپنی رجسٹرڈ کرنا چاہتا ہے، کوٸی NGO رجسٹرڈ کرنا چاہتا ہے، کسی کمپنی کا NGO کے بورڈ کا ممبر بننا چاہتا ہے تو وہ یہ تمام سروسز سے اس لئے محروم رہتا ہے کہ اس کے پاس اپنا قومی شناختی کارڈ موجود نہیں ہوتا۔

گل مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ وفاقی حکومت کی طرف سے گزشتہ سال پاکستان میں موجود ٹرانس جینڈر افراد کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے مگر بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام میں صرف وہ ٹرانس جینڈرز رجسٹرڈ ہوسکتے ہیں جن کا ٹرانس جینڈر شناختی کارڈ یعنی تیسری جنس کا حامل  X   کارڈ ہوگا۔ جبکہ دوسری جانب نادرا نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کے بعد اپنے سسٹم سے تیسری جنس کا خانہ ہی ختم کر دیا تھا اور کوئی بھی ٹرانس جینڈر اپنی اصل شناخت کے ساتھ شناختی کارڈ نہیں بنوا سکتا اب ٹرانس جینڈر اپنے شناختی کارڈ میں جنس کے سامنے مرد یا عورت لکھوا کر ہی کارڈ حاصل کر سکتے ہیں۔ اور دو ہزار بارہ میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر بننے والے ٹرانس جینڈرز کے وہ کارڈز بھی بلاک کر دیے گئے ہیں جن پر ان کی اصل شناخت موجود تھی۔اب اگرچہ نادرا نے ٹرانس جینڈر   کا شناختی کارڈ بنانے کے حوالے سے دوبارہ ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے مگر نادرا کے سسٹم میں ابھی تک تیسری جنس پراسز نہیں ہو رہی

وفاقی حکومت کی طرف سے خواجہ سراوں کی بینظیر کفالت پروگرام میں رجسٹریشن کا قومی اخبارات میں جاری کردہ اشتہار

 اس سلسلے میں نادرا ترجمان کا کہنا ہے کہ سسٹم میں ایگزی جنریٹ ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا۔ دوسری جانب حکومت کی طرف سے ٹرانس جینڈر افراد کو  نظیر انکم سپورٹ پروگرام  میں شامل کرنے کے فیصلے کے بعد جب کوئی ٹرانس جینڈر اپنی رجسٹریشن کروانے کے لٸے BISP کے رجسٹریشن سنٹر میں جاتا ہے تو وہ ٹرانس جینڈرز سے ان کی اصل شناخت کا حامل یعنی x کییٹیگری کارڈ طلب کرتے ہیں،  یوں شناختی کارڈ بنانے کے خواہشمند ٹرانس جینڈرز کو ایک ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

 بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام رجسٹریشن سنٹر مانسہرہ میں رجسٹریشن کے لئے آنے والی  ٹرانس جینڈر مانو کا کہنا ہے کہ ہمیں میڈیا کے زریعے پتہ چلا کہ وفاقی حکومت نے ٹرانسجینڈر افراد کو  بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں شامل کر دیا ہے تو یہ ہمارے لئے بڑی خوشی کی خبر تھی چونکہ میرا تیسری جنس کا حامل شناختی کارڈ بنا ہوا ہے جس پر جنس کے خانہ میں x  کا نشان بھی موجود ہے مگر میں جب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام/نینظیر کفالت میں آپلائی کیلئے گئی تو BISP والوں نے کہا آپ کا شناختی کارڈ نادرا سے  ویلیڈیٹ نہیں ہو رہا اور جب یہ پتہ کرنے کے لٸے نادرا آفس گئی تو نادرا اہلکاروں نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کے بعد نادرا نے تیسری جنس کا خانہ ختم کر دیا ہے اور جن لوگوں کے شناختی کارڈ پر مرد اور عورت کے علاوہ تیسری جنس درج ہے ان کے کارڈز بلاک ہو چکے ہیں۔ یعنی وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ سے قبل سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت بننے والے کارڈ  X بھی بلاک کر دٸیے گٸے ہیں جس کی وجہ سے اب وہ اپنی ہر شناخت اور ریاستی کی طرف سے فراہم کردہ سروسز اور دیگر سہولیات سے محروم ہو چکی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تیسری جنس کے حامل کارڈز کو بنانا بند کر دیا ہے اور پہلے سے بنے ہوئے کارڈز کو بلاک کر دیا ہے تو  پھر بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ٹرانس جینڈرز کیسے رجسٹرڈ ہو سکتے ہیں یا  سوشل سیکیورٹی کی کسی حکومتی سکیم سے  کیسے استفادہ کرسکتے ہیں؟؟؟

ہزارہ ایکسپریس نیوز نے اس حوالے سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر زون 2  نادرا مانسہرہ خرم شہزاد، ڈپٹی ڈائریکٹر بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام  زرنبی سید ، ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئر آفیسر مانسہرہ سید صابر شاہ اور ٹرانسجینڈرز کے لئے کام کرنے والے غیر سرکاری تنظیم سوشل

ایمپاورمنٹ تھرو ایجوکیشن اینڈ نالج SEEK کی چئیر پرسن ردا خان ،ڈائریکٹر آوٹ ریچ عامر ہزاروی  اور ٹرانسجینڈرز نمائندوں سے گفتگو کی ہے اور اس سارے قضیے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

زر نبی سید ڈپٹی ڈاٸریکٹر بینظیرانکم سپورٹ پروگرام

اس حوالے سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر زر نبی سید کا کہنا ہے کہ BISP میں رجسٹریشن کیلئے ٹرانس جینڈرز کا اپنی اصل شناخت کے ساتھ قومی شناختی  کارڈ ہونا ضروری ہے، ان کا کہنا کہ حکومت پاکستان کی پالیسی کے مطابق صرف ان ٹرانس جینڈرز کو BISP میں شامل کیا جائے گا جن کے پاس ٹرانس جینڈر یعنی تیسری جنس کا حامل کارڈ ہوگا۔ اس کے علاؤہ ہم ایسے کسی ٹرانس جینڈر کو رجسٹرڈ نہیں کر سکتے جن کی صنفی شناخت میں مرد یا عورت لکھا ہو کیونکہBISP میں نادرا آفس کے ڈیٹا کی بنیاد پہ ہی لوگوں کی رجسٹریشن کی جاتی ہے۔

سوشل ویلفیئر، سپیشل پرسن اینڈ وومن ایمپاورمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی ٹرانسجینڈرز کے حوالے سے کیا زمہ داری ہے؟

سید صابر علی شاہ ڈسٹرکٹ آفیسر سوشل ویلفٸیر مانسہرہ

ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئر، سپیشل پرسن اینڈ وومن ایمپاورمنٹ آفیسر مانسہرہ سید صابر علی شاہ کے مطابق 2021 تک ان کے پاس تقریباً 90 ٹرانس جینڈرز رجسٹرڈ تھے جن کا ڈیٹا مینوئل طریقے سے ایک رجسٹرڈ میں درج کیا جاتا تھا اور اب جب سے محکمہ نے  ایم آئی ایس سسٹم ڈویلپ کیا ہے  تو اس میں ہمارے پاس 22 ٹرانس جینڈرز رجسٹرڈ ہوئے تھے جن میں سے سسٹم نے گیارہ کا ڈیٹا اڑا دیا ہے اور اب صرف گیارہ ٹرانس جینڈر کا ڈیٹا MIS پر موجود ہے۔

شاہ کے مطابق MIS سسٹم پر رجسٹریشن  کے لٸے ٹرانس جینڈر پرسن سے ان کے شناختی کارڈ کی کاپی اور ایک عدد تصویر کی ضرورت پڑتی ہے، جس ٹرانس جینڈر کو ہم اپنے MIS سسٹم پر رجسٹرڈ کرتے ہیں اس کی زبانی  نشاندی پر ساتھ اس کے گروو کا نام بھی سسٹم میں درج کر دیتے ہیں۔ شاہ کا کہنا ہے کہ محکمہ کی طرف سے دو ہزار اٹھارہ میں ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا تھا جس میں ضلعی سطح پر ایک سب کمیٹی بھی قائم کرنے کے احکامات دٸیے گٸے تھے اس نوٹیفیکیشن کے مطابق متعلقہ ضلع  میں ڈپٹی کمشنر اس کمیٹی کا سربراہ، ڈسٹرکٹ آفیسر سوشل ویلفٸیر کمیٹی کا جنرل سیکرٹری اور اسسٹنٹ ڈاٸریکٹر نادرا اس سب کمیٹی کا ممبر ہوگا اور یہ تین رکنی کمیٹی ٹرانس جینڈرز پرسن کی طرف سے سوشل ویلفٸیر آفس میں جمع کروائے گٸے کوائف کی ویریفیکیشن کرے گی۔شاہ کے مطابق اس کے علاوہ محکمہ کے پاس ٹرانس جینڈر پرسن کی رجسٹریشن کے لٸے کوئی ToRs یا SoP موجود نہیں ہے۔

صابر شاہ کے مطابق نادرا آفس ٹرانس جینڈرز کے شناختی کارڈ بنانے کیلئے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ سے سرٹیفیکیٹ کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اس قسم کا کوئی سرٹیفکیٹ جاری ہی نہیں کرتا اور نہ ہی MIS سسٹم کوئی ایسا ڈاکیومنٹ جنریٹ کرتا ہے جس سے رجسٹرڈ فرد کی رجسٹریشن کا کوئی قانونی ثبوت ملتا ہو۔

صابر شاہ کو گلہ ہے کہ ٹرانس جینڈرز کمیونٹی کی جانب سے بھی تعاون نہیں کیا جا رہا،مثلآ ابھی تک سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں کسی بھی ٹرانس جینڈر نے کوئی درخواست نہیں دی کہ ہمیں شناختی کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کئی ٹرانس جینڈرز کے گھروں/ ڈیروں پہ بھی رجسٹریشن ٹیم بھیج چکا ہے مگر ہمیں مثبت ریسپانس نہیں ملا۔

 اس سلسلے میں ایک اور ٹرانس جینڈر تانیہ کا کہنا ہے کہ ”ہم کسی بھی محکمے میں جائیں تو ہم سے شناختی کارڈ مانگا جاتا ہے، ہم جب شناختی کارڈ کیلئے نادرا جاتے ہیں تو وہ ہمیں مرد یا عورت کے علاؤہ تسلیم نہیں کرتے، تانیہ کا کہنا ہے جو جنس ہماری ہی ہی نہیں وہ شناخت کیسے اپنائیں؟ اور جو جنس ہماری ہے وہ ریاست تسلیم نہیں کرتی،جب ہماری کہیں شنوائی ہی نہیں ہو رہی تو درخواستیں دینے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ان کا کہنا تھا کہ کیا ہم پاکستانی شہری نہیں جو ہمیں شناخت سے محروم رکھا جا رہا ہے“؟

نادرا ٹرانسجینڈر کو کیسے ڈیل کرتا ہے؟

خرم شہزاد زونل اے ڈی نادرا

 اسسٹنٹ ڈائریکٹر  زونل نادرا خرم شہزاد کا اس حوالے سے موقف ہے کہ  بنیادی طور پر نادرا آفس دو مرکزی  جینڈرز یعنی مرد اور عورت کو ڈیل کرتا ہے، ان دونوں کیلئے نادرا نے ایک جیسی SOPs تیار کر رکھی ہیں،

جبکہ ٹرانس جینڈر کے لٸے مخصوص SoP ہیں جس کے مطابق ایسے ٹرانس جینڈر جو اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں یا رابطے میں ہیں تو ایسے ٹرانس جینڈرز کو شناختی کارڈ بنانے کیلئے ان کے فیملی ممبر کا ساتھ آنا ضروری ہے اور پہلی دفعہ شناختی کارڈ بنانے کی صورت میں  وہ اپنے ظاہری حلیہ (فزیکل اپیرینس) کے مطابق مرد یا عورت میں کسی ایک جنس کو اپنی لئے بطور جنس کا انتخاب کر سکتے ہیں اور جن ٹرانس جینڈرز کے فیملی ممبر ان کے ساتھ نہیں آتے ان کے شناختی کارڈ بنانے کیلئے ان کے گروو کا ساتھ آنا ضروری ہے۔ یاد رہے ایک گروو اپنے ساتھ بیس ٹرانس جینڈرز (چیلے یا شاگرد) رکھ سکتا ہے۔

خرم شہزاد نے گروو کے رجسٹریشن کے حوالے سے بتایا کہ گروو کی رجسٹریشن کیلئے اس کا ٹرانس جینڈر ہونا ضروری ہے، وہ ٹرانس جینڈر جس کے پاس نادرا کا قومی شناختی کارڈ  یعنی تیسری جنس کی  شناختی علامت کا حامل کارڈ کا ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ  نادرا آفس مانسہرہ میں ابھی تک کوئی بھی ٹرانس جینڈر بطور گروو رجسٹرڈ نہیں ہے اس کی وجہ ٹرانس جینڈرز میں شناختی کارڈ بنانے اور نادرا کی پالیسی کا علم نہ ہونا ہے۔

 شانی کے مطابق آٹھ اضلاع پہ مشتمل ہزارہ ڈویژن میں کوئی ایک گروو بھی نادرا میں رجسٹرڈ نہیں اس کی وجہ پیچیدہ پالیسیاں اور ایسی دستاویزات کا مطالبہ ہے جو ہم جیسے بے گھر ٹرانس جینڈر کبھی پورا ہی نہیں کر سکتے۔

اسسٹنٹ ڈائریکٹر نادرا سے کے سامنے یہ سوال رکھا گیا کہ جو لوگ پہلی دفعہ  شناختی کارڈ بناتے وقت سیلف پرسیو آئیڈنٹٹی کی بنیاد اپنا جنس لکھواتے ہیں جبکہ ٹرانس جینڈرز زیادہ تر بطور مرد رجسٹرڈ ہیں بعد میں وہ اس میں درستگی یا  تبدیل کرنا چاہیں تو کیا طریقہ کار ہوگا اور کون سے ڈاکومنٹس ضروری ہونگے؟

اس کا جواب دیتے ہوئے خرم شہزاد نے بتایا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلہ کے بعد  فلحال نادرا نے اس پر کام روکا ہوا ہے، جب تک نئی پالیسی نہیں آتی، کوئی ٹرانس جینڈر اپنا جنس تبدیل نہیں کروا سکتا۔

ٹرانسجینڈرز کے حقوق کے لئے کام کرنے والے سوشل ایکٹوسٹس اس سارے قضیے کو کیسے دیکھتے ہیں؟

اس سلسلے میں ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے لٸے کام کرنے والی مقامی سماجی تنظیم سوشمل ایمپاورمنٹ تھرو ایجوکیشن اینڈ نالج SEEK کے ڈائریکٹر آوٹ ریچ عامر ہزاروی کہتے ہیں  کہ ٹرانس جینڈرز کے شناختی کارڈ بننے میں جو بڑی رکاوٹ ہے وہ نادرا کی  پالیسی پر اس کی روح کے مطابق عملدر آمد کا نہ ہونا ہے۔ ٹرانس جینڈرز کی رجسٹریشن کے لٸے نادرا کی SoP کچھ کہتی ہے جبکہ صوبائی حکومت کے احکامات کچھ اور ہیں، صوبائی حکومت کے نوٹیفیکیشن کے مطابق بنیادی طور پر سوشل ویلفٸیر ڈیپارٹمنٹ، نادرا اور ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن ٹرانس جینڈرز کی رجسٹریشن کے سلسلے میں مل کر کردار ادا کریں گے جبکہ نادرا کی SoP میں دی گئی گاٸیڈ لاٸنز سے صوباٸی حکومت کا یہ نوٹیفیکشن  مطابقت نہیں رکھتا، ہزاروی کے مطابق  ٹرانس جینڈر کو ڈیل کرنے والے تین  مختلف اداروں کی  ٹرانس جینڈرز کے بارے میں بنیادی نالج انتہائی سطحی اور ناقص ہے، تینوں اداروں کو قانون کے مطابق پابند کیا گیا ہے کہ وہ سب کمیٹی تشکیل دے کر ہر ماہ صوبائی حکومت کو رپورٹ کریں گے مگر پانچ سالوں میں شائد ہی کوئی ایسی با ضابطہ  میٹنگ ہوئی ہو یا ایسی کوئی رپورٹ صوبائی حکومت کو بھیجی گئی ہو جس میں ٹرانس جینڈر کے اس بنیادی انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والے اہم مسلہ کو زیر بحث لایا ہو۔ان اداروں کی آپس میں کو آرڈینیشن اور نالج شئیرنگ کا میکنزم بھی ناقص ہے، ٹرانس جینڈرز کی رجسٹریشن کرنے کی زمہ داری سوشل ویلفٸیر ڈیپارٹمنٹ کی ہے مگر سوشل ویلفٸیر ڈیپارٹمنٹ کے پاس رجسٹریشن کے ToRs موجود نہیں ہیں،نہ ہی سوشل ویلفئر ڈیپارٹمنٹ  کوٸی ایسی قانونی دستاویز  جاری کرتا جس سے ٹرانس جینڈر کی رجسٹریشن کا کوٸی قانونی ثبوت ملتا ہو, نادرا کی SoP واضح ہے مگر عملہ ایس اوپی کے بارے میں  کنفیوژڈ ہے,نادرا ایس او پی کی سمجھ نادرا کے اہلکاروں  کو بھی نہیں آ رہی۔ مثلآ ٹرانس جینڈرز کے شناختی کارڈ بنانے کیلئے نادرا اہلکار درخواست گزاروں سے  سوشل ویلفٸیر سے متعلق   وہ دستاویزات مانگتے ہیں  جو سوشل ویلفٸیر آفس جاری ہی نہیں کر رہا۔

عامر ہزاروی کا کہنا ہے کہ نادرا آفس کے اہلکار ٹرانس جینڈرز کے شناختی کارڈ بنانے کیلئے انہیں سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ سے سرٹیفکیٹ لانے کیلئے بھیجتے ہیں، جب وہ وہاں جاتے ہیں تو سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ ان سے نادرا کا شناختی کارڈ مانگتے ہیں، ابھی تک یہ طے ہی نہیں ہوا کہ پہلے کس ادارے نے کس ادارے سے ویری فیکیشن کرانی ہے۔ جبکہ اصل میں سوشل ویلفٸیر آفس سے ٹرانس جینڈرز کے لٸے کوئی سرٹیفیکیٹ جاری ہی نہیں ہوتا بلکہ نادرا کی SoP کے ساتھ ایک درخواست کا فارمیٹ ہے جسے بیس روپے سے زائد مالیت کے سٹامپ پیپر پر شناختی کارڈ بنانے کے خواہشمند ٹرانس جینڈر کو اپنی زاتی معلومات  نام، عرفیت اور پتہ وغیرہ درج کر کے سوشل ویلفٸیر  آفس میں جمع کرنا ضروری ہے اور نادرا SoP کے مطابق سوشل ویلفٸیر آفیسر اس درخواست کے کوائف کی تصدیق کرکے اپنی رپورٹ کے ساتھ  سات دنوں کے اندر یہ درخواست نادرا  کے دفتر جمع کرنے کا پابند ہے اس کے علاوہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ سرٹیفکیٹ دینے کا پابند ہی نہیں اور نہ ہی ان کا یہ ڈومین ہے۔

نادرا کی ٹرانس جینڈرز کے متعلق مخصوص SoP کیا ہے؟

نادرا کی SoP کے مطابق  جن ٹرانس جینڈرز کو اپنے والدین کے نام یاد ہیں وہ اپنے والدین کے درست ناموں کے ساتھ اندراج کر سکتے ہیں جبکہ جن کے والدین کے نام انہیں یاد نہیں یا ایسی کوئی شناخت ان کے پاس نہیں جن سے والدین کی تصدیق ہو سکے تو اس کے لٸے  نادرا کے پاس  پہلے سے موجود ”آرفین ایج “ ماڈیول کا استعمال کیا جائے گا جس کے تحت سسٹم خود ہی کوئی ایک نام منتخب کر لیتا ہے جو والد کے خانے میں درج کر لیا جاتا ہے۔ نادرا ایس او پی کے تحت نادرا پہلی دفعہ بغیر کسی فیس کے سات دنوں کے اندر ٹرانس جینڈر کو قومی شناختی کارڈ دینے کا پابند ہے مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا، نادرا کی طرف سے ٹرانس جینڈر کے لٸے جاری مخصوص SoP کے بارے میں تربیت نہ ہونے کی وجہ سے نادرا آفس کے اہلکاروں کو اپنے ادراے کی جانب سے دیے گئے احکامات کی مکمل سمجھ بوجھ بھی نہیں، جس کی وجہ سے وہ درخواست گزار کو بھی کنفیوز کرتے ہیں،وہ دستاویزات مانگتے ہیں جن کا ایس او پی میں زکر ہی نہیں اور ٹرانسجینڈرز کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔

ٹرانس جینڈر شانی کے مطابق گزشتہ دو سالوں سے  جس کسی بھی ایسے  ٹرانس جینڈر نے شناختی کارڈ کے لٸیے اپلائی کیا جن کے والدین اور ان کے شناختی کارڈز ان کے پاس موجود نہیں تھے ان کے کارڈز پراسز نہیں ہوٸے، نادرا اہلکار ان کی شناختی کارڈ کی درخواست پر کبھی میڈیکل سرٹیفیکیٹ، کبھی سوشل ویلفٸیر سرٹیفیکیٹ، والدین کی بائیو میٹرک تصدیق، والدین اور بھائیوں کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹس اور کبھی دو گواہان اور گرو کی تصدیق  لازمی قرار دے کر ان کی درخواست پراسز نہیں کرتے جس کی وجہ سے کوئی ایک شناختی کارڈ بھی نہیں بن سکا۔

ٹرانسجینڈر گرو کی رجسٹریشن کا عمل؟

عامر ہزاروی  کے مطابق یہی مسئلہ ٹرانس جینڈر گرو(گرو ٹرانس جینڈر افراد میں ایک ایسے فرد کو کہا جاتا ہے جو بطور ماں یا باپ اپنے چیلوں/شاگردوں کی پرورش اور دیکھ بھال کرتا ہے) کی رجسٹریشن کا بھی ہے، نادرا کی ایس او پی میں گروکی رجسٹریشن کے لٸے دو طریقہ ہائے کار درج ہیں ایک وہ جن کا شناختی کارڈ بنا ہوا ہے  ان کے لٸے شناختی کارڈ کی کاپی اور بیس روپے سے زاٸد کے سٹامپ پیپر پر درخواست اور ایک وہ جن کے پاس شناختی کارڈ موجود نہیں ہے اس اس کے لٸے وہی سوشل ویلفٸیر آفس کا درخواست فارم کا فارمیٹ  جو بیس روپے سے زاٸد کے سٹامپ پیپر پر درخواست کی صورت میں سوشل ویلفٸیر آفس جمع کرنا پڑتا ہے اور سوشل ویلفٸیر آفیسر کوائف کی تصدیق کرکے اپنی رپورٹ کے ساتھ نادرا آفس جمع کرواتا ہے مگر نادرا آفس کے اہلکار نادرا کی SoPs کو فالو کرنے کے بجائے  گرو کی رجسٹریشن کیلئے ٹرانس جینڈر سے تیسری جنس کا حامل  کارڈ مانگتے ہیں، جبکہ تیسری جنس کے کارڈ وہ بنا کے دے ہی نہیں رہے بلکہ سپریم کورٹ کے حکم پر پہلے سے بنے ہوئےکارڈ بھی وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کے بعد  بلاک کر دیے ہیں۔

اب اس صورت حال میں کوئی ٹرانس جینڈر کیسے خود کو بطور گرو رجسٹرڈ کروا سکتا ہے؟ SoP میں گرو کے لٸے بس اتنی ہدایات ہیں کہ وہ کسی بھی ریجنل آفس سے پراسز کرے اور ہر نادرا آفس بطور گروہ رجسٹریشن کے خواشمند ٹرانس جینڈر کی درخواست کے ساتھ لف بیان حلفی اور درخواست فارم کو اسی دن بذریعہ ای میل ہیڈ کوارٹر بھیجنے کا پابند ہے اور اسی طرح گرو کے ساتھ رجسٹر ہونے والے ٹرانس جینڈر کی حیثیت ایڈاپٹڈ بچے کی سی ہو گی مگر  نادرا دفاتر میں SoP میں دی گٸی گاٸیڈ لاٸنز کے برعکس گرو کی رجسٹریشن کا عمل بھی پیچیدہ بنا دیا گیا ہے ۔جو ٹرانس جینڈر گرو اپنی رجسٹریشن کے لٸے نادرا آفس جاتا ہے اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ گرو کی رجسٹریشن  کسی ریجنل سنٹر سے نہیں بلکہ ہیڈ کوارٹر یعنی اسلام آباد سے ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہزارہ ڈویژن کے آٹھ اضلاع میں کوٸی ٹرانس جینڈر بطور گرو رجسٹرڈ نہیں ہو سکا۔

شانی کے مطابق مانسہرہ میں مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے  تقریباً 150 ٹرانس جینڈرز رہاٸش پذیر  ہیں جبکہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں 11 رجسٹرڈ ہیں، اسی طرح مانسہرہ میں تقریباً 25 گروو ہیں جبکہ نادرا آفس میں کوئی ایک بھی بطور گروو رجسٹرڈ نہیں۔

اقوام متحدہ کے پاکستان میں کام کرنے والے ادارے یو این ڈی پی نے دسمبر 2023  میں پاکستان کو ٹرانس جینڈرز کی سیاسی و سماجی شمولیت کے لئے ایک قومی سٹریٹیجک فریم فرک تیار کر کے دیا ہے  اس منصوبے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں خواجہ سرا برادری کو نہ صرف سیاسی عمل میں شامل کیا جائے بلکہ ان کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا جائے۔ اس منصوبے کی تیاری کے دوران اس بات کا پتہ لگانے کے لئے  کہ خواجہ سراؤں کو کن مشکلات کا سامنا ہے اور ان کو حل کرنے کے لئے کون سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، ٹرانس جینڈرز سمیت مختلف مکاتب فکر کے ساتھ بات چیت کی گئی سب کی مشاورت سے کچھ سفارشات بھی اس فریم ورک میں شامل کی گئی ہیں مگر تا حال اس فریم ورک پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

کسی بھی شہری کیلئے شناختی کارڈ بنیادی لیگل ڈاکیومنٹ ہے، شناختی کارڈ ملنے کے بعد ہی کوئی فرد شہری کہلانے ،آئین میں دئے گئےاپنے شہری حقوق کا مطالبہ کرنے اور ریاستی سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے لئے اہل ہو سکتا ہے۔ اگر حکومت ٹرانس جینڈرز کی سماجی شمولیت میں سنجیدہ ہے  تو حکومت کاغذات پر ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے ترقی پسند قوانین بنانے کے بجائے عملی طور پر پیچیدہ نظام ختم کر کے ان کے لئے آسانیاں پیدا کرے تا کہ سماجی تنہائی کا شکار یہ طبقہ  بھی اپنے شہری حقوق انجوائے کر سکے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں