Skip to content

سکاؤٹس کیڈٹ کالج بٹراسی اور دوسرے تعلیمی اداروں میں جاری کشمکش اور اختیارات کی جنگ

شیئر

شیئر

تحریر: راشد خان سواتی

بٹراسی کیڈٹ کالج میں جاری انتظامی اور اختیاراتی کشمکش کے باعث گزشتہ کافی عرصے سے مانسہرہ میں قائم اس عظیم تعلیمی اور تربیتی ادارے کی ساکھ بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ سکاؤٹس کیڈٹ کالج بٹراسی نہ صرف اپنی معیاری تعلیمی خدمات کے حوالے سے ایک نمایاں مقام رکھتا ہے بلکہ قومی تقریبات، بالخصوص یومِ پاکستان کے موقع پر اس کے سکاؤٹس اور کیڈٹ دستوں کی پریڈ میں شرکت پورے ضلع مانسہرہ ہی نہیں بلکہ تمام تعلیمی اداروں کے لیے باعثِ فخر اور اعزاز سمجھی جاتی ہے۔

سکاؤٹنگ کا بنیادی مقصد ہمدردی، تعاون، بھائی چارہ، نظم و ضبط اور امن و امان کے قیام میں عملی کردار ادا کرنا ہے۔ میں ہمیشہ سے یہ امید رکھتا آیا ہوں کہ جس طرح بٹراسی کیڈٹ کالج کے سینئر سکاؤٹس اپنے نئے آنے والے سکاؤٹس کو خوش آمدید کہتے ہیں، دور دراز علاقوں سے آنے والے طلبہ کی رہنمائی کرتے ہیں اور ان سے خلوص و ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، اسی طرح یہ سکاؤٹس کمیونٹی کی خدمت میں بھی پیش پیش نظر آئیں گے۔ خواہ وہ بازاروں میں رش کے دوران ٹریفک پولیس کے ساتھ تعاون ہو، یا ہنگامی حالات میں ریسکیو اور سول ڈیفنس کے شانہ بشانہ خدمات ہوں، سکاؤٹس کی موجودگی معاشرے کے لیے ایک مثبت پیغام ہونی چاہیے۔

بدقسمتی سے، بٹراسی کیڈٹ کالج کا مسئلہ کوئی منفرد نہیں۔ دیگر اداروں کی طرح ہمارے تعلیمی ادارے بھی اختیارات کی کشمکش، انا کی جنگ اور اپنی برتری ثابت کرنے کی دوڑ کی نذر ہوتے جا رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں موجود بعض ’’ہیوی ویٹ لفٹنگ‘‘ سوچ رکھنے والی ایسوسی ایشنز اور گروہ، جن کا کام اکثر اوقات سخت رویہ اختیار کرنا اور ذاتی مفادات کا حصول بن چکا ہے، اس کشیدگی کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ یہ صورتحال صرف اسکولوں اور کالجوں تک محدود نہیں رہی بلکہ جامعات تک پھیل چکی ہے، جہاں اپنی اپنی پوسٹوں پر تعینات اساتذہ، ایڈمن اسٹاف اور سربراہان اختیارات کو تو حیثیت سمجھتے ہیں مگر ذمہ داری کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔

اگر ان عہدوں پر فائز افراد اختیارات سے زیادہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، ان کی اہمیت کو محسوس کریں اور تعلیمی اداروں میں افہام و تفہیم، برداشت اور مکالمے کی روایت کو فروغ دیں تو یہی ادارے حقیقی معنوں میں معمارانِ قوم پیدا کر سکتے ہیں۔ جس طرح ملکی سطح پر اقتدار اور اختیارات کی جنگ عوام کو متاثر کر رہی ہے، اسی طرح تعلیمی اداروں میں اختیارات کی یہ لڑائیاں براہِ راست طلبہ کے مستقبل پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔

تعلیمی درسگاہیں وہ مقدس مقامات ہیں جہاں امید، خوشی، غیرت، بہادری، اقدار اور تہذیب کا درس دیا جاتا ہے۔ یہی وہ جگہیں ہیں جہاں طلبہ اپنے ذاتی دکھ، پریشانیاں اور ذہنی بوجھ درسگاہوں کی گود میں رکھ کر مستقبل کے خواب بنتے ہیں۔ قوم کی ترقی، فکری بلوغت اور اجتماعی مورال کی بلندی کا دارومدار بھی انہی اداروں پر ہوتا ہے۔

اگر ہماری تعلیمی درسگاہوں میں یہ کھینچا تانی اور عدم برداشت کا ماحول برقرار رہا تو ہم شاید ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے لیں گے جو عدم برداشت سے بھرپور ہو، مگر ایک پُرامن، باہمی احترام اور برداشت پر مبنی معاشرہ کبھی تشکیل نہیں پا سکے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بٹراسی کیڈٹ کالج سمیت تمام تعلیمی اداروں میں ذاتی مفادات اور اختیارات کی جنگ سے بالاتر ہو کر طلبہ، ادارے اور معاشرے کے وسیع تر مفاد کو ترجیح دی جائے—کیونکہ یہی قوم کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے.

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں