Skip to content

ہزارہ کا قدیم دیسی نظامِ تعلیم

شیئر

شیئر

ہزارہ کا قدیم دیسی
نظامِ تعلیم
(1849ء تا 1882 )

ہزارہ میں آج سے ایک سو چوھتر (174) سال قبل کل 99 دیسی سکول تھے۔ جن میں طلباء کی کل تعداد 1299 تھی ۔ان میں مکتب ومدرسے 80 ، گورمکھی سکول 15 ،سنسکرت و ناگری سکول 3 اور مہاجنی سکول ایک تھا ۔
سنکدر پور (ہری پور ) میں ایک کافی بڑا مکتب مسجد سے منسلک تھا جس میں مولوی عبداللہ فی سبیل اللہ منطق اور قرآن 20 طلباءکو پڑھاتے تھے ۔ ہری پور میں ایک بڑی پاٹ شالا مندر سے منسلک تھی جہاں لال دین شاگرد تن رام بیراگی 40 طلباء کو بلا معاوضہ سنسکرت اور ہندی پڑھاتا تھا ۔ اور ایک مہاجنی سکول گردت 25 طلباء کو لنڈے کی تعلیم دیتا تھا ۔
اس سرکل کے دیگر اساتذہ میں امیر گل (6 طلباء )،فتح محمد( 10طلباء )،عبداللہ( 8 طلباء ) ، اور غلام حسین( 6 طلباء ) شامل ہیں ۔
خانپور سرکل میں قاضی غلام حسین ممتاز مولوی تھے ۔ ایک مکتب سکول میاں احمد چلاتے تھے جن سے 25 طلباء قرآن فارسی اور عربی پڑھتے تھے ۔ کوئ شاگرد قرآن یا کوئ اور کتاب مکمل کرنے پر استاد کو نذرانہ پیش کرتا تھا ۔
خانپور میں ایک دھرم سالا سے منسلک گورمکھی سکول بھی تھا ۔ جہاں گنیش اور پجارا 20 طلباء کو لنڈے سکھاتے تھے ۔ استادوں کو روزانہ روٹی کے علاوہ شاگرد کے گرنتھ مکمل کرنے پر نذرانہ بھی ملتا تھا ۔
جاولیہ اور چھجیاں میں دو نسبتاً چھوٹے گورمکھی سکولوں میں 10 اور 16 طلباء گورمکھی ،لنڈے ، اور پہاڑے پڑھتے تھے ۔
غازی کے ممتاز اساتذہ میں ڈھیری کے حکیم غلام قادر ، سریکوٹ کے پریم سننگھ دھرم سالیا ،اور سری کوٹ کے مولوی حاجی محمد نور تھے ۔سریکوٹ میں مسجد سے منسلک ایک مکتب سکول میں 15 طلباء مولوی حاجی محمد نور سے عربی اور فارسی مذہبی کتب کی تعلیم حاصل کرتے تھے ۔ استاد کی کوئ آمدنی مقرر نہیں تھی لیکن وہ شاگردوں سے فصل کی کٹائ اور تہواروں پر اناج وصول کرتے تھے ۔ سریکوٹ میں ایک گورمکھی سکول بھی تھا جہاں پریم سنگھ 4 طلباء کو گورمکھی سکھاتے اور روزانہ روٹی کے علاوہ اناج بھی لیتے تھے ۔
ایبٹ آباد میں اخونزادہ آف نواں شہر سرکل کے ممتاز ترین استاد تھے ۔ نواں شہر میں دھرم سالا سے منسلک ایک گورمکھی سکول میں مہان سنگھ 30 طلباء کو گورمکھی اورلنڈے پڑھاتے اور ہر شاگرد سے 7٠5 آنے ماہوار بطور فیس لیتے تھے ۔
یہاں ایک نجی مکتب سکول بھی تھا جسے فارسی کے عالم میاں سیف اللہ چلاتے اور 14 لڑکوں کو فارسی میں مذہبی کتب اور قرآن پڑھانے کے عوض نقد اور جنس کی شکل میں 7 روپے ماہانہ وصول کرتے تھے ۔
شیروان میں ایک بڑا مکتب مسجد سے منسلک تھا ۔ جس میں محمد حیات اور قاضی فیض طالب 20 طلباء کو مذہبی اور دیگر کتب پڑھاتے تھے انہیں 20 من اناج سالانہ ملتا تھا ۔ اس کے علاوہ وہ کسی سے کوئ بھی نزرانہ نہیں لیتے تھے ۔ اس سرکل کے چھوٹے مکتب ٹھاٹھی ، گاگھوٹ ، کنگر بالا ، جوٹھا اور بیر میں تھے جہاں بالترتیب 22 ،17، 17، 17 اور 11 طلباء پڑھتے تھے ۔
شیروان خورد میں دھرم سالا سے منسلک گورمکھی سکول میں تُلسا داس 14 طلباء کو گورمکھی پڑھاتا اور سالانہ 6 من اناج لیتا تھا ۔
کرپلیاں کے مولوی جلال الدین آف انورہ ممتاز ترین شخص تھے ۔ اور مسجد کے مکتب سکول میں 10 طلباء کو پڑھاتے تھے اور ہر شاگرد سے فصل کی کٹائ کے وقت دس سیر اناج وصول کرتے تھے ۔ گاؤں والے انہیں دو ہلوں کے لیے زمین بھی دیتے تھے
ناڑہ میں مولوی میاں عبداللہ آف چھپری اس سرکل کے معروف ترین استاد تھے ۔ اس سرکل کا بہترین مکتب چھپری میں مسجد سے منسلک تھا ۔ جس میں عبداللہ ،عبیداللہ اور موسٰی 7 طلباء کو فی سبیل اللہ عربی و فارسی پڑھاتے تھے ۔
سجیکوٹ میں ایک گورمکھی سکول استاد کے مکان سے منسلک تھا جہاں مسماۃ مُلو بیوہ منگلا سے گورمکھی پڑھتے تھے ۔ اور ہر شاگرد 6 پائ ماہانہ ادا کرتا تھا ۔ ستوڑہ سجیکوٹ موہوی، بری بیہن ، موہابری اور دھنک میں بالترتیب 8 ،7، 3، 10، 5، 5 طلباء گورمکھی سیکھتے تھے ۔
مانسہرہ کے اساتذہ میں مولوی محمد سید آف دِیب گراں قابل ذکر ہیں ۔
اس سرکل میں سب سے بڑا مکتب پکھوال میں ایک مسجد سے منسلک تھا ۔ جس میں محمد جی ( عربی فارسی ،صرف و نحو اور علم العروض کے ماہر ) عربی فارسی اور مذہبی و دیگر کتب 38 طلباء کو پڑھاتے اور جنس کی شکل میں حاصل کرتے تھے ۔ اسی گاؤں کے ایک اور نسبتاً چھوٹے مکتب میں 22 طلباء پڑھتے تھے ۔ داتہ ،ہمشیریاں اور جلو کے مکتبوں میں 30، 30 ،32 طلباء تھے جہاں عربی فارسی مذہبی کتب پڑھائ جاتی تھیں ۔
شنکیاری میں مولوی حمید علی عرف مُلاں تایا ممتاز ترین استاد تھے ۔ اس سرکل میں ایک بڑا مکتب مسجد سے منسلک تھا جہاں 40 طلباء کو فارسی عربی صرف و نحو علم العروض اور منطق پڑھائ جاتی تھی ۔ اور ہر فصل کی کٹائ پر 22 من اناج لیا جاتا تھا ۔ چھوٹے مکتب سکولوں میں شنکیاری میں 19 طلباء ، مساجد سے منسلک مضامین فارسی و عربی اور ڈوھوڈیال میں ایک( 12 طلباء )۔ مسجد سے منسلک مضامین مسلم قانون ۔
بفہ میں ایک بڑا گورمکھی سکول تھا جہاں رام کشن 22 طلباء کو گورمکھی پڑھاتے اور ہر شاگرد سے 8 آنے بطور فیس لیتے تھے ۔
بالاکوٹ میں صرف ایک سکول حکیم لکھمی داس جو دھرم سالا سے منسلک تھا ۔ وہاں شام سنگھ اور جواہر سنگھ 15 طلباء کو گورمکھی پڑھاتے اور ہر شاگرد سے ایک ایک آنہ ماہوار بطور فیس کے لیتے تھے

حوالہ جاتی کتب ۔۔۔۔۔

امپیریل گڑیٹئر آف انڈیا والیوم 32
2۔ ہزارہ گزیٹئر 1883-84
3۔ settelmint Report of hazara 1872

تلاشِ ماضی ۔۔۔۔
محمدامجد چوہدری

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں