Skip to content

پاکستان کے میزائل پروگرام کے خلاف پابندیاں: جنوبی ایشیا میں تغیر پذیر امریکی ترجیحات 

شیئر

شیئر

پاکستان کے میزائل پروگرام کے خلاف پابندیاں: جنوبی ایشیا میں تغیر پذیر امریکی ترجیحات 

Written by Syed Adnan Athar Bukhari

اٹھارہ دسمبر 2024 کو امریکی حکومت نے 5500 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر کرنے کی اہلیت
رکھنے والےطویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں، جنہیں بین البراعظمی (انٹر کونٹینینٹل) بیلسٹک میزائل بھی کہا جاتا ہے، کی مبینہ تیاری میں ملوث ہونے پر چار پاکستانی اداروں پر پابندیاں عائد کیں۔ پابندی عائد کردہ اداروں میں اسلام آباد میں قائم ایک سرکاری ادارہ نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) بھی شامل ہے۔اس فہرست میں تین نجی ادارے بھی شامل تھے: اختر اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ، ایفیلیٹیس انٹرنیشنل اور راک سائیڈ انٹرپرائز، جو سب کراچی میں واقع ہیں، (اور) قیاس ہے کہ میزائل کی تیاری کے لیے سازوسامان فراہم کرکے این ڈی سی کی مدد کرتے ہیں۔ان پابندیوں نے پاکستان کی بڑھتی ہوئی (اسٹریٹیجک) تزویراتی صلاحیتوں اور ان کے مضمرات پر بحث کو جنم دیا ہے۔

امریکی نقطہ نظر کے تحت  طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کی جنوبی ایشیا سے باہر (بشمول امریکہ) اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت تشویش ناک ہے۔قومی سلامتی کے سابق نائب مشیر جون فائنر نے اس تشویش کا اظہار اس وقت کیا جب انہوں نے پاکستان پر بڑی راکٹ موٹرز سمیت  پیچیدہ  فنیات ( ٹیکنالوجی)  تیار کرنے کا الزام عائد کیا۔تاہم  یہ خطرہ فی الحال مخفی ہے، اور امریکی حکومت نے خود تسلیم کیا ہے کہ امریکہ کو نشانہ بنانے کی پاکستان کی صلاحیت اب بھی کم از کم کئی سال دُور ہے۔

دریں اثنا پاکستان کے دفتر خارجہ (ایم او ایف اے) نے پاکستان کے اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کے واشنگٹن کے فیصلے کو “بدقسمتی اور متعصبانہ” قرار دیا ہے۔ (بیان میں) اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ پاکستان کی تزویراتی صلاحیتیں اپنی خودمختاری کے دفاع اور جنوبی ایشیا میں استحکام برقرار رکھنے کے لیے ہیں۔ تاہم ایم او ایف اے نے نہ تو اس امر کی تصدیق اور نہ ہی تردید کی کہ ملک طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل تیار کر رہا ہے۔ فائنر کی تہمت تراشی کے بعدازاں پاکستان  نے امریکی الزامات کو “بے بنیاد” اور “معقولیت سے عاری” قرار دیا۔

پاکستان کا میزائل پروگرام بھارت کی پیش رفت کا جواب ہے اور اس کا ہدف امریکہ نہیں ہے۔ مزید برآں یہ پابندیاں تعلقات کو پیچیدہ بنا سکتی ہیں اور اسلام آباد کو چین کی طرف مزید دھکیل سکتی ہیں۔

ایک اہم غیر نیٹو اتحادی کے خلاف یہ امریکی پابندیاں اور الزامات مجموعی تعلقات کے لیے بہترنہیں ہیں۔مختصر مدت میں یہ پابندیاں ان موردِ الزام اداروں کی ملکیت میں شامل کسی بھی امریکی اثاثے کو منجمد کردیتی ہیں اور امریکی افراد کو ان (اداروں) کے ساتھ لین دین کرنے سے روکتی ہیں۔ تاہم امریکی حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں ان موردِ الزام اداروں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے کسی بھی کاروبار، دونوں کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، جس کانتیجہ دیگر کاروباری اداروں کی حمایت اور تعاون کی پس قدمی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
خاص طور پر نئی ٹرمپ انتظامیہ کے برسرِاقتدار آنے  کے بعد یہ پابندیاں اپنےنفاذ کی وجوہات، ان کے مضمرات اور خطے سے متعلقہ واشنگٹن کےارتقا پذیر  نقطۂ نظر کے بارے میں کئی بنیادی سوالات اٹھاتی ہیں۔

میزائل کی تیاری کے محرکات اور پابندیوں کے اثرات

 سابق بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے بیلاروس، چین اور پاکستان کے اداروں پر عائد کردہ (پابندیوں کی مانند) پاکستانی اداروں پر حالیہ پابندیاں تین مراحل میں عائد کی گئی ہیں۔ تین چینی اور ایک پاکستانی کمپنی سمیت پابندیوں کا سامنا کرنے والے تمام  اداروں پر اسلام آباد کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سسٹم تیار کرنے میں مدد فراہم کرنےکا الزام لگایا گیاہے۔یہ پابندیاں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ پاکستان اپنے میزائل ترقیاتی پروگرام سے متعلق امریکہ کے خدشات کو گمراہ کن سمجھتا ہے اور اس امرپر سوالات اٹھاتی ہیں کہ کس طرح
 چین کے ساتھ پچھلی انتظامیہ کی عظیم طاقت بننے کی مسابقت نے ممکنہ طور پراسلام آباد کے ساتھ (اس کے) تعلقات پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں  کیونکہ اس (امریکہ) نے ان صلاحیتوں کو ترقی دینے کے لئے چین کے ساتھ پاکستان کے کسی بھی تعاون کو روکنے کی کوشش کی تھی۔تاہم پاکستان کا میزائل پروگرام بھارت کی پیش رفت کا جواب ہے اور اس کا ہدف امریکہ نہیں ہے۔مزید برآں  یہ پابندیاں تعلقات کو پیچیدہ بنا سکتی ہیں اور اسلام آباد کو چین کی طرف مزید دھکیل سکتی ہیں۔

طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کی تیاری

پاکستانی حکومت متعدد مواقع پر بیان دے چکی ہے کہ ملک کے بڑھتے ہوئے میزائل اور جوہری پروگرام کا مقصد بھارت کے ساتھ روایتی، جوہری اور بحری بے تناسبی کا مقابلہ کرنا ہے۔
پاکستان کے بیلسٹک میزائلوں کی رینج کم از کم نصر (حتف-9) 60 کلومیٹر اور شاہین-3 کے زیادہ سے زیادہ 2750 کلومیٹر کے درمیان ہے، جو ضرورت کے مطابق ہے کیونکہ یہ اسلام آباد کو بھارت میں کہیں بھی ہدف تک پہنچنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔تاہم بھارت کی جانب سے بیلسٹک میزائل دفاعی نظام کی تیاری کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام آباد شاہین -3کو ملٹی پل انڈیپینڈنٹ ری انٹری وہیکلز (ایم آئی آر وی) سے مبینہ طور پر لیس کر رہا ہے، جو ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کا تجربہ پہلے ہی 2017 میں کیا جا چکا ہے۔مزید برآں چونکہ بھارت چین پر نظر رکھتے ہوئے، طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی صلاحیتوں کو فروغ دے رہا ہے جیسا کہ اگنی  5(5200 کلومیٹر سے زیادہ کی رینج کے ساتھ) اور اگنی 6، اس لیے پاکستان کی جانب سے جواب کی ضرورت ہوگی اور دونوں ممالک ہتھیاروں کی دوڑ میں الجھ سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کے مختلف اجزاء اہداف کی حد بڑھانے سے کہیں زیادہ فوائد رکھتے ہیں۔مثلاً جیسا کہ ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ اسی مہارت کو استعمال کرکے پاکستان خلائی (اسپیس) لانچرز کے لئے بڑی راکٹ موٹرز تیار کر سکتا ہے۔

واشنگٹن اسلام آباد تعلقات پر اثرات

امریکی پابندیاں اور الزامات پاکستان کے بارے میں بدلتے ہوئے موقف کی نشاندہی کرتے ہیں۔اگرچہ یہ پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہوگا کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان سے کس طرح نمٹے گی، لیکن اب تک کے اشارات ظاہر کرتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ (کے نقطۂ نظر) سے کچھ زیادہ مختلف نہ ہو گا۔ پاکستان کوعسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ سمجھنے سے متعلق ٹرمپ کے وسیع تر تصور (کچھ حالیہ محدود تعاون کے باوجود) اور چین کے متقابل تول میں بھارت کے ساتھ امریکہ کی بڑھتی ہوئی تزویراتی شراکت داری کو مدنظر رکھتے ہوئے، اسلام آباد کاواشنگٹن کے لیےترجیح ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اس تناظر میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کے مرحلے میں اختلافات سے داغدار  پہلے سے ہی کمزور تعلقات کو امریکی پابندیاں محض  شکستہ تر ہی کر سکتی ہیں۔

مزید برآں  پاکستان کے خلاف امریکی پابندیوں سے خلائی اور میزائل کے شعبوں ( ڈومینز) میں چین کے ساتھ اسلام آباد کے تعاون میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اگرچہ پاک چین تعلقات کو کچھ مشکلات (چیلنجز) کا سامنا ہے جیسا کہ  پاکستان میں چینی شہریوں کو نشانہ بنانے والے غیر ریاستی متشددعناصر ، تاہم دو طرفہ تعلقات مضبوط ہیں۔ پاکستانی صدر کا حالیہ دورہ چین، سی پیک کی بحالیٔ نو اور پاک چین بحری تعاون دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان جاری شراکت داری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔لہٰذا اس معاملے میں پابندیوں پر مبنی امریکی  نقطہ نظر دراصل چین کے عروج کو متوازن کرنے اور خطے کے ممالک کو متبادل فراہم کرنے کی وسیع تر امریکی حکمت عملی کے منافی ہے۔

بھارت کے ہتھیاروں کی ترقی میں امریکی حمایت

نہ صرف امریکہ کا (یہ) نقطہ نظر نقصان دہ ہے، بلکہ اس کی پابندیوں کا اطلاق بھی منتخبہ ہے۔
جہاں پر واشنگٹن نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی مبینہ تیاری پر پاکستانی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کیں، وہیں اس نے سول نیوکلیئر (غیر فوجی جوہری) ٹیکنالوجی کی منتقلی کی راہ ہموار کرنے کے لیے بھارتی جوہری اداروں پر عائد پابندیاں اٹھا لیں۔

چین کا مقابلہ کرنے کے لیے واشنگٹن نے میزائل اور خلائی شعبوں میں بھارت کے ساتھ اپنی تزویراتی شراکت داری کو بڑھا لیا ہے جس کے پاکستان پر اثرات مرتب ہوں گے۔ مثلاً  امریکہ نے بھارت کے ساتھ (انٹیلی جنس) خفیہ معلومات کے تبادلے میں سہولت فراہم کی ہے، جس میں کم فاصلے تک مار کرنے والے جیولین اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائلز سمیت بھارت کو اعلیٰ درجے کی دفاعی ٹیکنالوجی کی منتقلی اور بنیادی تبادلے اور تعاون کے معاہدے اور مواصلات، مطابقت اور سلامتی کے معاہدے جیسے معاہدوں  سے تقویت ملی ہے۔دونوں فریقین دفاعی فنیات (ٹیکنالوجی) اور تجارتی اقدام کے تحت دفاعی سازوسامان کی مشترکہ پیداوار اور اہم و نمو پذیر فنیات ( ایمرجنگ ٹیکنالوجیز ) کے اقدام کے تحت تزویراتی فنیات پر تعاون کر رہے ہیں (جس کا نام اب تبدیل کر کے تقلیبِ تعلقات [ٹرانسفارمنگ ریلیشنز] بذیعۂ تزویراتی فنیات رکھا گیا ہے)۔

مودی اور ٹرمپ کی حالیہ ملاقات میں دونوں ریاستوں نے اکیسویں صدی کے لیے امریکہ بھارت کمپیکٹ (کیٹالائزنگ اپرچونیٹیز فار ملٹری پارٹنرشپ، ایکسیلیریٹڈ کامرس اینڈ ٹیکنالوجی) اور امریکہ بھارت اہم دفاعی شراکت داری کے لیے ایک نئے دس سالہ فریم ورک (لائحۂ عمل) کا اعلان کیا۔ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت کو فوجی (سازوسامان کی) فروخت بڑھانے کے ارادے کا اعلان کیا جس میں آخر الامر نئی دہلی کو ایف 35، ففتھ جنریشن کا جدید اسٹیلتھ لڑاکا طیارہ فراہم کرنے کی صلاحیت بھی شامل ہے۔ امریکہ سے تیل اور گیس کی بھارتی خریداری میں اضافہ کرنے، تجارتی خسارے کو کم کرنے اور تجارتی معاہدے پر بات چیت کرنے کا دونوں فریقین نے عہد بھی کیا۔

پاکستان ان اقدامات کو نئی دہلی کے ساتھ امریکہ کے ترجیحی سلوک کے طور پر دیکھتا ہے جس سے علاقائی استحکام کو نقصان پہنچنے کا امکان ہے، بھارت اور پاکستان کی صلاحیتوں کے درمیان موجودہ بے تناسبی نمایاں ہو سکتی ہے اور ہتھیاروں کی دوڑ کو مزید تحریک ملے گی۔نتیجتاً پاکستان غیر امریکی ذرائع بشمول چین، کے ساتھ اپنی شراکت داری کو مزید گہرا کرنا چاہتا ہے، جن کے ساتھ اس نے 1989 سے میزائل کی تیاری میں تعاون کیا ہے۔

حقیقت الامر

جنوبی ایشیا سے متعلق امریکہ کی خارجہ پالیسی تبدیل ہو رہی ہے۔اس نئے منظر نامے میں بھارت کو چین کے متقابل تول سمجھا جا رہا ہے اور امریکہ کے مفادات پاکستان سے مختلف ہو رہے ہیں، جس کی ممکنہ وجہ پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون سے متعلق امریکی رائے ہے۔ اس منظر نامے کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام کا جائزہ اس خطرے کے تخمینے سے لیا جائے جو بنیادی طور پر اس کی مشرقی سرحد پرپیدا ہوتا ہے۔

پاکستان کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی مبینہ تیاری پر امریکی خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔اگر وہ ایسا کر رہا ہے تو پاکستان کو امریکی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے بڑی راکٹ موٹرز تیار کرنے کی وجہ واضح کرنی چاہیئے۔

امریکہ کبھی بھی پاکستان کےلیے خطرے کے شمار میں نہیں رہا؛ بلکہ پاکستان سرد جنگ کے دوران ایک مغربی اتحادی رہا اور افغانستان میں 20 سالہ جنگ کے دوران اہم غیر نیٹو اتحادی کے طور پر ہر اوّل دستے کی صورت پیش پیش رہا،  اگرچہ دونوں فریقین کے مابین وقتاً فوقتاً کشیدگی بھی رہی ۔پاکستان کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی مبینہ تیاری پر امریکی خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ ایسا کر رہا ہے تو پاکستان کو امریکی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے بڑی راکٹ موٹرز تیار کرنے کی وجہ واضح کرنی چاہیئے۔بات چیت کی خواہش کے اظہار کے لیے پاکستان کو اپنے بیلسٹک میزائل تجربات سے متعلق ٹیلی میٹری معلومات کا تبادلہ کرنے اور بیرونی رینج کی حدود مقرر کرنے کی واشنگٹن کی اس تجویز کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیئے، جسے اس نے پہلے مسترد کر دیا تھا۔دوسری جانب واشنگٹن کو بھی پاکستان کے ساتھ سفارتکاری اور مذاکرات کے ذریعے مثبت انداز میں  بات چیت کرنی چاہیئے کیونکہ پابندیوں سے تعلقات مزید متاثر ہوں گے اور ان پیشرفتوں کی حوصلہ افزائی کا (بھی) خطرہ ہے جن کو وہ روکنا چاہتا ہے۔

ساوتھ ایشئین وائس کے شکریہ کے ساتھ یہاں پر دوبارہ شائع کی جارہی ہے

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں