ایبٹ آباد (کورٹ رپورٹر) پشاور ہائی کورٹ ایبٹ آباد بنچ نے رٹ پٹیشن نمبر 1117-A/2025 میں واضح حکم صادر کرتے ہوئے کہا ہے کہ متعلقہ افسران پٹیشنر کو کسی قسم کی ہراسانی کا نشانہ نہ بنائیں اور ہر معاملے میں مکمل طور پر آئین و قانون کی پاسداری کریں۔
یہ حکم جسٹس صادق علی اور جسٹس اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے 23 ستمبر 2025 کو جاری کیا۔ دورانِ سماعت عدالت نے قرار دیا کہ بادی النظر میں ایسا تاثر مل رہا ہے کہ پٹیشنر کو اس کے سابقہ تبادلہ کیس کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
جسٹس صادق علی نے ریمارکس دیے:
“ویمن پروٹیکشن ایٹ ورک پلیس ہراسمنٹ ایکٹ 2010 موجود ہے جس کے تحت درخواست گزار صوبائی محتسب سے رجوع کر سکتی ہے۔ کسی شہری کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انسانی وقار اور آئینی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔”
پٹیشنر کی جانب سے شاد محمد خان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور جنید انور خان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ پولیس افسران درخواست گزار پر ناجائز دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ سب انسپکٹرز کے ساتھ زبردستی صلح کرے، بصورت دیگر اسے دیگر اضلاع میں غیر قانونی طور پر ٹرانسفر کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
سرکاری وکیل ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شعیب علی نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ پٹیشنر کو ہرگز ہراساں نہیں کیا جائے گا اور قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔
عدالت نے سرکاری وکیل کی یقین دہانی کو ریکارڈ کا حصہ بناتے ہوئے پٹیشن نمٹا دی اور ہدایت دی کہ پٹیشنر کے ساتھ کسی بھی قسم کی غیر قانونی کارروائی سے گریز کیا جائے۔
سروس ٹربیونل ایبٹ آباد میں سماعت اگلے روز، 24 ستمبر 2025 کو، کیڈٹ کوثر علی تنولی کی جانب سے دائر ایک اور کیس کی سماعت خیبرپختونخوا سروس ٹربیونل ایبٹ آباد بینچ میں ہوئی۔
محکمہ پولیس کی طرف سے انسپکٹر سخراج خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ درخواست گزار کو تمام مطلوبہ ریلیف فراہم کر دیا گیا ہے اور اس کی تائید میں ایک باقاعدہ مراسلہ بھی عدالت میں جمع کرایا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل سید آصف شاہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے محکمے کی یقین دہانی کے بعد کیس واپس لینے کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کر لیا۔
اس طرح کیڈٹ کوثر علی تنولی اور پولیس ٹریننگ سکول کی انتظامیہ کے مابین زیرِ سماعت تمام مقدمات خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پذیر ہو گئے اور عدالت نے واضح کر دیا کہ پٹیشنر کے ساتھ ہر معاملے میں آئین و قانون کی مکمل پاسداری کی جائے۔