Skip to content

عورت: امیدیں، رکاوٹیں اور خواب

شیئر

شیئر

تحریر : اعجاز انور مغل

پاکستان بننے سے پہلے برصغیر کی عورت کی زندگی بے شمار پابندیوں اور مجبوریوں میں جکڑی ہوئی تھی۔ اسے گھریلو ذمے داریوں کا قیدی سمجھا جاتا، اس کی رائے کی کوئی وقعت نہ تھی اور تعلیم کو عورت کے لیے غیر ضروری بلکہ نقصان دہ سمجھا جاتا تھا۔ عورت کی زندگی کی تعریف محض یہ تھی کہ وہ خاندان کی عزت کا بوجھ اٹھائے اور مرد کے حکم کی تعمیل کرے۔ دیہی علاقوں میں عورت کھیتوں میں دن رات کام کرتی لیکن نہ اسے مزدوری ملتی، نہ قانونی تحفظ حاصل تھا۔ شہری علاقوں میں بھی عورت کے قدم آگے بڑھنے سے پہلے ہی سماجی بندشوں کی زنجیروں میں باندھ دیے جاتے۔ شادی بیاہ کے فیصلے عورت کے اختیار میں نہ تھے، وراثت سے محرومی عام تھی اور پردہ و رسومات اس کی آزادی کو ختم کر دیتے تھے۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تحریکِ آزادی کی تپتی راہوں پر قوم نکلی تو عورت نے بھی اپنے حصے کی مشعل اٹھائی۔ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان اور دیگر خواتین نے قیامِ پاکستان کے سفر میں اپنی بہادری اور قربانیوں سے تاریخ رقم کی۔ انہوں نے ثابت کیا کہ عورت محض ایک کمزور مخلوق نہیں بلکہ ایک ایسی قوت ہے جو اگر میدان میں آئے تو انقلاب برپا کر سکتی ہے۔ یہی شعور آزادی کے بعد کی عورت کے لیے امید کی کرن بنا۔

پاکستان بننے کے بعد عورت کی زندگی میں بتدریج تبدیلی آئی۔ ریاست نے تعلیم کے دروازے کھولے اور اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خواتین ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، فوجی افسر اور استاد بن کر سامنے آئیں۔ سیاست میں بھی خواتین نے قدم رکھا اور بے نظیر بھٹو کا دنیا کی پہلی مسلم خاتون وزیراعظم بننا ایک تاریخی لمحہ تھا جس نے عورت کے مقام کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا۔ میڈیا، کھیل، فنون لطیفہ اور کاروبار میں بھی عورتوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

ریاست نے وراثت کے حق اور گھریلو تشدد کے خلاف قوانین بھی بنائے، کام کی جگہ پر ہراسگی کے خلاف اقدامات کیے اور خواتین کو مختلف سطحوں پر نمائندگی دینے کی کوشش کی۔ یہ سب اقدامات یقیناً قابلِ تعریف ہیں، لیکن اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عورت آج بھی اپنے جائز حقوق سے محروم ہے۔

سماجی سطح پر عورت اب بھی کم عمری کی شادی کا شکار بنتی ہے۔ گھریلو تشدد اور ہراسگی کے واقعات میں اضافہ ہے لیکن زیادہ تر مقدمات رپورٹ ہی نہیں ہوتے کیونکہ عورت کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ اگر وہ زبان کھولے گی تو عزت اور خاندان بدنام ہوگا۔ کئی گھرانوں میں لڑکی کی تعلیم کو فضول اور غیر ضروری سمجھا جاتا ہے اور اس کے خوابوں کو بچپن ہی میں کچل دیا جاتا ہے۔ معاشرے میں عورت کو برابر کا انسان تسلیم کرنے کے بجائے آج بھی اسے کمتر سمجھنے کا رویہ غالب ہے۔

معاشی میدان میں بھی صورتحال بہتر نہیں۔ عورت مرد کے برابر محنت کرتی ہے لیکن تنخواہ کم پاتی ہے۔ دیہی عورت کھیتوں میں دن رات پسینہ بہاتی ہے لیکن اس کی محنت کو مزدوری کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ زیادہ تر خواتین اب بھی مرد پر انحصار کرتی ہیں اور معاشی طور پر خودمختار نہیں ہو پاتیں۔ ایک چھوٹا سا طبقہ ضرور ہے جو کاروبار، آئی ٹی یا پروفیشنل فیلڈ میں آگے بڑھتا ہے لیکن اکثریت کے لیے یہ دروازے آج بھی بند ہیں۔

سیاسی سطح پر بھی عورت کی نمائندگی زیادہ تر علامتی ہے۔ اگرچہ پارلیمنٹ میں مخصوص نشستیں ہیں لیکن فیصلہ سازی کے بڑے مراکز پر مرد ہی قابض ہیں۔ خواتین کو سیاست میں اکثر نمائشی طور پر لایا جاتا ہے تاکہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ انہیں جگہ دی گئی ہے، مگر حقیقی اختیار اور قیادت آج بھی عورت کے ہاتھ میں نہیں آتا۔ دیہی اور غریب طبقے کی خواتین تو سیاست میں اپنی آواز بلند کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔

ثقافتی سطح پر عورت کو جکڑنے والی زنجیریں سب سے سخت ہیں۔ آج بھی ونی، سوارہ اور کاروکاری جیسے فرسودہ رواج موجود ہیں جو عورت کے وجود کو روند ڈالتے ہیں۔ عورت کی آزادی کو خاندان کی عزت کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے اور اگر وہ اپنی مرضی سے تعلیم یا شادی کا فیصلہ کرے تو اسے خاندان کے لیے شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ یوں عورت کی شخصیت کچلی جاتی ہے اور اسے اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا بنیادی حق بھی نہیں دیا جاتا۔

ان تمام حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان کی عورت کو حقیقی معنوں میں بااختیار کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ اس کا سب سے پہلا جواب تعلیم ہے۔ تعلیم عورت کا زیور ہی نہیں بلکہ اس کا اصل ہتھیار ہے۔ جب تک ہر بچی کے لیے معیاری اور لازمی تعلیم یقینی نہیں بنائی جاتی، تب تک عورت اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔ تعلیم اسے شعور بھی دیتی ہے اور اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا اعتماد بھی۔

تعلیم کے بعد دوسرا ستون معاشی آزادی ہے۔ اگر عورت کمانے اور اپنی کمائی کو استعمال کرنے کے قابل ہو جائے تو وہ کسی پر انحصار نہیں کرے گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کو ہنر سکھانے کے ادارے قائم کیے جائیں، چھوٹے کاروبار کے قرضے فراہم کیے جائیں اور انہیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک آسان رسائی دی جائے تاکہ وہ آن لائن تعلیم اور روزگار کے مواقع حاصل کر سکیں۔

قانونی تحفظ بھی نہایت اہم ہے۔ قوانین صرف کاغذوں پر نہیں بلکہ عملی طور پر نافذ ہونے چاہئیں۔ گھریلو تشدد، ہراسگی اور وراثت سے محرومی جیسے مسائل کے مقدمات کو فوری سنا جائے اور مجرموں کو سخت سزا دی جائے تاکہ عورت اپنے حقوق کے حصول میں خوفزدہ نہ ہو۔

سیاست میں عورت کی نمائندگی کو محض نشستوں تک محدود نہیں رہنے دینا چاہیے۔ عورت کو فیصلہ سازی میں شامل کرنا ہوگا تاکہ وہ اپنی آواز بلند کر سکے اور اپنی برادری کے مسائل خود بیان کر سکے۔ ایک ایسا ملک جہاں نصف آبادی عورتوں پر مشتمل ہو، وہاں ان کی سیاسی شمولیت کے بغیر حقیقی جمہوریت ممکن نہیں۔

سماجی رویوں میں تبدیلی بھی ناگزیر ہے۔ میڈیا، نصابِ تعلیم اور دینی رہنمائی کے ذریعے عوام میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ عورت بھی مرد کی طرح ایک مکمل اور برابر کا انسان ہے۔ عورت کو کم تر سمجھنے کا رویہ ترک کرنا ہوگا اور عزت کے حقیقی مفہوم کو اجاگر کرنا ہوگا۔ عزت اس میں نہیں کہ عورت کو قید رکھا جائے، بلکہ اس میں ہے کہ اسے برابری کے ساتھ جینے دیا جائے۔

ثقافتی رکاوٹوں کو بھی جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔ ونی، سوارہ اور کاروکاری جیسے جاہلانہ رسم و رواج کو قانون کے ذریعے دفن کیا جائے اور ایسے خاندانوں کو معاشرتی طور پر شرمندہ کیا جائے جو ان رسومات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ عورت کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا اختیار دینا ہوگا تاکہ وہ اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کرے، شادی کرے اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔

پاکستان کی عورت نے ماضی کے مقابلے میں بے پناہ ترقی کی ہے لیکن یہ ترقی ابھی ادھوری ہے۔ ایک روشن مستقبل تبھی ممکن ہے جب عورت کو سماجی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی سطح پر برابری کے حقوق ملیں۔ عورت کو بااختیار بنانا محض عورت کی ترقی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ترقی ہے۔ عورت صرف ایک فرد نہیں بلکہ نسلوں کی معمار ہے۔ ایک تعلیم یافتہ، باشعور اور خودمختار عورت ایک ایسا چراغ ہے جو اپنے خاندان کو بھی روشنی دیتا ہے اور اپنے ملک کو بھی۔

پاکستان کا اصل مستقبل اس وقت روشن ہوگا جب عورت اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے آزاد ہوگی، جب اسے اپنی رائے دینے اور اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق حاصل ہوگا، جب اسے برابر کی عزت دی جائے گی اور جب وہ مرد کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہوگی۔ کیونکہ عورت کو طاقتور بنانا دراصل پاکستان کو طاقتور بنانا ہے

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں