Skip to content

ایک جھلک نظام تعلیم پر

شیئر

شیئر

تعلیم بنیادی ضرورت ہی نہیں بلکہ زندگی گزارنے کے لیے ایک معیار بھی وضع کرتی ہے ۔
تعلیم دینی ہو یا دنیاوی کسی نہ کسی درجے میں ضروری و لازمی دونوں ہیں ۔ یہاں نظر گذرتے ہوئے حالات و واقعات کے پیش نظر جس پر ٹھہرتی ہے وہ دنیاوی تعلیم ہے ۔
ملک پاکستان میں اس کی ضرورت،افادیت ،اسکو ڈلیور کرنے کا نظام ، اس کے پھیلاؤ ، اور اسکا اثر ایک individual کی زندگی اسکے اخلاق و کردار پر ،اور ما بعد اسکو حاصل کر کے روزگار کے مواقع ، یہ سارے عوامل اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ان پر کُھل کر بات کی جائے ۔
میں ایک student کے طور پر آپ احباب کی توجہ جس عمل کیطرف مرکوز کرنا چاہتا ہوں وہ ہے اس ملک پاکستان میں تعلیم کو ڈلیور کرنے کا نظام ، یعنی تعلیم کو ایک عام انسان تک پہنچانا ۔
اس بات کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ ملک پاکستان میں باقی اداروں کی طرح تعلیمی اداروں کی نجکاری ، محتلف مراحل میں یا تو ہو گئی ہے یا ہونے کو ہے ۔ بلخصوص پنجاب اور کے پی کے میں یہ ظالمانہ عمل شروع ہو چکا ہے ۔
اس پر بات کرنے سے پہلے ہمیں یہ جا ننا ہو گا کہ آیا اس ریاست پر ہمیں تعلیم فراہم کرنے ،اور کس نوعیت کی فراہم کرنے کی زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ نہیں ؟تو آئیے دیکھتے ہیں کہ آئین پاکستان جو کہ” رولر بُک” کی حیثیت رکھتا ہے وہ کیا کہتا ہے ؟
آئین پاکستان کے آرٹیکل 25A میں یہ کہا گیا ہے کہ :
"The State shall provide free and compulsory education to all children of the age of five to sixteen years in such manner as may be determined by law”
اور آرٹیکل 37b:
"remove illiteracy and provide free and compulsory secondary education within minimum possible period "
تو احباب یہ تھیں ہمارے آئین کی گذارشات ۔۔
اب ریاست نے آئین کو مقدم رکھنا ہے کہ نہیں یہ علیحدہ بحث ہے ۔
زمینی حقائق کے مطابق وطن عزیز میں شرح خواندگی انتہای کم ہے ۔ اور تقریباً %44 (5سے سولہ سال ) بچے وہ سرے سے سکول ہی نہیں گئے ۔ اب آئین کے مطابق ریاست کی تو ذمداری ہے انکو تعلیم دینا ۔
لیکن خیرسے۔۔۔۔۔۔۔
سکولوں سے باہر ، تعلیم سے محروم اکثر عام لوگ ہی ہوتے ہیں ۔ لوئر کلاس اور مڈل کلاس گھرانے ،وسائل کی کمی کے باعث سے اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دے پا تے اس لیے وہ ملکی نظام سے آس لگائے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ اپر کلاس اور ایلیٹ کو کس بات کا غم ؟
سارا نظام ان کے آ گےسر جھکائے ہوتا ہے ۔ غریب کے بچوں کے لیے سکول کی چھت تک نہیں ہوتی اور صاحب اشرافیہ اور مقتدرہ کے ہاں ہر قسم کی سہولیات ۔۔
اعلیٰ سطح کے انفراسٹرکچر سے لیکر عالمی معیار کی ٹیکنالوجی تک ۔ہرطرح کے وسائل ان کی دہلیز پر ۔۔
انکو facilities فراہم کرنا صرف پرائیویٹ سیکٹر کی ہی ذمداری نہیں ہوتی بلکہ حکومتیں بھی اپنا فرض سمجھتی ہیں ۔
وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے ہمارے ملک میں شرح خواندگی کو کم رکھنے، اور عام آدمی کے بچوں کو سکول سے درو رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اس سے نہ صرف ملک میں تعلیم کا شعبہ اثر انداز ہوتا ہے بلکہ ہیلتھ ، روزگار وغیرہ جیسے شعبوں سے بھی عام آدمی دور ہوتا چلا جا رہا ہے ۔تب ہی تو امیر جو ہے وہ امیر تر، اور غریب ، غریب تر ہوتا جا رہا ہے ۔
ملک میں زیادہ تر ٹیکس تنخوادار طبقہ ادا کرتا ہے ۔ اگر کوئی اشرافیہ سے یا کاروباری شخصیت بھولے سے ٹیکس دے بھی دے تو وہ چوری کے ساتھ ۔ یعنی اپنی انکم کے مطابق نہیں ۔ملک
پاکستان میں تعلیم کا سالانہ بجٹ بھی قابل صد تعریف ہوتا ہے ۔ جو تقریباً تمام بڑے شعبوں سے کم ہی ہوتا ہے ۔ اور تو اور بی آئی ایس پی جو تعلیم کے بجٹ سے کئ گنا زیادہ ہے ۔
کرنٹ مالی سال میں تعلیم کے لیے 78 .103 ارب روپے( جو گزشتہ سال کی نسبت تقریباً %1 زیادہ), اور باقی اداروں کے لیے اس سے کئ گنا زیادہ ۔
عالمی معیار سے بھی بہت نیچے ، یونیسکو کی جانب سےGDPکا ٪4 ریکومنڈ کیا گیا ۔لیکن پاکستان نے ٪2.8 مختص کیا ۔
اتنے کم بجٹوں میں زیر تعلیم افراد کی ضروریات کو پورا کیا جائے یا پھر نئے بچوں کو سکولوں میں لایا جائے ؟؟
کچھ رپورٹس کے مطابق ملک میں 2005 کے زلزلے سے تباہ ہونے والی ، سیکنڑوں سکول کی عمارتیں دوبارہ نہیں بن پائی۔ ملک میں نئے اساتذہ کو بڑھتی ہوئی آبادی کی نسبت بہت کم شامل کی جاتا ہے ۔کیوں کے پہلے سے موجود اساتذہ کے مسائل حکومتیں حل نہیں کر پا رہیں ۔ بجٹ کم ہونے کے سبب معیار تعلیم میں بہتری نہیں آ پاتی ۔ سرکاری سکولوں جدید دور کی سہولیات ، ٹیکنالوجی وغیرہ بہت کم ہی میسر ہوتیں ہیں۔
ملک میں قائم کرپشن ، اقربا پروری ، بد عنوانی جیسی اہم اصطلاحات بھی اپنا کردار ادا کر کے عام آدمی کو تعلیمی سہولیات سے محروم رکھتیں ہیں ۔ میرٹ کا قتل ، سکالرشپس کی غیر منصفانہ تقسیم بھی ارباب اختیار نے جائز سمجھا ہوتا ہے ۔
اگر تعلیم کے لیے مختص شدہ (جو کہ عالمی معیار کے مطابق بہت کم ہے)بجٹ ٹرانسپرنسی کیساتھ خرچ کیا جائے تو پھر بھی کچھ حد تک بہتر آسکتی ہے ۔
پرائیویٹ سیکٹر میں قائم پرافٹ اورینٹڈ ٹرمینالوجی نے تعلیم کو بہترین اور منافع بخش انڈسٹری کے طور پر سامنے لایا ہے۔ اور سرمایہ داروں کو دعوت دی گئی کہ آیئے اور انفراسٹرکچر بنائیے اور شروع ہو جائیں ۔ تعلیم کی ایسی کی تیسی ۔ اور
"Main motive to earn profit not providing standard education "
اب اس سنیاریو میں حکومت کیسے پیچھے رہ سکتی ہے ؟ گورنمنٹ نے بھی اپنے آپ کو بوجھ سے بچانے کے لئے اداروں کی نجکاری کی ۔
اب یہ تو واضح ہے کہ یہ پرافٹ اورینٹڈ تعلیمی نظام عام آدمی کی اوقات سے باہر ہے ۔ جہاں ہائی فیسیس ، مہنگی بکس ، یونیفارم (ہر سکول کا الگ الگ وہ بھی مخصوص لوگو کیساتھ)، مہنگی ٹیوشنز ، ٹرانسپورٹ وغیر ہ غرض درجنوں اکاؤنٹس ہیں ۔
میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ضروری نہیں ۔ ضروری ہیں لیکن عام آدمی کی دسترس سے باہر کی چیزیں ہیں ۔ محتلف بزنس ، آرگنائزیشن نے حکومتوں کے اوپر پیشر ڈالا ہوا ہے کہ تعلیمی اداروں کی جلد از جلد پرائیویٹائزیشن کی جائے ۔ نتیجتا شرح خواندگی بجائے اس کے بڑھے ، مزید گرے گی۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں