Skip to content

ایبٹ آباد میں 2 لاکھ 25 ہزار 459 بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا ہدف ہے

شیئر

شیئر

ضلع کی 54 یونین کونسلز کے لیے 1688 پولیو ٹیمیں تشکیل، 1 لاکھ 79 ہزار 490 گھروں تک پہنچیں گے۔ ڈاکٹر شہزاد اقبال*

آج سے شروع ہونے والی پولیو سے بچاؤ کی قومی مہم کے دوران ضلع ایبٹ آباد کی 54 یونین کونسلوں کے لیے 1688 پولیو ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو کہ 1 لاکھ 79 ہزار 490 گھروں میں جا کر 2 لاکھ 25 ہزار 459 بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائیں گی۔ ضلع کا پولیو کا ماحولیاتی نمونہ دو بار مثبت آنے کے بعد شہر کی 7 یونین کونسلز پر زیادہ توجہ مرکوز ہے۔ ایبٹ آباد کے سیاحتی مرکز ہونے اور سیاحوں کی سارا سال آمد و رفت رہنے کی وجہ سے یہاں پولیو وائرس کے شیڈ ہونے کے امکانات زیادہ رہتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ایبٹ آباد ڈاکٹر شہزاد اقبال نے پختونخوا ریڈیو ایبٹ آباد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ 26 مئی سے 30 مئی تک جاری رہنے والی پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی قومی مہم کے لیے محکمہ صحت ایبٹ آباد کی تیاریوں کے حوالے سے بتاتے ہوئے ڈپٹی ڈی ایچ او ڈاکٹر شہزاد اقبال نے کہا کہ اس مہم کے لیے 20 دن قبل ہی تیاریاں شروع کر دی گئی تھیں جس میں یو سی ایم اوز سے لے کر نچلی سطح تک عملے کی ٹریننگ اور مائیکرو پلانز کی تیاری شامل ہے۔ ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد کی براہ راست نگرانی میں پولیو مہم کے لیے تمام انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ ڈاکٹر شہزاد اقبال کا کہنا تھا کہ ضلع ایبٹ آباد میں پولیو سے متعلق شہریوں میں اچھی آگاہی موجود ہے اور پولیو ٹیموں کو کہیں بھی کوئی مسئلہ درپیش نہیں آتا۔ اسی طرح پولیو کے قطرے نہ پلانے کے کیسز (ریفیوزل) بھی نہ ہونےکے برابر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہر چھ ماہ بعد پولیو سے بچاؤ کی مہم میں وٹامن اے کے قطرے بھی بچوں کو پلائے جاتے ہیں جو کہ رواں مہم میں چھ ماہ سے زائد عمر کے بچوں کو پلائے جائیں گے۔ ضلع میں اس مہم کو سپر وائز کرنے کے لیے 64 یو سی ا

یم اوز اور 352 ایریا انچارجز تعینات ہوں گے۔ گھر گھر جا کر پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کےلئے کُل 1688 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جن میں موبائل ٹیمیں 1535، فکسڈ ٹیمیں 105، ٹرانزٹ ٹیموں کی تعداد 43 جبکہ 5 رومنگ ٹیمیں شامل ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ڈپٹی ڈی ایچ او ڈاکٹر شہزاد اقبال نے کہا کہ پولیو مہم کے دوران ضلع انتظامیہ اور محکمہ صحت سمیت ہر ضلعی محکمہ مستعدی کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہوتا ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے بھی اس موذی مرض کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اس مرض سے محفوظ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں