پولیس ٹریننگ سکول مانسہرہ میں تعینات لیڈی لا انسٹرکٹر کیڈٹ کوثر علی تنولی نے آٸی جی خیبر پختونخوا اور صوباٸی محتسب اعلی اور صوباٸی ہیومین راٸٹس ڈاٸریکٹوریٹ کو ڈاٸریکٹر پولیس ٹریننگ سکول مانسہرہ اکرام اللہ خان,چیف لاء انسٹرکٹر CLI,سینٸیر ریکارڈ کلرک SRC ,ریزرو انسپکٹر اور پولیس ٹریننگ سکول کے دیگر عملہ کے خلاف اختیارات کا ناجاٸز استعمال,ہراسمنٹ ایٹ ورک پلیس,زچگی کی چھٹیوں کی منظوری میں رکاوٹیں کھڑی کرنے,ریکارڈ ٹمپر کرنے,رخصت کا بیلنس فارم پھاڑنے اور زچگی کی چھٹیوں کو سروس رولز کے تحت ڈیل کرنے کے بجاٸے من مانی تشریح کرنے,سروس ریکاڈ میں غلط رپورٹنگ اور ہاٸی کورٹ ایبٹ آباد بینچ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرتے ہوٸے تنخواہ کی اداٸیگی نہ کرنے کے الزامات سمیت مختلف نوعیت کے دیگر الزامات عاٸد ہوٸے,زمہ داروں کے خلاف تادیبی کارواٸی کرتے ہوٸے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے ۔ کیڈٹ کوثر علی تنولی نے اپنی تحریری درخواست اور شکایات میں تفصیلات بتاتے ہوٸے موقف اختیار کیا ہے کہ اس نے اگست 2014 کو بھرتی ہونے کے بعد اپنی کل سروس کے دوران صرف 75 دن رخصت کلاں گزاری ہے مگر سینٸر ریکارڈ کلرک SRC نے بد نیتی سے 345 دن رخصت کلاں درج کرکے ان کی گزاری ہوئی میٹرنٹی لیو کو بھی لانگ لیو میں شمار کر کے لیو رول کے خلاف ورزی کرتے ہوٸے رخصت کلاں کی رپورٹ درج کی ,متاثرہ لا انسٹرکٹر نے اپنی تحریری درخواستوں میں یہ الزام عاٸد کیا ہے کہ چیف لا انسٹرکٹر CLI زاہد شاہ,امجد ہیڈ کلرک اور سینٸر کلرک لیاقت نے ملکر سینٸر ریکارڈ کلرک مجید سے غلط رپورٹ کروائی جس کا ثبوت اس کے پاس سینٸر ریکارڈ کلرک مجید کی آڈیو voice کی صورت میں موجود جس میں سنا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوۓ معافی مانگتے ہوئے اپنےساتھ امجد ہیڈ کلرک لیاقت بابو ,چیف لاء انسٹرکٹر اور ریزرو انسپکٹر کو زمہ دار قرار دیتا ہے۔کیڈٹ کوثر تنولی کے مطابق جب اس نے سینٸیر ریکارڈ کلرک سے استدعا کی کہ اس نے درخواست پہ غلط رپورٹ کی ہے اور ڈاٸریکٹر اکرام اللہ کو مس گاٸیڈ کیا ہے تو اس نے مجھے جواب دیا کہ ”میں اپنے کام کو صیح سمجھتا ہوں آپ مجھے میرے کام کے متعلق نہ بتائیں“ ۔کیڈٹ کوثر کا کہنا ہے کہ اس نے 2017 سے لیکر 2024 تک رخصت کلاں/ ارننگ لیو نہیں لی اب چونکہ ساس شدید بیمار تھی تو اس وجہ سے ہسپتال میں ان کی دیکھ بھال کے لیے چھٹی ضروری تھی مگر انہوں نے چھٹی دینے سے انکار کر دیا۔ کیڈٹ کوثر علی تنولی نے اپنی درخواست میں الزام عاٸد کیا کہ ریکارڈ کلرک نے اس کو چھٹیوں سے محروم کرنے اور اپنا جرم چھانے کے لیے سروس بک سے چھٹیوں کا بیلنس فارم بھی پھاڑ کر مزید جرم کا ارتکاب کیا جس کے خلاف ڈی پی او مانسہرہ کو قانونی کارواٸی کے لیے درخواست دے رکھی ہے مگر کوٸی کارواٸی نہیں کیوں کہ تھانہ صدر کے شبیر اے ایس آٸی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے محکمہ کے اہلکاروں کے خلاف قانونی کارواٸی کی اتھارٹی نہیں رکھتا ۔
3 اپریل 2024 کو ریکارڈ میں ٹمپرنگ اور بدنیتی پر مبنی غلط رپورٹنگ کے خلاف ڈی آٸی جی ٹریننگ کو دی گٸی درخواست پر جب انکواٸری آفیسر نے غلط رپورٹ کے متعلق مذکورہ CLI سے جب سوال کیا تو چیف لا انسٹرکٹر ذاہد شاہ رپورٹ سے صاف انکاری ہوگیا اور کہا کہ رپورٹ ریڈر اکمل شاہ نے تحریر کی ہے جبکہ ریڈر اکمل شاہ نے اپنے تحریری بیان میں لکھا کہ رپورٹ حرف بحرف CLI نے تحریر کروائی ہے میں تو اپنی طرف سے رپورٹ لکھنے کا مجاز ہی نہیں ہوں۔
کیڈٹ کوثر کے مطابق 16 اپریل 2024 کو ڈاٸریکٹر کے سامنے پیش ہونے کے لیے درخوست دی جو زاہد شاہ نے غائب کر دی۔
کوثر علی تنولی کے مطابق 23 اپریل 2024 کو کال کر کے SRCسے بات کرکے ایک بار پھر چھٹی کی درخواست کی جس کی اس نے حامی بھری اور کہا کہ آپ مجھے کہیں سے لیو رول منگوا کر دو میں آپ کی چھٹی کروا دوں گا ,میں نے CPO پشاور رابطہ کر کے لیو رول منگوا کر SRC کو وٹس ایپ کیا جس پر SRC نے کہا کہ صبح نئی درخواست دو چھٹی ہو جائے گی بے فکر رہیں جس پر اس نے 24 اپریل کو HC وسیم کے سامنے سینٸر ریکارڈ کلرک SRC کے حوالہ کی جو کہ 29 اپریل کو چھٹی کے متعلق مذکورہ کلرک سے دریافت کیا گیا تو اس نے کہا کہ آپکی درخواست فائل ہوگئی ہے چیف لاء انسٹرکٹر نے آپ کو چھٹی دینے سے منع کیا ہے جس پر میں ایک بار پھر درخواست کی کہ اسے ڈائریکٹر پہ پیش کیا جائے تو سینٸیر ریکارڈ کلرکSRC نے کہا کہ آپ چیف لا انسٹرکٹر کو درخواست دو اور درخواست دینے کے باجود ڈاٸریکٹر پر پیش نہیں ہونے دیا۔
کیڈٹ کوثر کے مطابق 25 اپریل 2024 کو جناب چیف لا انسٹرکٹر CLI نے پروانہ جاری کیا کہ کوٸی بھی لاء سٹاف ممبر سکول سے بغیر اجازت آوٹ نہیں ہو گا اور افسران بالا پر پراپر چینل کے بغیر پیش نہیں ہو گا ۔
کیڈٹ کوثر علی کے مطابق 29 اپریل کو چیف لا انسٹرکٹر کو ایک بار پھر درخواست دی کہ ڈائریکٹر صاحب پہ پیش ہونے کے لیے درخواست دی جو چیف لاانسٹرکٹر نے فارورڈ نہیں کی اور میرے ساتھ انتہائی نازیبا زبان استعمال کی اور طنزیہ جملے کسے ۔
طبعیت انتہائی خراب ہونے کی وجہ سے ایک ہفتہ بعد 06/05/2024 کو اس نے ایک بار ھر ڈائریکٹر کے سامنے پیش ہونے کے لیے درخواست دی اور اس میں میں لکھا کہ اگر اس کو پیش نہ کیا گیا تو وہ افسران بالا کو شکایت کرے گی
جس پر طیش میں آکر چیف لا انسٹرکٹر CLI نے میری موجودگی میں درخواست پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دی اور کہا آپ جیسی لڑکیاں میں نے بہت دیکھی ہیں افسران بالا کو شکایت کرنے والی اور خبردار کرتے ہوٸے کہا کہ اپنے کام سے کام رکھو۔
آفس سے واپسی پر ریڈر آر آئی نے یادگار شہداء کے پاس اسے پریشان حالت دیکھ کر پریشانی کی وجہ پوچھی ہے تو میں نے اسے بھی چیف لا انسٹرکٹر کی طرف سے اپنی ہتک عزت ,ہراسمنٹ اور بے عزتی کرنے کے متعلق بتلایا جس کا وہ گواہ ہے۔
دوسرے دن 7 مئی 2024 کو اس نے چیف لا انسٹرکٹر کو ایک بار پھر 60 یوم رخصت کلاں کی درخواست دی نے CLI صاحب نے ریڈر اکمل شاہ سے ایک سٹاف ممبر 90 یوم رخصت کلاں پر موجودگی کی من گھڑت اور جھوٹی رپورٹ کرواٸی جبکہ
حقیقت میں سٹاف کا کوئی ممبر رخصت کلاں پر نہیں تھا صرف ایک خاتون مٹرنٹی لیو پر تھی جسکی 3 دن بعد واپسی تھی ۔ اس موقع پر چیف لا انسٹرکٹر نے دھمکی دی کہ جب تک وہ پولیس ٹریننگ سکول مانسہرہ میں ہے اپکو چھٹی نہیں ملے گی اگر چھٹی ملی تو ضلع واپس کرواؤں گا ۔
کیڈٹ کوثر علی تنولی اس صورتحال کی دو وجوہات قرار دیتی ہیں کہ ایک وجہ چیف لا انسٹرکٹر کی طرف سے پانچ سے چھ مرتبہ نازیبا گفتگو کرنا اور جواب میں میری طرف سے سخت جواب دینا اور ایسی زبان استعمال کرنے سے باز رہنے کی تنبیہ کرنا اور دوسرا اس کے مضمون کے ٹرینیز کا اچھے نمبرز میں پاس ہونا ۔
متاثرہ لا انسٹرکٹر کے مطابق اسی رنجش کی بناء پر اس کا مضمون ایسے وقت تبدیل کرگیا جو آدھا پڑھا چکی تھی اور اس کے بدلے میں اسے نیا مضمون دے دیا گیا جو شروع سے پڑھانا تھا
کیڈٹ کوثر علی تنولی کے مطابق کوئی بھی مضمون ہو پڑھا سکتی ہیں مگر یہاں خاص طور پر اسے ٹارچر کرنے اور اس کی ساکھ خراب کرنے کے لیے مضمون تبدیل کیا گیا حالانکہ اس نے خود 27 مارچ 2024 کو بوجہ بیماری مذکورہ CLI کو بذریعہ درخوست مضمون تبدیل کرنےاور مختصر مضمون دینے کی استدعا کی تھی جسے رد کر دیا اب ایک مہینے اور دس دن بعد مضمون تبدیل کرنا بدنیتی پر مبنی تھا تاکہ میری محنت کو کسی من پسند کے کھاتے میں ڈالا جاٸے۔
مذکورہ چیف لا انسٹرکٹر نے اپنی ان حرکتوں اور رویہ پر پردہ ڈالنے اور خواتین سٹاف کی ڈاٸریکٹر تک رساٸی روکنے کے لیے ڈائریکٹر سے ایک پروانہ جاری کروایا کوئی سٹاف ممبر بغیر طلب کیے ڈائریکٹر کے دفتر میں نہیں جاٸے گا۔
کیڈٹ کوثر علی تنولی کے مطابق پی ایس ٹی مانسہرہ سے انصاف کی امید دم توڑنے کے بعد اس نے سات مٸی کو ڈی آئی جی ٹریننگ خیبر پختونخواہ کو حصول انصاف کے لیے درخواست ارسال کی۔
متاثرہ لا انسٹرکٹر کے مطابق گھر میں ساس کی بیماری اور آفس میں افسران اور دیگر اہلکاروں کے رویہ کی وجہ سے اس کی زہنی اور جسمانی صحت پر انتہاٸی منفی اثرات مرتب کیے اور روز بروز اس کی صحت بگڑنے لگی۔
مورخہ08/05/2024 کو اس کی طبعیت ذیادہ خراب ہونے کی وجہ سے وہ کنگ عبداللہ ٹیچنگ ہسپتال مانسہرہ گٸیں اور میڈیکل چیک اپ اور ٹیسٹ کروانے کے بعد رپورٹس سے پتہ چلا کہ اس کو ملیریا یرقان اور ایچ پائلوری ہو گیا ہے جس کی وجہ سے اس کی طبعیت ذیادہ خراب رہنے لگی ۔متاثرہ
لا انسٹرکٹر کے مطابق اس کی طرف سے سات اپریل 2024 کو دی گی درخواست پر انکوائری مارک ہوئی جس میں ڈائریکٹر پولیس ٹریننگ سکول آف انٹیلیجنس ایبٹ آباد کو انکوائری آفیسر مقرر کیا گیا تھا اور جن لوگوں کے خلاف میری طرف سے شکایت کی گئی تھی ان کی انکوائری کرنے کے بجائے ا 25 مئی 2024 کو مجھے انکوائری میں طلب کرکے پولیس سکول آف اینٹیلیجنس ایبٹ آباد کا ریزرو انسپکٹر جس کا اس انکوائری سے کوئی قانونی تعلق ہی نہیں تھا اپنے ساتھ چار سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد کو بٹھا کر مجھ پر راضی نامہ کے لئیے دباو ڈالتا رہا اور جرح کے دوران خود ہی سوال کرتا رہا اور خود ہی جواب تحریر کرتا رہا جس پر اس نے شفاف انکوائری کے حصول کے لئیے ڈی آئی جی ٹریننگ کو ایک مزید درخواست دی اور ڈی آئی جی یا ڈی پی او مانسہرہ کو انکوائری آفیسر مقرر کرنے کی استدعا کی ۔متاثرہ لا انسٹرکٹر کے مطابق اسے تنگ کرنے کی ایک وجہ چیف لا انسٹرکٹر زاہد شاہ کی طرف سے پانچ مرتبہ اس کے ساتھ نازیبا گفتگو کرنا اور بدلے اس کو سخت جوابات ملنا ہیں جس کو اس نے رنجش کے طور پر دل میں رکھ کر اس کے ساتھ مستقل عداوت کا سلسلہ شروع کر دیا اور پھر افسران کے سامنے میری بے توقیری کرنے کے لئیے انہوں نے ڈائریکٹر کے گھر پر آیا کی جگہ کام کرنے مجھ پر دباو ڈالا گیا اور ڈائریکٹر کو مس گائیڈ کرکے میرے خلاف کیا گیا جبکہ میں نے اس صورتحال اور پریشانی سے نکلنے اور افسران کی ناراضگی سے بچنے کے لئیے ڈائریکٹر کے گھر کام کاج کے لئیے ایک خاتون کا بندوبست کرکے دیا مگر اس خاتون کو اس کی اجرت نہیں دی گئی جس پر اس خاتون کو دو ماہ کی تنخواہ اپنے زاتی جیب سے دینی پڑی کیوں کہ میں اپنی ضمانت پر لائی تھی۔
ؓمتاثرہ لا انسٹرکٹر کے مطابق 27 مئی 2024 کو طبیعت خراب ہونے پر کنگ عبداللہ ہسپتال گٸی اور
گائنالوجسٹ قرت العین نے ٹیسٹس اور میڈیکل چیک کرکے اسے 7 جون 2024 سے میٹرنٹی لیو تجویز کی اور دیگر ٹیسٹ اور میڈیکل رپورٹ دیکھنے پر ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر جواد نے
مزید ٹیسٹ تجویز کیے اور ٹیسٹ رپورٹ آنے پر میڈیسن کے ساتھ ایک ہفتہ ہوم بیڈ ریسٹ تجویز کیا ۔دو جون 2024 کے روزنامچہ میں یہ ساری صورتحال درج ہے۔
کیڈٹ کوثر علی تنولی کے مطابق اس دوران پولیس ٹرییننگ سکول کے ڈائریکٹر اور دیگر متعلقہ عملہ اس کے ساتھ اس حد تک پرسنل ہو گئیے کہ ڈائریکٹر نے میٹرنی لیو منظور کرنے کے بجائے 29 مئی کو اس کی لیو کی درخواست پشاور بھیج دی جبکہ اس کے اپنے پاس لیو منظور کرنے اختیارات موجود تھے ۔
کیڈٹ کوثر علی تنولی کے مطابق اس کی میڈیکل لیو پہ ہونے اور غیر موجودگی کے باوجود اس کو مانسہرہ تبدیل کرنے کے احکامات جاری کرکے غیر موجودگی میں روانگی بھی کر دی گئی۔کیڈٹ کوثر علی کے بقول پولیس ٹریننگ سکول مانسہرہ سے نہ تو روانگی کا کوئی پروانہ موصول ہوا نہ ہی اس کو پی ٹی ایس مانسہرہ سے کلیرنس یا انچارج وردی گودام کا چارج کسی اور کے حوالے کرنے کا حکم ملا چونکہ انچارج وردی گودام کا چارج 2021 سے اس کے پاس ہے۔
متاثرہ خاتون کے مطابق جب وہ PTS مانسہرہ گئی ہی نہیں تو غیر موجودگی میں کیسے روانگی ہو سکتی ہے ؟
متاثرہ خاتون کے مطابق اس کے ساتھ زاتی رنجش نکالنے کے لئیے پی ٹی ایس کے عملہ نے پولیس رول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دھجیاں بکھیریں اور روزنامچہ میں غیر قانونی طور پر غلط اندراج کروایا ہے جو کہ قابل مواخذہ ہے۔ کیڈٹ کوثر علی تنولی کے مطابق پولیس لائن مانسہرہ کے گیٹ پر CCTV کیمرے نصب ہیں اور اس کے گھر پر بھی CCTV کیمرے نصب ہیں،ریکارڈ میں جس دن اس کی روانگی پی ٹی ایس سے ڈسٹرکٹ مانسہرہ کی گئی اس وقت وہ اپنے گھر پر موجود تھی۔
جب وہ 06 جون 2024، کو پی ٹی ایس مانسہرہ میں حاضر ہی نہیں ہے تو روز نامچہ میں غلط اندراج کر کے پولیس رول 1934 کی خلاف ورزی کر کے ڈسٹرکٹ پولیس آفس مانسہرہ کو جھوٹا انفارمیشن لیٹر جاری کرنا قانونی طور پر جرم ہے اور یہ سب اس کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا گیا جوکہ کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے ریکارڈ میں ہیر پھیر کرنے کے اپنے قانونی نتائج ہیں۔
متاثرہ لاانسٹرکٹر کے مطابق جب اس نے قوائد کے مطابق میٹرنٹی لیو کے لیے اپلائی کیا حالانکہ وہ ڈیلیوری سے پہلے ہی و صحت کے مسائل سے دو چار ہے اور رولز کے مطابق اس کو سہولت فراہم کرنے کے بجائے اس کے لیے مشکلات پیدا کیوں پیدا کی گئیں ؟
کیڈٹ کوثر علی کے مطابق محکمہ کے پاس PTS مانسہرہ میں پہلے سے ہی ہیڈ کانسٹیبل BPS9″ کی پوزیشن خالی ہیں جبکہ اس کے متبادل جس لیڈی کانسٹیبل) سپاہی ( سدرہ شبیر 7 BPS کو لایا گیا ہے وہ بھی غیر قانونی آرڈر ہوا۔
کیڈٹ کوثر علی کے مطابق اس نے بطور ہیڈ کانٹیبل 9 BPS لاء انسٹرکٹر جسمانی و تحریری امتحان تھر و ETEA پاس کر کے فرسٹ پوزیشن حاصل کی اور مانسہرہ ہزارہ ریجن اور خیبر پختو نخواہ پولیس میں ETEA کے ذریعے تحریری امتحان پاس کر کے پہلی خواتین آلراؤنڈ کیڈٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور ایک سال کا آزمائشی پیریڈ ڈسٹرکٹ مانسہرہ میں کامیابی سے مکمل کر کے لوہر کورس اینڈ آئی ٹی کو رس کوالیفائیڈ کر کے مورخہ 2019/01/02 کو ہیڈ کانسٹیبل کے عہدہ پر تعینات (پرموٹ) ہو ئی ہیں ۔جب لیڈی کانسٹیبل سعدیہ عرصہ 8 سال سے PTS مانسہرہ میں تعینات ہو کر سال 2023 میں تیسری مرتبہ 90 دن میٹرنٹی لیو ، ہیڈ کانسٹیبل میڈم شہناز PTC ہنگو میں عرصہ 14 سال سے تعینات ہے اسے 4 مرتبہ PTC ہنگو سے میٹرنٹی لیو حاصل کر سکتی ہیں تو اسے اس کے جائز حق سے کیوں محروم کیا گیا؟
کیڈٹ کوثر علی کے مطابق اس کے پاس درخواست میں لکھی گئی ہر ایک بات کے مکمل ثبوت موجود ہیں۔
بیلنس کی درخواستوں پر دو علحیدہ علحیدہ متضاد رپورٹیں مندرجہ بالا سٹاف کی دانستہ زیادتی اور زاتی ایماء کا ثبوت ہیں کیوں کہ سابقہ SRC نے میٹرنٹی لیو کو بھی لانگ لیو میں شمار کر کے غلط تحریر کر کے میری حق تلفی اور بدیانتی کے مرتکب ہوئے۔
کیڈٹ کوثر علی تنولی کے مطابق چیف لا انسٹرکٹر کی طرف سے نازیبا گفتگو کے بدلے نے میرے سخت رد عمل کی توقع نہیں تھی اور جس کی وجہ سے اس رنجش کو زہن میں پالتے ہوئے سٹاف کو میرے خلاف استعمال کرتے ہوئے ان سے غیر قانونی کام کروا دہا ہے اور اپنے جرم کو چھپانے کی سرکاری ریکارڈ کے اہم حصے رخصت کے بیلنس فارم پھاڑ کر اس کی رخصت راہ میں رکاوٹ کھڑی کر کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔کیڈٹ کوثر علی تنولی کے مطابق وہ 2014 سے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کر رہی ہیں پولیس ٹریننگ سکول میں بھی ڈیوٹی کرتے ہوئے کافی وقت گزر گیا ہے سوال یہ ہے کہ اس سے قبل اتنے عرصہ کے دوران مجھے کسی سے کوئی مسلہ کیوں نہیں ہوا اور نہ کسی آفیسر کو مجھ سے کسی شکایت کس۔موقع ملا،وجہ صرف ایک ہی ہے کہ سیلف ریسپکیٹ اور اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنا اپنا سرکاری کام جس کی سرکار ہم سب کو تنخوا دیتی ہے ۔
متاثرہ لا انسٹرکٹر کے مطابق اس کی طرف سے بار بار چھٹی کے اصرار کی وجہ یہ تھی کہ اس کی ساس شدید بیمار تھی اور ایسے وقت میں ساس کی ہسپتال میں دیکھ بھال اور پاس موجودگی ضروری تھی محکمہ کے اہلکاروں نے اس کی اس پریشانی کو حل کرکے مشکل وقت میں اس کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے اس کے لئیے اتنی مشکلات اور پریشانیاں پیدا کر دیں کہ اس کے لئیے ان اہلکاروں کو ہر رول اور ضابطہ کو روندنا پڑا اور اس صورتحال میں وہ خود بھی زہنی اور جسمانی طور پر صحت کے مسائل کا شکار ہو گئی اور ساس کی بیماری کی صورت میں خدمت کے ارمان دل میں ہی رہ گیے جبکہ اس دوران 23 جون کو اس کی ساس وفات پا گئی جس کا ایک طرف دلی صدمہ ہے تو دوسری طرف خاندان کی طرف سے ساس کی بیماری پر ملازمت کو ترجیح دینے کے طعنے سننے پڑ رہے ہیں اور اس کے لئیے زہنی،_جسمانی اور نفسیاتی مسائل پیدا کرنے کے زمہ دار اس کے محکمہ کے زمہ داران ہیں۔
کیڈٹ کوثر علی تنولی کے مطابق میٹرنٹی لیو پہ ہونے کے باوجود محکمہ نے اس کو سزا دینے کے لئیے اس کی تنخوا بند کر دی جس کے خلاف مجبوری میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا اور اپنی تنخواہ کی ادائیگی اور غیر قانونی تبافلے کے خلاف اور انصاف کے لئیے ہائی کورٹ ایبٹ آباد بینچ میں رٹ پٹیشن دائر کی جس کے نتیجے میں محکمہ کی طرف سے قانونی نمائندے نے پیش ہوکر اپنے غیر قانونی اقدامات کو جواز کا چغا پہنانے کی کوشش کی مگر29 جولائی کو عدالت عالیہ نے اپنے فیصلہ میں محکمہ کے تمام عذر رد کرتے ہوئے پولیس ٹریننگ سکول سے تنخواہ کی ادائیگی کا حکم صادر فرمایا مگر تین ہفتے گزرنے کے باوجود پی ٹی ایس کا پے افسر ہائی کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور تا حال اس کی تنخواہ جاری نہیں کی ۔
کیڈٹ کوثر علی تنولی کے مطابق ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد پی ایس ٹی کے اہلکاروں نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر مانسہرہ کے پے برانچ کے اہلکاروں کو ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف مس گائیڈ کرنے اور پے آفیسر کو دباو میں لانے کی کوشش کی جس کی متعلقہ برانچ سے اطلاع ملنے پر اس نے ڈی ایس پی لیگل کے خلاف آئی جی پی کو درخواست دی جس پر فی الحال کاروائی ہونا باقی ہے۔
ہزارہ ایکسپریس نیوز نے متاثرہ لا انسٹرکٹر کیڈٹ کوثر علی تنولی کے اس کیس کی تحقیق کرنے اور آئی جی پی ،صوبائی محتسب اعلی سمیت مختلف فورمز پر دی گئی گئی درخواستوں اور ان میں لگائے گئیے الزامات کی تصدیق کے لئیے متاثرہ خاتون کے ساتھ دیگر فریقین سے بھی گفتگو کرکے ان کا موقف اس سٹوری میں شامل کیا ہے اور اس کیس سے جڑے شواہد اس سٹوری کا حصہ بنایا ہے۔
اس سلسلے میں متاثرہ خاتون نے تو ایک طویل تحریر میں اپنا موقف پیش کیا ہے جس کی تفصیل اوپر بیان کی گئی ہے۔جبکہ پولیس ٹریننگ سکول مانسہرہ کے ڈی ایس پی ایڈمن وحید سواتی نے اس سلسلے میں ہزارہ ایکسپریس نیوز کی طرف سے وٹس ایپ اور موبائل کال کے زریعے رابطہ کرنے پر اپنے موقف میں بتایا کہ ان کے پاس خاتون کی طرف سے لگائے گئیے الزامات کی جسٹیفیکیشن موجود ہے،جب وحید سواتی سے پوچھا گیا کہ ہائی کورٹ کی طرف سے تنخواہ کی ادائیگی کا واضع حکم جاری ہونے کے باجود آپ کے محکمہ کے پاس عدالت کے حکم کو تسلیم نہ کرنے کی کیا جسٹیفیکیشن ہے یا جواز ہے تو وحید تنولی نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ عدالت کا حکم ہمارے لیے(پولیس ٹریننگ سکول) نہیں بلکہ متاثرہ خاتون کے پیرنٹ ڈسٹرکٹ یعنی ڈسٹرکٹ پولیس آفس مانسہرہ کے لئیے ہے ،اس پر جب اس سے دوسرا سوال کیا گیا کہ ہائی کورٹ میں تو مدعی مقدمہ کی پلی ہی پی ٹی ایس کے بارے میں ہے جس میں عدالت نے بڑا واضع حکم دے رکھا ہے کہ تنخواہ پی ٹی ایس سے جاری کی جائے اور ساتھ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر مانسہرہ دو مختلف آفیشل لیٹرز کے زریعے پولیس ٹریننگ سکول مانسہرہ کو لکھ چکے ہیں کہ خاتون نے ان کے آفس کا چارج ہی نہیں لیا تو وہ کیسے اس کو تنخواہ دے سکتے ہیں ؟ اس سوال پر وحید سواتی نے جواب دینے کے بجائے الٹا ہزارہ ایکسپریس نیوز کے نمائندے سے الجھ گئیے کہ آپ سوال پوچھ رہے ہیں یا دھمکی دے رہے ہیں،جب اس سے کہا گیا کہ اس سوال میں آپ کو دھمکی کیسے نظر آگئی تب اس بات کا جواب ادھورا چھور کر دوسرا موقف اپنایا کہ اس خاتون کے الزامات غلط ہیں اور دو انکوائریوں میں اس کے خلاف فیصلہ آیا ہے اور ایس پی بلال کی طرف سے کی گئی انکوائری میں مذکورہ لا انسٹرکٹر کے الزامات جھوٹے ثابت ہوئے ہیں اس پر وحید سواتی سے ہزارہ ایکسپریس نیوز نے استفسار کیا کہ ایس پی بلال کی طرف سے کی گئی انکوائری کی فائنڈنگز آپ کے پاس ہیں آپ ہزارہ ایکسپریس نیوز کو فراہم کر سکتے ہیں تو وحید سواتی نے کہا بالکل وہ انکوائری ان کے پاس موجود ہے مگر اس وقت پاس نہیں ہے وہ کل یعنی ہفتہ 17 سترہ اگست کو فراہم کریں گے جب اس سے یہ سوال کیا گیا کہ ہزارہ ایکسپریس نیوز کی تحقیق کے مطابق ایس پی بلال نے تو انکوئری کو ادھورا چھوڑ دیا تھا اور اس نے تو کوئی انکوائری مکمل نہیں کی تو وحید سواتی نے کہا ایسا نہیں ہے آپ کی معلومات درست نہیں ہیں اگر انکوائری رپورٹ مل جائے تو آپ بتائیں کیا جرمانہ دیں گے جب ہزارہ ایکسپریس نیوز کی طرف سے کہا گیا کہ گزشتہ ایک ماہ سے اس سٹوری کی تحقیق کے دوران ان دونوں انکوائریز کا پتہ چلا تو ان کی فائنڈنگز کے لئیے کافی کوشش کر چکے ہیں اگر آپ انکوائری رپورٹ فراہم کر دیں تو ہزارہ ایکسپریس نیوز اس سٹوری کو فائنل کرکے پبلش کرے اور وحید سواتی نے انکوائری رپورٹ فراہم کرنے کے وعدے کے ساتھ فون بند کر دیا مگر دوسرے دن شام تک انتظار کرنے کے باوجود انکوائری رپورٹ ہزارہ ایکسپریس نیوز کو فراہم نہیں کی ۔وحید سواتی سے گفتگو کے کچھ ٹائم بعد پولیس ٹریننگ سکول میں تعینات ریزرو انسپکٹر قائم علی شاہ نے ہزارہ ایکسپریس نیوز کو کال کرکے کچھ قانونی مشگافیاں سمجھانے کی کوشش کی کہ جب اس کو بتایا گیا کہ متاثرہ لا انسٹرکٹر کی طرف سے دی گئی درخواست میں آپ کے خلاف بھی الزامات عائد کئیے گئے ہیں کہ آپ نے اسے کال کر کے ڈائریکٹر کے بنگلے پر کام کرنے کی ہدایت دی تھیں جس پر قائم علی شاہ نے تمام الزامات سے کلی طور پر انکار کرتے ہوئے کہا کہ مجھ پر اگر یہ الزامات ثابت یو جائے تو وہ آپ کے ( ہزارہ ایکسپریس نیوز کے نمائندے)
کے سامنے معافی مانگے گا۔اس دوران قائم علی شاہ نے ہزارہ ایکسپریس نیوز نے ہزارہ ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ پولیس ٹریننگ سکول کا میینوئل کہتا ہے کہ اگر پی ٹی ایس کا کوئی ملازم کسی لمبی چھٹی پر جائے گا تو اس کی جگہ دوسرا ملازم تعینات کیا جائے گا تاکہ کار سرکار میں عملہ کی کمی کی وجہ سے کوئی ہرج نہ پڑے ۔اس سلسلے میں سول سرونٹ کے قانونی امور کے ماہر وجیہ المک ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ قانون Prolonged illness یعنی کسی ایسی بیماری کے لیے لاگو ہوتا ہے جس میں صحت مند ہونے کی مدت غیر متعین ہو جبکہ میٹرنٹی لیو ایک متعین شدہ چھٹی ہے اور اسے Prolonged ilness کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے مذید وضاحت کرتے ہوئے ہزارہ ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ زچگی کی چھٹی ایک مخصوص قسم کی چھٹی ہے جو خواتین۔ملازمین کو اپنے نوزائیدہ بچے کی دیکھ بھال کے لئیے پہلے سے متعین شدہ مدت کے لئیے دی جاتی ہے اور یہ قانونی طور پر لازمی فائدہ ہے جو لیبر قوانین اور سروس رولز کے اندر مخصوص دفعات کے تحت چلتا ہے جبکہ دوسری طرف Prolonged illness یا طویل بیماری سے مراد ایک طبی حالت ہے جو ملازم کو طویل مدت تک اپنے فرائض انجام دینے سے روکتی ہے یا یا کسی بھی ملسزم کا لازمی فائدہ نہیں بلکہ عام طور پر طبی سرٹیفیکیٹ کی محتاج ہے۔
ایک سوال کے جواب میں وجیہ الملک ایڈوکیٹ نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں خواتین کے لئیے کام کی جگہ پر مناسب ماحول اور تحفظ فراہم کرنے کے لئیے صوبائی حکومت نے خیبر پختونخوا پروٹیکشن اگینسٹ آف وومن ایٹ دی ورک پلیس ایک 2010 کی منظوری دی ہے اس قانون میں ملازمین کی کام کی جگہ ہراساں کرنے کی تعریف اور نشاندہی کی گئی ہے جس میں ساتھی اہلکار یا افسران کی طرف سے ناپسندیدہ جسمانی،زبانی یاغیر زبانی ایسا طرز عمل جو کسی ملازم کے وقار و فلاح و بہبود کو متاثر کرتا ہو،کارکردگی میں مداخلت کرتا ہو یا ڈیوٹی کےلئیے معاندانہ ماحول پیدا کرنے کرتا ہو۔انہوں نے ہراسمنٹ کی مزید تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ ہراساں کرنے کا مطلب صرف جنسی معنوں میں ہی نہیں بلکہ نفسیاتی،جذباتی اور زبانی زیادتی ،جیسے طنزیہ جملے کسنا جیسی صورتیں بھی شامل ہیں۔انہوں کہا کہ ہراسمنٹ ثابت ہونے کی صورت میں اس قانون کے تحت سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں ۔مزید سوالات کے جوابات میں ان کا کہنا ہے کہ عدالت کے حکم کو تسلیم نہ کرنا ،سرکاری ریکارڈ میں ہیر پھیر یا غلط رپورٹنگ کرنا سب افعال ثابت ہونے پر ان کے سنگین قانونی نتائج ہیں۔