Skip to content

دس سالہ بچے سے جنسی زیادتی,مانسہرہ میں مدرسہ معلم کو عمر قید کی سزا

شیئر

شیئر

پاکستان کے ضلع مانسہرہ کی ایک عدالت نے ایک مدرسہ معلم کو اپنے مدرسہ میں زیر تعلیم دس سالہ بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے پر عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

بچے سے بد فعلی کا ملزم قاری شمس الدین پولیس کی حراست میں ( تصویر بشکریہ مانسہرہ پولیس)

شیرافضل گوجر ۔


بد فعلی کا یہ واقعہ ستاٸیس دسمبر 2019 کو صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے ایک گاؤ ں پڑھنہ میں پیش آیا جہاں کوہستان سے تعلق رکھنے والے بچے کو بد فعلی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا

مدرسہ تعلیم القران پڑھنہ میں ایک دینی درس گاہ ہے جہاں زیادہ تر غریب لوگوں کے بچے دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں، اس مدرسہ کے مہتمم مولانا شجاع الدین ہیں جو مجرم قاری شمس الدین کے بھاٸی ہیں اور قاری شمس الدین اپنے بھاٸی کے مدرسہ میں مدرس تھا اور ساتھ گورنمنٹ پرائمری سکول ٹھاکر میرا میں استاد بھی ۔

اس سلسلے میں متاثرہ بچے کے چچا علی گوہر نے میڈیا کو بتایا کہ وقوعہ سے تین ماہ قبل بچے کو مدرسہ تعلیم القران پڑھنہ میں داخل کیا گیا تھا ۔علی گوہر کے مطابق مدرسہ سے 26 دسمبر کو ہمیں فون پر اطلاع دی گٸی کہ بچہ بیمار ہے آپ آکر لے جاٸیں اور جب ہم بچے کو لینے مدرسے پہنچے تو بچہ نیم بے ہوش تھا جسے انتہاٸی تشویش ناک حالت میں ایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آباد پہنچایا گیا۔

ہسپتال میں ہوش آنے پر بچے نے بتایا کہ اس کے ساتھ بد فعلی کی گٸی ہے اور زبان بند رکھنے کے لٸیے دو دن ایک کمرے میں بند کر کےاس پر مسلسل بد ترین تشدد کیا گیا ہے ۔

مجرم کے خلاف مانسہرہ کے تھانہ پھلڑہ میں علت نمبر 254 کے تحت درج مقدمہ میں PPC-377 ,506,337Aii اور 53CPA (چاٸلڈ پروٹیکشن ایکٹ) کی دفعات شامل کی گٸیں تھیں۔

سوشل میڈیا پہ بحث چللنے کے بعد ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر مانسہرہ صادق بلوچ نے جائے بوقوعہ کا دورہ کرکے مدرسہ کو اپنی نگرانی میں مدرسہ کو سیل کر دیا تھا مگر مگر چند روز سیل کھول دی گئی ۔

چوبیس جنوری 2020 کو ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر مانسہرہ کے دفتر سے پریس ریلیز جاری ہوٸی جس میں تصدیق کی گئی کہ مجرم قاری شمس الدین نے بچے کو زبردستی بد فعلی کرنے کے بعد دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا ہے ۔

مقدمہ کے تفتیشی انچارج سب انسپکٹر محمد فیاض خان نے ہزارہ ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد کیس کی ہر پہلو سے تفتیش کی گئی اور شواہد اکٹھے گئے گئے، پولیس نے ڈاکٹر کی میڈیکولیگل رپورٹ پر جسمانی تشدد کی دفعات کا اضافہ کرکے دیگر دو بھاٸیوں شجاع الدین اور عبداللہ کو بھی شامل تفتیش کیا اور مجرم قاری شمس الدین کا ڈی این اے کروایا اور لیبارٹری رپورٹ کے مطابق قاری شمس الدین کے ڈی این اے کے نمونے متاثرہ بچے سے میچ کر گٸیے ۔فیاض خان کے مطابق گوہان کے 164 کے بیانات,ڈاکٹری رپورٹ, انجری رپورٹ اور دیگر شواہد سے ثابت ہو چکا تھا کہ بچے کے ساتھ بد فعلی کا ارتکاب جرم قاری شمس الدین نے کیا ہے۔


صادق بلوچ کے مطابق اس کیس کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوٸے پولیس نے مقدمہ کا ٹراٸل ماڈل کورٹ مانسہرہ میں کروانے کی سفارش کی تھی ۔

مفتی کفایت اللہ کی گرفتاری


مدرسہ سیل ہونے کے بعد سابق ممبر صوباٸی اسمبلی اور 2024 کے الیکشن میں حلقہ این اے پندرہ مانسہرہ سے میاں نواز شریف اور شہزادہ گشتاسپ خان کے مقابلے میں جے یو آٸی کے امیدوار مفتی کفایت اللہ اور قاری شمس الدین کے دوسرے بھائی مولانا عبدالمالک نے قاری شمس الدین کے حق میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس واقعہ کو علمائے کرام کے خلاف سازش قرار دیا اور نامزد ملزم قاری شمس الدین کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے اس کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ۔ مفتی کفایت اللہ کی پریس کانفرنس کے بعد مانسہرہ پولیس نے پریس کانفرنس کو حیرت انگیز قرار دیتے ہوئے لمحہ فکریہ قرار دیا اور قاری شمس الدین کی گرفتاری کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے,کیس کو غلط رنگ دینے ،مذہبی حلقہ سے دباو ڈالنےاور کار سرکار میں مداخلت کے الزام میں مفتی کفایت اللہ اور مولانا عبدالمالک کے خلاف تھانہ سٹی مانسہرہ میں اعانت جرم کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے ان کی گرفتاری کے لئے متعدد مقامات پر چھاپے مارنا شروع کر دئیے۔

مفتی کفایت اللہ اور قاری عبدالمالک نے اس مقدمہ میں ضمانت داخل کر کے سابق صوبائی وزیر جنگلات حاجی ابرار حسین کے ہمراہ قاری شمس الدین کو رات دس بجے کے قریب ایس پی انوسٹی گیشن کے سامنے پیش کر دیا۔دوسرے دن جب قاری شمس الدین کو ایڈیشنل سیشن جج مانسہرہ کی عدالت میں پیش کیا جا رہا تھا تو مذہبی جماعت کے کارکنوں اور قاری شمس الدین کے حمایتی عدالت میں جلوس کی شکل میں داخل ہوئے اور پولیس تحویل میں موجود قاری شمس الدین کو جج کے سامنے اعتراف جرم نہ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے” پولیس بھی ہماری ہے اور جج بھی ہمارے ہیں،گھبرانہ نہیں” کے نعرے لگاتے رہے۔


:مفتی کفایت اللہ کے خلاف مقدمہ درج ہونے اور سوشل میڈیا میں سخت رد عمل آنے کے بعد جمعیت علمائے اسلام خیبر پختونخوا کی صوبائی مجلس عاملہ نے صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا عطاالحق درویش کے لیٹر ہیڈ پر پریس ریلیز جاری کی جس میں مفتی کفایت اللہ کو پارٹی دسپلن کی خلاف ورزی کرنے اور زاتی ایجنڈے پر کام کرنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے ضلع مانسہرہ کی امارت اور جمیعت کی بنیادی رکنیت سے فارغ کرنے کا اعلان کیا۔

ملزم کو مجموعی طور پر 16 سال اور چھ ماہ قید اور دو لاکھ روپے جرمانہ کی سزا


اڑھائی سال تک ایڈیشنل سیشن جج اجمل طاہر کی ماڈل کورٹ میں یہ مقدمہ چلا اور قاری شمس الدین کو اگست دو ہزار بائیس میں مجموعی طور سولہ سال اور چھ ماہ قید اور دو لاکھ جرمانہ کی سزا سناٸی گٸی مگر مجرم نے ماڈل کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ہاٸی کورٹ ایبٹ آباد بینچ میں اپیل داٸر کر رکھی تھی تھی جس پر ہاٸی کورٹ نے مجرم کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم صادر کرتے ہوٸے کیس ایڈیشنل سیشن جج فرسٹ مانسہرہ کی عدالت کو دوبارہ بھیج کرٹراٸل مکمل کرنے کا حکم صادر کیا تھا ۔

ملزم پر قاتلانہ حملہ


ابھی کیس عدالت میں زیر سماعت تھا کہ اس ماہ چھ مارچ 2024 کو مانسہرہ میں قاری شمس الدین پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کے نتیجے میں اس کی ٹانگوں میں گولیاں لگیں اور وہ شدید زخمی ہو گیا,فاٸرنگ کی ایف آٸی آر کوہستان،پالس کے رہاٸشی فیاض ولد اقبال کے خلاف درج ہوٸی جو متاثرہ بچے کے قریبی رشتہ دار بتاٸے جاتے ہیں۔
کوہستان کے رہاٸشی محمد سعید نے ہزارہ ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوٸے بتایا کہ کوہستان میں دشمنیاں نسلوں تک چلتی ہیں ,بچے سے بد فعلی کوہستانی روایات کے مطابق اب دشمنی میں بدل چکی ہے اور دشمنی کا بدلہ لینے کے لٸیے کوہستانی کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔
مجرم پر حملہ کی تفتیش جاری تھی کہ تیس مارچ ہفتہ کے روز ایڈیشنل سیشن جج فرسٹ مانسہرہ نثار محمد خان نے قاری شمس الدین کی سزا کی مدت کو 16 سال چھ ماہ سے بڑھا کر عمر قید میں تبدیل کر دیا اور متاثرہ بچے کو حبس بے جا میں رکھ کر جسمانی تشدد کا نشانے بنانے کے الزام میں قاری شمس الدین کے ساتھ کیس میں شریک دیگر دو نوں بھاٸیوں شجاع الدین اور عبداللہ کو بری کر دیا ہے ۔شجاع الدین اور عبداللہ کچھ عرصہ جیل میں قید رہنے کے بعد ضمانت پر رہا ہوٸے تھے ۔عدالت سے عمر قید کی سزا سنائے جانے کے بعد قاری شمس الدین کو مانسہرہ ڈسٹرکٹ جیل سے ہری پور منتقل کر دیا گیا ہے۔

2023 میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم کے 4213 کیسز رپورٹ ہوئے۔

بچوں کے ساتھ ریپ کیسز رپورٹ کرنے والے ادارے ساحل کی رپورٹ کے مطابق 2023 میں پاکستان میں کل 4213 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 75 فیصد پنجاب، 13 فیصد سندھ، سات فیصد کیسز اسلام آباد، تین فیصد کیسز خیبرپختونخوا اور دو فیصد کیسز بلوچستان، جموں و کشمیراور گلگت بلتستان سے سامنے آئے،سماجی تنظیم سوشل ایمپاورمنٹ تھرو ایجوکیشن اینڈ نالج SEEK کے ڈائریکٹر ریسرچ اور فورڈھم یونیورسٹی کے ساتھ ریسرچ اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے والے محمد امتیاز کے مطابق” تین سے پندرہ سال کے بچوں کے خلاف ریپ کے کیسز کی اصل تعداد،رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد سےکہیں زیادہ ہے،امتیاز احمد کے مطابق ریپ کے کیسز زیادہ تر معاشی طور پر کمزور اور دوسروں پر مالی انحصار کرنے والے طبقات اور افراد کے بچوں کے ساتھ ہوتے ہیں ،جنہیں،دباو،دھونس دھمکی یا مالی لالچ دیکر دبا دیا جاتا ہے اور یوں متاثرہ خاندان بچوں کے خلاف جنسی استحصال کے ساٹھ سے ستر فیصد کیسز پولیس یا میڈیا کے سامنے رپورٹ نہیں کرتے،امتیاز احمد کے مطابق پولیس کے نظام میں شفافیت کے فقدان،کرپشن اور سماجی بدنامی ایسے فیکٹر ہیں جن کی وجہ سے متاثرہ خاندان پولیس پر اعتماد کرنے کے بجائے خاموشی یا علاقائی طور پر معاملے کو حل کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں،امتیاز احممد کے مطابق ایسے کافی شواہد موجود ہیں کہ ورثا کی طرف سے بچوں کی گمشدگی کی رپورٹ پولیس کے پاس درج کروائی گئی مگر پولیس اس رپورٹ کا روزنامچہ میں اندراج کرنے کے بجائے متاثرہ خاندان سے درخواست وصول کر کے تفتیش کا وعدہ کر کے ٹرخا دیتی ہے اور بعد میں گمشدہ بچوں کی ریپ اور مسخ شدہ نعشیں ملتی ہیں اور پولیس نعش ملنے کے بعد قتل کی ایف آئی آر درج کرتی ہے مگر محکمہ طور پر متلقہ ایس ایچ او سے کوئی بازپرس نہیں ہوتی چونکہ روزنامچہ میں اندراج نہ ہونے سے بچوں کی گمشدگیوں اور ان کے خلاف وائلنس کے کیسز کے درست اعداد شمار موجود نہیں ہوتے”

ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ضلع مانسہرہ کے سابق جنرل سیکرٹری سردار وجیہ الملک ایڈوکیٹ کے مطابق ”پولیس رولز 1934 کے تحت پولیس کسی بھی درخواست کو رجسٹرڈ نمبر 2 یعنی روزنامہ میں درج کرنے کی پابند ہے اور اگر پولیس جان بوجھ کر یا غفلت کے باعث روزنامچہ میں اندراج نہیں کرتی تو یہ قانون کی زبان میں ایک جرم ہے اور پولیس کی کارکردگی پر سوال ہے بلکہ پولیس آرڈر 2002 کے آرٹیکل 155 کے تحت اس غفلت پر محرر تھانہ کے لئے تین سال کی سزا مقرر ہے۔ زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری‘ بِل 2019 کے مطابق بھی رجسٹرڈ میں اندراج نہ کرنے پر سزا مقرر ہے”

۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق” پاکستان میں گزشتہ برس بچوں کے خلاف جنسی جرائم میں تیس فیصد اضافہ ہوا ہے” ۔ خیبر پختونخوا حکومت نے چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2010 میں ترمیم کرکے بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی نوعیت کے مطابق سزائے موت سمیت مختلف سزائیں تجویز کر رکھی ہیں ، اس ایکٹ کے تحت حکومت کو چائلڈ پروٹیکشن کمیشن قائم کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا ہے مگر اینڈیپینڈنٹ اردو کی سال 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ کمیشن غیر فعال ہے۔

بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے سماجی کارکن اور قانون دان محمد ادریس ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک ایسا کوئی مرکزی ڈیٹا بیس موجود نہیں جو جنسی جرائم میں ملوث افراد کی نشاندہی کر سکے یا ان کی نگرانی کر سکے،مختلف ممالک میں ”سیکس اوفینڈرز” رجسٹرڈ ہوتے ہوئے اور بچوں سے متعلق کسی بھی ادارے میں ان کو ملازمت نہیں دی جاتی،حکومتی اور سماجی سطح پر ایسے افراد سے بچوں کو دور رہنے کی آگاہی دی جاتی ہے مگر بچوں کے خلاف اگر کوئی جرم ہوتا ہے تو سب سے پہلے والدین پھر پولیس ایسے کیسز کوچھپا لیتی ہے۔ادریس اعوان نے تجویز دی ہے کہ بچوں کے خلاف کسی بھی قسم کے جرائم کے رجسٹرڈ کرنے کی آن لائن سہولت ہونے چائیے تاکہ ہر تھانے کے پاس ایسے جرائم کی شکایات کی مکمل تفصیل ہو ۔ان کا کہنا ہے کہ جہاں قانونی سقم دور کرنے کی ضرورت ہے وہیں بچوں کے بارے میں ہمیں بطور معاشرہ زیادہ احساس اور زمہ دار ہونے کی ضرورت ہے،بچوں کے خلاف جرائم کو روٹین کے جرائم سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں