اوگی
اوگی میں پروفیسر بلال اور اسسٹنٹ کمشنر چوہدری وقاص کے درمیان تنازعہ کیسے اور کیوں پیدا ہوا، اجمل سواتی کے مطابق گزشتہ روز گوگس پل پر ایک سبزی کی چھوٹی سی دکان پر واقعہ پیش آیا۔ اس دکان پر پروفیسر بلال صاحب کا بھتیجا بیٹھتا ہے۔ اس دن دکان بند تھی کیونکہ دکاندار ایک جنازے میں شرکت کے لیے تراوڑا گیا ہوا تھا۔ بعد ازاں اس دکاندار کو اطلاع دی گئی کہ وہ Assistant Commissioner (AC) کے دفتر میں حاضر ہو۔ جب وہ دفتر پہنچا تو ریڈر نے اسے بٹھایا اور بتایا کہ آپ پر پانچ ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔
اسی دوران دکاندار کے چچا، یعنی پروفیسر بلال صاحب وہاں پہنچے۔ انہوں نے ریڈر سے پوچھا کہ جرمانے کی اصل وجہ کیا ہے؟ ریڈر نے کہا کہ دکاندار کے پاس "ریٹ لسٹ” موجود نہیں تھی۔ پروفیسر بلال صاحب نے کہا کہ "ریٹ لسٹ موجود ہے، آپ مجھے AC صاحب سے ملاقات کروائیں تاکہ میں وضاحت دے سکوں”۔ مگر ریڈر نے کہا کہ AC صاحب مصروف ہیں اور ملاقات نہیں کرنا چاہتے۔ پروفیسر بلال صاحب نے درخواست لکھی اور کہا کہ میری ملاقات کی درخواست AC صاحب تک پہنچائی جائے۔
جب ریڈر نے درخواست AC صاحب تک پہنچائی تو انہوں نے ریڈر سے کہا: "تم نے بتایا نہیں کہ میں اس سے ملنا نہیں چاہتا؟” ریڈر نے جواب دیا کہ جی میں نے بتا دیا تھا۔ اس پر AC سخت غصے میں آ گئے اور حکم دیا کہ پروفیسر بلال کا شناختی کارڈ نمبر لکھا جائے اور انہیں حوالات میں بند کیا جائے۔ نتیجتاً پروفیسر بلال کو صبح 10 بجے سے دوپہر 3 بجے تک اپنے آفس کے کمرے میں حبسِ بے جا میں رکھا گیا۔ یہ سب نہایت افسوسناک اور توہین آمیز عمل تھا۔
اس کے بعد جب سہ پہر 3 بجے AC کی عدالت لگی تو وہاں گورنمنٹ ڈگری کالج اوگی کے تمام پروفیسرز موجود تھے اور وائس پرنسپل مفتی ریاض صاحب بھی وہاں پہنچے۔ عدالت کے آغاز پر جب وائس پرنسپل صاحب بات کرنا چاہتے تھے تو AC نے پولیس افسران کو حکم دیا کہ "انہیں بھی گرفتار کیا جائے”۔ یہ رویہ نہایت منفی اور افسوسناک تھا۔
عدالت کے دوران AC نے تمام پروفیسرز اور اساتذہ کے ساتھ بدسلوکی کی، انہیں بار بار "ایڈیٹس” جیسے نازیبا الفاظ سے پکارا، اور آخرکار سب کو اپنے دفتر سے باہر نکال دیا۔ اس کے بعد انہوں نے پروفیسر بلال صاحب کو دفتر میں بلا کر مزید ہراساں کیا۔ ان سے کہا:
"تم پروفیسر کیسے بن گئے؟”
"تمہیں کس نے بنایا ہے؟ کس کمیشن کے ذریعے آئے ہو؟”
"میں تمہارا ٹرانسفر یہاں سے کروا دوں گا”
"میں تمہارے خلاف یہ کر دوں گا، وہ کر دوں گا”
یہ سب واضح طور پر ہراسمنٹ، دھمکیاں اور توہین تھیں، جو کسی بھی استاد یا پروفیسر کے ساتھ سرکاری افسر کے رویے کے شایانِ شان نہیں۔
نتیجہ:
یہ پورا واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ Assistant Commissioner نے اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کیا اور ایک معزز پروفیسر کو نہ صرف حوالات میں بند کروایا بلکہ بعد میں عدالت اور دفتر کے ماحول میں بھی ان کے ساتھ بدسلوکی، دھمکیاں اور توہین آمیز زبان استعمال کی۔ یہ رویہ صرف ایک فرد کی نہیں بلکہ پورے تعلیمی نظام اور اساتذہ کی عزت و وقار کی توہین ہے۔