"شنکیاری پولیس کی غفلت یا ساز باز؟
دو بہنوں کی گمشدگی، مظلوم باپ کے
خلاف مقدمہ اور انصاف کے جنازے کا المیہ”
پولیس کی غفلت/ساز باز پر سوال
دو معصوم بچیوں کی گمشدگی
مظلوم باپ پر الٹا مقدمہ
انصاف کے قتل اور ادارہ جاتی ناکامی کا پہلو
مانسہرہ کے نواحی علاقے ویلج کونسل چہلہ باغ، گاوں چھاڑ جبوڑی سے 18 اگست 2025 کو دو معصوم بہنیں، جن میں ایک شادی شدہ اور دوسری غیر شادی شدہ تھی، پراسرار طور پر لاپتہ ہوئیں۔ 19 اگست کو والد شبیر احمد انصاف کی امید لیے تھانہ شنکیاری پہنچا اور بیٹیوں کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کروانے کی کوشش کی، مگر پولیس نے اپنی بنیادی ذمہ داری سے کھلی انحراف کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کرنے سے صاف انکار کر دیا بلکہ شکایت ایک سادہ کاغذ پر تحریر کر کے کارخاص شیر افضل (IHC) نے دو دن تک اپنے پاس دبائے رکھی، اور مبینہ طور پر دوسری پارٹی سے رشوت لے کر معاملہ دبا دیا۔ اس کے بعد یہ درخواست ایس آئی حق نواز خان کے حوالے کر دی گئی،
مگر اس دوران قیمتی وقت ضائع کر کے بیٹیوں کی بازیابی کے امکانات مزید کم کر دیے گئے۔ اس دوران والد شبیر احمد نے دل ہی دل میں قانونی کارروائی اور انصاف کی امید باندھی، مگر پولیس کی غفلت اور جانبداری روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی۔ پولیس نے نہ تو ایف آئی آر درج کی اور نہ ہی اس شخص "ساجد” کو شاملِ تفتیش کیا جس نے خود فون پر والد کو بتایا تھا کہ دونوں لڑکیاں اس کے پاس موجود ہیں۔ یہ عمل محض غفلت نہیں بلکہ باقاعدہ ملی بھگت، ساز باز اور طاقتور عناصر کے دباؤ میں انصاف کا سودا ہے۔
تئیس اگست کو جب والد نے میڈیا کے سامنے پریس کانفرنس کر کے اپنی فریاد اعلیٰ افسران اور عوام تک پہنچائی، تو پولیس نے اصل مدعی کی داد رسی کرنے کے بجائے انتہائی بدنیتی پر مبنی، غیر قانونی اور ظالمانہ اقدام اٹھاتے ہوئے 25 اگست کو متاثرہ والد کے خلاف ہی مقدمہ درج کر ڈالا۔ وہی شخص جو اپنی لاپتہ بیٹیوں کا سراغ مانگ رہا تھا، اسے داماد کی درخواست پر دفعہ 365-B (اغوا برائے زنا) جیسے بھیانک اور ناقابل ضمانت جرم میں نامزد کر دیا گیا۔ یہ اقدام انصاف کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے، جو نہ صرف انسانی ہمدردی بلکہ آئینِ پاکستان کے بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ خاص طور زندگی اور آزادی کا تحفظ اور قانون کے سامنے برابری کی پامالی اس کیس میں واضح نظر آتی ہے۔
اصل معاملہ دو بہنوں کی گمشدگی
اور ان کی بازیابی پس منظر میں دھکیل کر والد کو مجرم بنا کر پیش کرنا محض پولیس کی نااہلی نہیں، بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قانون کمزور کے لیے نہیں، بلکہ طاقتور اور اثر و رسوخ رکھنے والوں کے لیے ڈھال بنا ہوا ہے۔ یہ طرزِ عمل پولیس کے کردار پر سنگین سوالیہ نشان ہے۔ یہاں ایک غریب شہری کے لیے انصاف مانگنا جرم، اور طاقتور کے لیے قانون شکنی سہولت بن گئی ہے۔ میڈیا کے ذریعے اپنی فریاد عوام تک پہنچانا بجائے تحفظ دینے کے، والد کے خلاف انتقامی کارروائی کی بنیاد بنا۔ یہ ایک افسوسناک مگر کڑوی حقیقت ہے کہ عوام کے محافظ ہی مظلوم کو ظالم اور مدعی کو ملزم بنا کر انصاف کا جنازہ نکال رہے ہیں۔
یہ سوال بجا ہے کہ اگر اس ملک میں واقعی قانون موجود ہے تو کیا ایک والد اپنی لاپتہ بیٹیوں کی بازیابی کی جدوجہد کرتے ہوئے ملزم بنایا جا سکتا ہے؟ کوئی باپ اپنی بیٹیوں کو زنا یا اغوا جیسے مکروہ جرم میں شامل نہیں کر سکتا — یہ الزام سراسر مضحکہ خیز اور ظلم کی انتہا ہے۔ لیکن شنکیاری پولیس نے جس دیدہ دلیری سے اصل مظلوم کو مجرم اور اصل مجرم کو محفوظ بنایا ہے، وہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ یہاں انصاف طاقتور کی جیب میں اور غریب کی دسترس سے ہمیشہ باہر ہے۔
یہ واقعہ نہ صرف مانسہرہ پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے بلکہ ریاستی انصاف کے پورے ڈھانچے پر ایک بدنما داغ ہے۔ اس گھناونے کھیل کو روکنے اور اصل مجرموں کو بے نقاب کرنے کے لیے اعلیٰ عدلیہ اور آزاد انکوائری کمیشن کی فوری مداخلت ازحد ضروری ہے۔ ورنہ یہ واقعہ محض ایک خاندان کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی بے بسی کی علامت بن کر رہ جائے گا، جہاں انصاف کا جنازہ پولیس خود اپنے کندھوں پر اٹھائے پھر رہی ہے۔
محرر تھانہ شنکیاری ان سوالات کے جوابات دے
- کیا 18 اگست کی گمشدگی کی اطلاع روزنامچہ میں درج کی گئی؟ اگر نہیں، تو کس قانونی جواز کے تحت انحراف کیا گیا؟
- درخواست پر دفعہ 154 ضابطہ فوجداری کے تحت فوری ایف آئی آر کیوں درج نہ کی گئی؟
- 19 اگست کو موصولہ تحریری درخواست پر کیا کارروائی کا اندراج کیا گیا؟
- سائل کو کوئی رسید یا تحریری اطلاع کیوں فراہم نہ کی گئی؟
- میڈیا پر معاملہ آنے کے باوجود اعلیٰ حکام کو بروقت رپورٹ کیوں نہ بھیجی گئی؟
- 25 اگست کو داماد شہزاد کی درخواست پر مقدمہ درج کرتے وقت گمشدگی کی ابتدائی درخواست کو کیوں نظرانداز کیا گیا؟
ایس ایچ او تھانہ شنکیاری ان سوالات کے جوابات دے
- متاثرہ والد کی بروقت اطلاع کے باوجود مقدمہ درج کرنے میں تاخیر کیوں ہوئی؟
- ساجد نامی شخص کو شاملِ تفتیش کیوں نہیں کیا گیا؟
- گمشدہ بہنوں کی بازیابی کے لیے لوکیشن ٹریس اور دیگر فوری اقدامات کیوں نہ کیے گئے؟
ڈی ایس پی سرکل شنکیاری ان سوالات کے جوابات دے
- بطور نگران افسر، ایس ایچ او کی کارروائی پر آپ نے کیا نگرانی کی؟
- تاخیر اور کوتاہی پر کیا محکمانہ اقدامات کیے؟
- کیا متاثرہ خاندان سے براہِ راست رابطہ کر کے ان کا مؤقف سنا؟
- کیا آپ نے اپنے ریکارڈ میں یہ یقینی بنایا کہ کارروائی ضابطہ فوجداری اور پولیس رولز کے مطابق ہو رہی ہے؟
ایس پی سٹی مانسہرہ ان سوالات کے جوابات دے
- آپ نے واقعہ پر فوری نوٹس کیوں نہ لیا؟
- شہریوں کی شکایات پر بروقت کارروائی پولیس ایکٹ 2017 کے تحت آپ کی ذمہ داری ہے، یہ اصول کیوں نظرانداز ہوا؟
- ایس ایچ او، محرر اور انکوائری افسران کی کارکردگی کا جائزہ لے کر کیا کارروائی کی؟
- متاثرہ فریق سے براہ راست رابطہ کیوں نہ کیا گیا؟
- کیا آپ تسلیم کرتی ہیں کہ بروقت کارروائی سے والد کو عدالت اور میڈیا کے سامنے آنے کی ضرورت نہ پڑتی؟
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (DPO) مانسہرہ ان سوالات کے جوابات دے
- گمشدگی کے مقدمے کے بجائے والد کے خلاف مقدمہ کس کی اجازت سے درج ہوا؟
- میڈیا پر معاملہ آنے کے بعد آپ نے از خود نگرانی کیوں نہ کی؟
- کیا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ اقدام انصاف کی بجائے متاثرہ خاندان کو دبانے کے مترادف ہے؟
- ضلع کے پولیس کمانڈنگ آفیسر کے طور پر اس سنگین ناکامی کی ذمہ داری آپ کس پر عائد کرتے ہیں؟
- عوام کے اعتماد کی بحالی کے لیے آپ کیا اقدامات کریں گے؟
ڈی آئی جی ہزارہ ان سوالات کے جوابات دے
- ماتحت پولیس کی نااہلی اور جانبداری پر آپ کے دفتر نے نوٹس کیوں نہ لیا؟
- کیا یہ درست ہے کہ محرر اور SHO نے حقائق مسخ کیے؟
- متاثرہ فریق کے بنیادی آئینی حقوق پامال ہونے پر آپ نے کیا کارروائی کی؟
- کیا اس معاملے پر شفاف انکوائری کا حکم دیا گیا؟
- کیا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ ضلع مانسہرہ پولیس نے "قانون کی حکمرانی” کو مجروح کیا ہے؟
- مستقبل میں عوامی اعتماد بحال کرنے کے لیے آپ کیا عملی اقدامات کریں گے؟
یہ واقعہ نہ صرف شنکیاری پولیس کی کارکردگی پر بلکہ پورے پولیس نظام اور ریاستی انصاف کے ڈھانچے پر ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔ اگر فوری شفاف اور آزادانہ انکوائری نہ کی گئی تو یہ واقعہ محض ایک خاندان کا سانحہ نہیں رہے گا بلکہ پورے معاشرے کی بے بسی اور قانون کی ناکامی کی علامت بن جائے گا۔