Skip to content

زین رشید: ایک خواب جو سڑک پر کچل دیا گیا

شیئر

شیئر

رابعہ سید
لاہور کی پُرآسائش سڑکوں پر ایک نوجوان، زین رشید، زندگی کے خواب آنکھوں میں بسائے اپنے گھر کی جانب رواں دواں تھا۔ وہ کسی ماں کا لختِ جگر، کسی باپ کا سہارا، کسی بہن کا مان، اور ایک مزدور نوجوان تھا جو دن رات کی محنت سے اپنی زندگی بہتر بنانے کی جستجو میں تھا۔

زین، جو فوڈ پانڈا کا رائیڈر تھا، لاہور کے علاقے ڈیفنس فیز 6 میں اپنی خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ دن کی دھوپ ہو یا رات کی تاریکی، بارش ہو یا تھکن کا پہر، یہ نوجوان خندہ پیشانی سے اپنے فرائض نبھاتا تھا۔ زندگی کے چھوٹے چھوٹے خواب، چھوٹے چھوٹے سہاروں سے جوڑ کر وہ محنت کی راہوں پر رواں دواں تھا۔ کیا اسے معلوم تھا کہ ایک دن اس کی زندگی کا چراغ یوں بجھ جائے گا، بغیر کسی قصور کے، محض کسی اور کی لاپرواہی، غرور اور غفلت کے باعث؟

31 جولائی، جمعرات کی صبح قریباً 5 بجے، جب زین اپنے کام سے واپس گھر جا رہا تھا، دو نوجوانوں نے، جو کہ اپنی مہنگی گاڑی کو خطرناک انداز میں زِگ زیگ چلا رہے تھے، پیچھے سے آ کر زین کے موٹرسائیکل کو ٹکر ماری۔ زین اپنی بائیک سمیت گاڑی کے آگے جا پھنسا اور سر پر شدید چوٹ آئی۔ لیکن ظلم یہاں ختم نہیں ہوتا. ان نوجوانوں نے رکنے کے بجائے گاڑی کو بھگایا اور زین کو تقریباً 300 میٹر تک سڑک پر گھسیٹتے لے گئے، حتیٰ کہ اس کی سانسیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئیں۔

زین وہ نوجوان تھا جس کے پاس صرف ایک خواب تھا: عزت سے جینا، محنت کر کے روزی کمانا۔ لیکن اس کا مقدر طاقت کے نشے میں چُور چند نوجوانوں کے ہاتھوں بے دردی سے چھین لیا گیا۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ گاڑی میں موجود ان نوجوانوں کے پاس نہ کوئی شناختی کارڈ تھا اور نہ ہی ڈرائیونگ لائسنس۔ مزید تفتیش پر یہ بات سامنے آئی کہ یہ کسی بااثر خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ گرفتاری کے بعد بھی ان کے چہرے پر ندامت کے بجائے بے حسی اور تکبر کی جھلک تھی، جیسے یہ جانتے ہوں کہ قانون ان کے لیے کھلونا ہے، اور انصاف صرف کمزوروں پر لاگو ہوتا ہے۔

زین کی موت ایک حادثہ نہیں، یہ ایک سماجی جرم ہے۔ یہ نظام کی کمزوری، قانون کی بے بسی، اور طاقتوروں کے غرور کا شاخسانہ ہے۔ غریبوں کے لیے سڑکیں، قانون اور انصاف سب مختلف ہو جاتے ہیں۔ ایک مزدور رائیڈر کی جان گویا ایک "کیڑے مکوڑے” سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔

ہم سب کا فرض ہے کہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں۔ سوشل میڈیا پر اس واقعے کو اجاگر کریں، انصاف کی راہ میں خاموشی اختیار نہ کریں۔ زین واپس نہیں آ سکتا، لیکن ہم اس کے لیے انصاف کی لڑائی لڑ سکتے ہیں، تا کہ آئندہ کوئی اور زین یوں بے رحمی سے نہ مارا جائے۔

یہ ایک اپیل ہے… انسانیت کے نام، انصاف کے نام، اور ان ہزاروں رائیڈرز کے نام جو روزانہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہمارے دروازے تک کھانا پہنچاتے ہیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں