بفہ ضلع مانسہرہ میں خواتین کی ادبی اور ثقافتی تقریب کا انعقاد
بفہ ضلع مانسہرہ میں خواتین کی ادبی و ثقافتی تنظیم (لکیوالے جینئی بفہ ہزارہ) نے ایک ادبی و ثقافتی تقریب کا اہتمام کیا جس کی صدارت پروفیسر حفیفہ داؤد نے کی جبکہ معروف ادیب پروفیسر ڈاکٹر یار محمد مغموم مہمان خصوصی تھے۔دیگر خاص مہمانوں میں یو کے سے ائی ہوئی 2 خواتین مہمان مسں عابدہ اور مسں ممتاز کے علاوہ ڈاکٹر عطا اللہ خان، محمد اقبال خان اور مہر خلیل شامل تھے۔تنظیم نے اس موقع پر ایک ثقافتی نمائش کا بھی اہتمام کیا تھا جس میں خواتین کے ہاتھ کی کشیدہ کاریاں رکھی گئی تھیں جن میں تکیے اور سرہانے کے غلاف، میز پوش، مختلف قسم کی چادریں اور ڈیکوریشن کے نمونے شامل تھے۔تنظیم کی صدر رمشاہ خان سواتی نے بتایا کہ نمائش کا مقصد نئی نسل کو اپنی ثقافت اور خاص طور پر خواتین کی دستکاریوں سے روشناس کرانا ہے۔یہ اس تنظیم کی پہلی کوشش ہے اور اس کا دائرہ کار پھیلا کر پورے ہزارہ سے دستکاریاں اکٹھی کر کے محفوظ کیا جائے گا۔تقریب دو حصوں پر مشتمل تھی، پہلے حصے میں تنظیم کے مقاصد اور اہمیت پر عین الریاض، مقدس اور ڈاکٹر اسماعیل گوہر نے گفتگو کی جبکہدوسرا حصہ رمشاہ خان سواتی کی کتاب فرہنگ حسین ملک پوری کے تعارف پر مبنی تھا۔کتاب پر عین الریاض، پروفیسر عطا اللہ شاہ چیئرمین اردو ڈیپارٹمنٹ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مانسہرہ محمد اقبال خان،مہر خلیل ڈپٹی ڈائریکٹر ہزارا یونیورسٹی میوزیم ڈاکٹر عطا اللہ خان پرنسپل ہائر سیکنڈری سکول بفہ اور مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر یار محمد مغموم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مقررین نے رمشاہ خان سواتی کی ہزارہ کے کلاسیکی شاعر حسین ملک پوری کے دیوان کا فرہنگ کتابی صورت میں شائع کرنے کے امر کو سراہا۔ یہ ان کا بی ایس پشتو کا تھیسز ہیں۔حسین ملک پوری ضلع مانسہرہ کے گاؤں ملک پور میں 400 سال پہلے پیدا ہوئے تھے۔ان کے دیوان میں قدیم الفاظ پائے جاتے ہیں، جن کے سمجھنے میں عام قاری کو مشکلات پیش آتی ہیں،یہ فرہنگ دیوان کی سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگا۔یو کے سے آئی مہمان خواتین مس عابدہ اور مس ممتاز اور ادارہ علم و ادب بفہ کے صدر سہیل خان نے بفہ میں خواتین کی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کو سراہا اور اس کو خواتین کی ترقی کا سفر قرار دیا۔انہوں نے تنظیم کے ساتھ مالی اور اخلاقی تعاون کا وعدہ کیا۔تنظیم کی صدر رمشاء خان سواتی نے اس موقع پر کہا کہ اس سے قبل میری کتاب پشتو ادبی اصطلاحات شائع ہوئی تھی جس پر ادباء کی جانب سے بہت حوصلہ ملاتھا۔ اب اس دوسری کتاب پر سینیئر ادباء نے جس طرح اظہارِ خیال کیا اور میری محنت کو سراہا، یہ میرے لئے اعزاز ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم ادب کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت کو زندہ رکھنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔یاد رہے کہ یہ ہزارہ میں خواتین کی پہلی ادبی اور ثقافتی تنظیم ہے۔