Skip to content

ویلفیئر ایسوسی ایشن جرید کے زیر اہتمام عمر اصغر خان کی برسی کا انعقاد

شیئر

شیئر

ویلفیئر ایسوسی ایشن جرید کے زیر اہتمام عمر اصغر خان کی 23 سالہ برسی کا انعقاد ہیڈ آفس میں کیا گیا جس میں عمر اصغر کے سابقہ کولیگ اور دوستوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
برسی میں مردان، لورہ سرکل، ہری پور، تناول ،مانسہرہ، کاغان ویلی، بٹگرام، اور دیگر علاقوں کے دوستوں نے شرکت کی اور عمر اصغر خان کے کاموں اور محروم و نظر انداز لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی پر تبادلہ خیال کیا۔
عمر جاوید ڈائریکٹر پروگرام نے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور عمر صاحب کی ساتھ گزرے دنوں پر بات کی۔ ممتاز تنولی صاحب ،لعل محمد آفریدی،نعیم سرور خان، شعور اقبال، ابو تراب، شبانہ کوثر، سعدیہ ، رفیق عباسی، کامران مشتاق، یاسر عباسی ، انجنیئر عامر، انجنیئر عاطف، اعجاز خان ، ڈاکٹر امجد، شعیب خان،راجہ فواد احمد، غلام سرور، محمد افسر، معذاللہ خان ،جہانزیب، وحید خان، عتیق الرحمان ، اختر جلیل، صداقت علی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور عمر اصغر خان کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔
ویلفیئر ایسوسی ایشن جرید کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مختار جاوید نے عمر صاحب کے ساتھ گذرے دنوں پر بات کی اور اپنی یاداشتیں شیئر کیَ اور بتایا کہ عمر صاحب نے سنگی کو کس طرح ایمانداری، محنت و لگن اور جذبہ انسانی ہمدردی سے ملک کا بہترین ادارہ بنایا۔
مختار جاوید نے اپنی ایک تیار کی گئ پرییزینٹیشن میں سنگی کے ان تمام کولیگ کی تصاویر برسی میں موجود شرکا کو سکرین پر دکھائیں جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان دوستوں میں تاج لالہ، شبانہ کوثر،مختار باچا، آی اے رحمان، رافعہ خواجہ، عابد لالہ، محمد علی، عبدالستار، حمیدہ بی بی ، بشیر صاحب، خورشید لالہ، نعیم ماما، مشتاق لالہ، ڈاکٹر فارق، سلیم صاحب،شجاع خانزادہ، مظہر شاہ، کرامت علی، ثمینہ کوثر، عارف راز،با با سردار حیدر زمان ،رحیم اللہ یوسف زئی، طارق خان فلم سٹار، گل رحمان، نور عالم لالہ، نثار، احمد گل، نائلہ بی بی، صدیق صاحب، خرم، جمشید، سلطان بہادر، بابرلطیف، رابعہ بی بی، کہکشاں ضیاء مفتی ، سعیداللہ، شیخ اسد رحمان، سردار سرفراز، کرامت علی، گل شریف، سردار ذاکر شامل ہیں۔ انہوں نے عمر اصغر خان پر ڈاکومینٹری اور سٹاف کی طرف سے تیار کیا گیا گانا ” مت سمجھو ہم نے بھلا دیا چلایا:”
نعیم سرور خان نے بتایا کہ عمراصغر خان اور ائر مارشل اصغر خان نے ملک میں سماجی اور سیاسی نرسریوں کو قائم کیا مگر افسوس کہ ان نرسریوں سے پروان چڑھنے والے درخت تو قد آور ہو گئے مگر ادارے پروان نہ چڑھ سکے ۔ انہوں نے اپنی یادیں دوستوں کے ساتھ شیئر کیں۔
آخر میں ممتاز تنولی صاحب نے سب کاشکریہ ادا کیا اور بتایا کہ عمر اصغر خان کو یاد کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک میں ایمانداری، شفافیت اور جواب دہی کے کلچر کو فروغ دیں اور اپنی زندگیوں میں ان کے اصولوں کو اپنائیں۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں