Skip to content

سندھ اور وفاق کا تصادم

شیئر

شیئر

ڈاکٹر جزبیہ شیریں

مورو سندھ میں حالیہ احتجاجوں نے ایک بار پھر اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ صوبہ سندھ میں وفاقی حکومت کی پالیسیوں کے اثرات پر عوام کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ ان احتجاجوں کا آغاز سندھ میں گرین پاکستان منصوبے کے خلاف ہونے والی احتجاجی مظاہروں سے ہوا، جس میں پولیس کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں کئی افراد زخمی ہوئے اور ایک شخص کی ہلاکت ہوئی۔ اس احتجاج کے دوران سندھ کے وزیر داخلہ زیاالحق لنجار کے گھر کو بھی نذر آتش کیا گیا۔ یہ سب کچھ سندھ میں پانی کی تقسیم کے مسئلے اور صوبے کی وسائل پر اجارہ داری کے بڑھتے ہوئے غصے کا عکاس ہے۔

سندھ کے لوگ عرصے سے وفاقی حکومت کی پالیسیوں اور منصوبوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، جنہیں وہ اپنی زمینوں اور وسائل پر حملہ تصور کرتے ہیں۔ گرین پاکستان منصوبہ، جس میں سندھ کے پانی کو پنجاب میں موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس پر سندھ میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ سندھ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے ان کی زرعی زمینوں کو نقصان پہنچے گا اور ان کی روزگار کا واحد ذریعہ، یعنی زراعت، متاثر ہوگا۔ اس احتجاج کا اصل مقصد وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ کے وسائل پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔

اس پورے مسئلے کی جڑ سندھ میں پانی کی کمی اور اس کے غیر منصفانہ تقسیم میں ہے۔ سندھ کے کسان اور عوام عرصے سے اس بات پر احتجاج کر رہے ہیں کہ سندھ کو اس کے حصے کا پانی نہیں مل رہا اور پنجاب کے بڑے منصوبوں کی وجہ سے سندھ کی زمینوں کی زرخیزی اور آبپاشی متاثر ہو رہی ہے۔ سندھ کے عوام کا یہ ماننا ہے کہ ان کے حقوق کا استحصال ہو رہا ہے اور ان کی آوازوں کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا۔ اس ضمن میں سندھ کی عوام نے 1991 کے پانی کی تقسیم کے معاہدے کا بھی ذکر کیا ہے، جس کے تحت پانی کی منصفانہ تقسیم کی بات کی گئی تھی، لیکن وہ ابھی تک نافذ نہیں ہو سکا۔

گرین پاکستان منصوبہ دراصل ایک وفاقی حکومت کا منصوبہ ہے جس میں درخت لگانے اور دیگر ماحولیاتی منصوبوں کے تحت سندھ کے پانی کے وسائل پر بھی اثرات پڑ رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کے اس اقدام نے سندھ کے کسانوں اور عوام کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے، خاص طور پر ان منصوبوں میں سندھ کے حصے کے پانی کو پنجاب کے علاقے میں موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سے سندھ کی زراعت اور اس کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کے اس منصوبے نے سندھ کے عوام میں بے چینی اور غم و غصے کو جنم دیا ہے کیونکہ سندھ کے عوام سمجھتے ہیں کہ وفاقی حکومت ان کے حقوق کو پامال کر رہی ہے اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

پیپلز پارٹی (PPP) نے سندھ میں برسوں سے حکومت کی ہے، لیکن سندھ کی ترقی اور خوشحالی کی بات کریں تو اس میں واضح کمی نظر آتی ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ میں کوئی نمایاں ترقیاتی کام نہیں کیا۔ بنیادی سہولتوں جیسے تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی میں بھی خاطرخواہ بہتری نہیں آئی ہے۔ سندھ کے دور دراز علاقوں میں اب تک سڑکیں نہیں بن سکیں، اور نہ ہی یہاں کے تعلیمی ادارے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے مناسب توجہ حاصل کر سکے ہیں۔

سندھ کے غریب عوام، خاص طور پر کسانوں، محنت کشوں اور مزدوروں کی حالت انتہائی خراب ہے۔ بے روزگاری اور غربت نے انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ سندھ میں تعلیم کی شرح بھی دیگر صوبوں کی نسبت کم ہے اور سندھ کے دیہی علاقوں میں اکثر بچے اسکول جانے کے بجائے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ، سندھ کے علاقوں میں صحت کی سہولتوں کا فقدان بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ علاج معالجے کے لئے لوگ کئی کلومیٹر دور شہروں کا رخ کرتے ہیں، لیکن وہاں بھی ناکافی سہولتیں انہیں مزید مایوس کر دیتی ہیں۔

سندھ میں زراعت پر انحصار کرنے والے کسانوں کے لئے حالات انتہائی مشکل ہیں۔ پانی کی کمی، فصلوں کی خراب حالت اور بیروزگاری نے ان کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس سلسلے میں چند اقدامات کیے ہیں، لیکن ان کے اثرات بہت محدود نظر آتے ہیں۔ سندھ کے کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت کی طرف سے صرف وعدے ملے ہیں، لیکن ان وعدوں کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔ ان کا ماننا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اپنے مفادات کے لئے سیاست کی ہے، لیکن سندھ کے عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کے حوالے سے سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ عوامی مسائل کے حل کی بجائے اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دیتی ہے۔ حکومت کی جانب سے سندھ کی عوام کے لیے کوئی موثر پالیسی نہیں بنائی گئی، اور جو پالیسی بنائی بھی گئی ہے، وہ عوامی فلاح کی بجائے اپنی سیاسی طاقت کو مستحکم کرنے کے لئے استعمال کی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے کبھی بھی سندھ کے عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ نہیں دی، بلکہ ان مسائل کو نظرانداز کر دیا ہے۔

وفاقی حکومت کی گرین پاکستان پالیسی سندھ کے لوگوں کے حقوق پر ایک اور حملہ ہے، اور اس میں پیپلز پارٹی کی خاموشی سندھ کے عوام کے لئے مزید تشویش کا باعث بن رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اگر سندھ کے عوام کی نمائندگی کرتی ہے تو اسے وفاقی حکومت کے اس منصوبے کی مخالفت کرنی چاہیے تھی اور سندھ کے مفادات کا دفاع کرنا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پیپلز پارٹی اس حوالے سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکی، جس کی وجہ سے عوام میں مایوسی اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔

آخرکار، پیپلز پارٹی کو سندھ کی ترقی کے لئے زمین سے جڑ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانی ہوگی، سندھ کے عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوگا اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو سندھ میں عوام کا غصہ مزید بڑھے گا اور پیپلز پارٹی کو ایک اور سیاسی چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اپنی رائے دیں

متعلقہ پوسٹس

دوسری زبان میں ترجمہ کریں